1970 کے بعد نئے ادبی رویئے ۔۔۔ رشید مصباح
1970 کے بعد نئے ادبی رویئے
رشید مصباح
1970 ء کے بعد ابھرنے والے ادبی رویوں پر بحث کرنے سے پیشتر میں پاکستانی
ادب کی ہیت پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ نا عاقبت اندیش ادیبوں کی ایک اچھی خاصی کھیپ پاکستانی ادب کے وجود سے ہی انکار کرتی ہے۔ وہ ملکی ادب سے کئے ہوئے قومیتی ادب کو ہی کل سمجھتے ہیں اور باقی سب کچھ ہیر پھیر ہے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے پیچھے جو چیزمرکزی حیثیت رکھتی ہے وہ ہے اُردو زبان کی متنازعہ حیثیت ۔۔۔۔ مگر میرے نزدیک مسئلہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ قومیتی ادب صرف ایک خاص سماجی، رشتوں میں بندھی ہوئی قومیت کے سماجی مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ ریاست کے کردار سے گریز پا ہوتا ہے اس لئے اگر مجھے قومیت کے دائرہ میں بند ہو کر لکھنا پڑے تو مجھے ملکی سطح پر ادب میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے لئے چار مضمون لکھنے پڑیں گے۔ یا پھر ایک ہی ایسا مضمون جس میں چار قومیتوں کے ادب کے خارجی رابطوں پر بحث ہو۔ لیکن پاکستان کی سرحدوں کے اندر پیدا ہونے والے ادب کا تجزیہ کرنے کا یہ طریقہ کار موجودہ صورت حال میں سائنسی اور حقیقت پسندانہ نہیں۔
میں صرف ان ادبی رویوں کا مختصر تجزیہ کرنے جارہا ہوں جو پاکستان میں بسنے والی چار
قومیتوں کے ایک کل میں موجود پیداواری طریقوں اور رشتوں کی بنیاد پر تشکیل شدہ سماجی مزاج کا اظہار کرتیں ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قومیت کی سطح پر کئی صدیوں سے پیداواری رشتے
موجود ہیں۔ جن کے نتیجے میں ہر قومیت کا ایک مخصوص سماجی مزاج اپنا وجود رکھتا ہے۔ لیکن
پاکستان کے وجود میں آنے اور ملک میں محدود حد تک صنعتوں کے قیام کے سبب نئے پیدا شده پیداواری رشتوں نے قومیتوں کے باہمی اشتراک سے ملکی سطح پر نئے سماجی نظام کو بھی جنم دیا۔ اس سماجی مزاج کو ہم قومی مزاج بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی سماجی مزاج پاکستانی سماجی مزاج ہے۔ اسی پاکستانی سماجی مزاج کا اظہار پاکستانی ادب کی صورت میں ہو رہا ہے۔ اس نئی صورت حال میں تمام قومیتوں کا ادب پاکستانی ادب کے مختلف اجزا کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اجزا اپنے پرانے پیداواری رشتوں میں بھی اپنی جگہ مکمل اکائی ہیں
دوسری طرف یہ ضروری نہیں کہ پاکستانیادب صرف اردو زبان میں ہی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ پاکستانی ادب کا ایک بڑا حصہ اردو زبان میں موجود ہے مگر سندھی، بلوچی، پشتو، سرایئکی، پنجابی اور دیگر زبانوں میں بھی پاکستانی ادب ہی لکھا جا رہا ہے جو مخصوص مزاج کی حدود پھلانگ کر پورے پاکستان کی حدود کو چھوتا ہے اور ہر قومیت کے فرد کی سماجی حیثیت و بھی متاثر کرتا ہے۔ منفی سوچ کے قومیت پرستوں کا ایک بہت بڑا گروہ قومیتی ادب میں آنے والی اس تبدیلی کو روکنے میں شدت سے مصروف ہے اور ایسا ادب تخلیق کر رہا ہے جو پاکستانی ادب تو ایک طرف خود پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کے جراثیم پھیلا رہا ہے۔ اس گروہ میں
ایسے بہت سے ادیب بھی شامل ہیں جو بظاہر بین الاقومیت پسندی کے دعوے دار ہیں مگر پاکستان
کے دشمن میں اور اپنی تحریروں میں جعلی بین الاقوامیت کے مصلحتی لفافوں میں قومیتی شاونزم کی زہریلی گولیاں خود بھی نگل رہے ہیں اور متحد ہوتے ہوئے کروڑوں پاکستانیوں کو بھی کھلا رہے ہیں۔
ان قومیت پرست شاونسٹوں کے نئے منفی رویوں کے ردعمل میں پاکستانی ادب میں
بھی ایک خطر ناک لہر اٹھی ہے ۔ یہ ہر قومیتی ادب کے سرے سے نفی کرنے کی ہے۔ یہ لہر نئی صورت حال میں اس لئے اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں اُردو بولنے والے طبقے کی استحصالی حیثیت پر بہت زبردست چوٹ پڑی ہے۔ یہ لہر بذات خود پاکستانی ادب کی بنیادوں کے خلاف قومیتی شاونسٹوں کا پلہ بھاری کرنے کا موجب بنتی ہے۔
پاکستانی ادب میں چند دہائیوں میں بہت اہم تبدیلیاں آئیں ہیں۔ پہلی اہم تبدیلی یہ ہے کہ ” ادب برائے اد﷽” کا نظریہ اپنی شکل تبدیل کر کے ” ادب برائے اصلاح” کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ نئی شکل 1960 کے بعد پاکستانی ادب میں تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی ترقی پسندی کی لہر کے نتیجے میں ظاہر ہوئی ہے کہ اب پاکستان میں رجعت پسندوں اور ظالم لکھاریوں کے لیے پرانے سائن بورڈ تلے بیٹھ کر عوام کو گمراہ کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گیا ہے۔ویسے بھی ادبی دنیا میں موجود باہمی دشمن طبقات کے نظریوں کے درمیان توازن طاقت بگڑ چکا تھا۔ اس توازن کو درست کرنے کا ذریعہ رجعت پسند کے لیے ادب برائے اصلاح پسندی ( یا لبرل ازم ) کا نظریہ بنا۔ ادب برائے اصلاح کا نظریہ جدید دور میں پیدا ہونے والا نیا ما بعد الطبعاتی نظریہ ہے۔ پرانے سے اس کا بس اتنا فرق ہے کہ یہ ذرا لبرل اذم کا شکار ہے اور بدلی ہوئی صورت حال کے مطابق ہے لیکن حقیقت میں ادب برائے ادب سے زیادہ خطرناک ہے۔ اور عوام ( یہاں عوام سے مراد پڑھے لکھے افراد ہیں ) کو آسانی سے لبھانا ہے۔ علاوہ ازیں رجعت پسندوں کو ترقی پسند ادب پر حملے کرنے کے لیے موثر ہتھیار فراہم کرنا ہے۔ یہ نظریہ ملک میں پھلتے پھولتے ہوئے بورژوا کی خدما بجا لاتا ہے اور بورژوا کی ضرورت کے مطابق ایک خاص سطح تک جاگیردارانہ قدروں اور مذہبی رحجانات پر ضرب لگاتا ہے۔ اصلاح پسندی کی بذات خود کئی اقسام میں جن میں انتہائی جدید اصلاح پسند ادیب مارکسی اصلاحوں کے ڈھانچے پر اپنا اصلاح پسند نقطہ نظر تشکیل دے رہے ہیں۔
ترقی پسنداد بی نظریات اور رجعتی ادبی نظریات کی اس نئی جنگ جو 1970ء کے بعد
بہت شدید ہوگئی ہے نے پاکستانی ادب کی اصتلاحوں کے مفہوم کو ہی بدل دیا ہے اور روایتوں اور
کہاوتوں کے بڑے حصے کو نئے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ یہ نیا قالب اپنی ظاہری شکل میں مادی
مگر مفہوم میں اصلاح پسندانہ ہے قومیتی زبانوں اور اُردو زبان کے لفظ اپنے پرانے معنی کھور ہے
ہیں اور اپنی نئی بنیادیں تلاش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے خطے میں انگریزوں کی آمد کے بعد یہ دوسرا اہم موقعہ آیا ہے کہ لفظ بہت تیز رفتاری سے اپنے مفہوم بدل رہے ہیں۔ الفاظ کے معنی کی یہ تبدیلی صرف اور صرف شہروں اور وہ بھی بڑے شہروں تک محدود ہے کیونکہ ہمارے ہاں شہروں اور دیہاتوں کے درمیان ابلاغ کے مضبوط رشتے موجود نہیں اور جو تھوڑے بہت رشتے ہیں وہ صرف رجعتی ادیبوں اور طبقوں کے قبضے میں ہیں جو ہمارے دیہاتوں کو ان تبدیلیوں سے محروم رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک کا ایک اہم ترین المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے ادبی اور سماجی رویے
جو خالص سرمایا دارا نہ صنعتی ماحول سے تعلق رکھتے ہیں ،در آئے ہیں۔ حالانکہ ہمارا معاشرہ
معتی ترقی کے ابتدائی دور میں ہے اور ہمارے ہاں تمام تر پیداواری رشتوں پر جاگیرداری تہذیب
حاوی ہے۔ نتیجتا ایک پڑھے لکھے فرد کی سماجی ضروریات اور ایک عام فرد کی سماجی سوچ
میں لمبا چوڑا فرق ہے۔ ہمارا پڑھا لکھا فرد پیداواری عمل سے کافی کٹا ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر اس
کی دسترس استحصال کندہ کے لئے ملازم کی سی ہے نتیجتا عوام کے لفظوں کے معنی اورادیبوں
کے لفظوں معنی میں بہت بڑا فرق ہے۔
سماجی زندگی کے اس خلا نے نہ صرف لفظوں کے معنی بدل دیئے ہیں اور ادیبوں کو عوام
سے کاٹ دیا ہے بلکہ رجعت اور ترقی کی جنگ کو نئے مرحلے میں داخل کرنے کے بعد ادیبوں کی
بڑی فوج کو مکینیکل بنا دیا ہے۔ اُن کا سماج سے رشتہ کٹ گیا ہے۔ وہ خود اپنی ذات سے بھی کٹتے
جا رہے ہیں۔ جس کے عوض افسانے تسلسل سے خالی ہیں۔ ناول اجتماعی پلاٹ سے بے نیاز ہیں۔
محضر اساری نثر میں تسلسل غائب ہے۔ ادیب اپنے ذہن میں ایک جال بنتا ہے اور مختلف چیزوں
کے بارے میں اپنے داخلی تاثرات صفحوں پر بکھیرتا جارہاہے۔ تاثرات جن میں باہمی ربط نہیں
ہے۔ لہذا انیس ناگی اور انتظار حسین جنم لے رہے ہیں۔ نظم میں کرب ہے۔ حقیقت کی فلیشز
موجود ہیں مگر نظم کا مجموعی تاثر انتشار کے علاوہ کچھ نہیں۔ انتشار جومجموعی سماجی صورت حال نے ان کے اندر اور باہر پیدا کر دیا ہے۔ یہ سارا کمال ادب برائے اصلاح پسندی کا ہے۔
اصلاح پسندی ۔۔۔۔ جو ساری چیزوں کا جب تصوری مادیت کے حوالے سے تجزیہ کرتی ہے تو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ کر کے دیکھتی ہے اور ان کے باہمی سماجی رشتوں سے نظر چرا لیتی ہے۔
یہ ہے ادب میں بنیادی تبدیلی جس نے اگرچہ ما بعد الطبیعاتی رشتوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے مگر ان کی بنیادوں پر ضرب لگانے کے بارے میں نہیں سوچا۔ ادیب کو مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ دن بدن اپنی ذات کے اندر بند ہوتا جا رہا ہے۔ اور خالص سرمایا دارنہ انسان کے نقطہ نظر سے سوچ رہا ہے۔ اسے اپنے سامنے صرف دو مسئلے نظر آ رہے ہیں، بھوک اور جنس۔۔۔۔۔ وہ بھوک مٹانے کے لیے خود کو فروخت کر رہا ہے۔ ظالم طبقوں کا آلہ کار بن رہا ہے۔ ” دھنک”، ” تصویر” اور ” بوبی” کی صورت گھٹیا جنسی میگزین شائع کر رہا ہے کہ جنسی شاونزم اس کی بگڑی ہوئی جنسی تسکین کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس مرحلے پر خود اپنے ساتھیوں کے درمیان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ ۔۔۔۔ تنہائی ۔۔۔۔ جو اس کی غلط سوچ کے سبب ہے۔ تنہائی جو اس نے سامراج کے ایجنٹوں اور دوسرے استحصالی طبقوں کا آلہ کار بننے کے عوض حاصل کی ہے۔ آج کے ادیب کی سماج سے کٹی ہوئی تنہائی پسند ذات، یورپ کے اٹھارویں صدی کے اس مزدور کی طرح ہے جو اپنی تباہی کا ذمہ دار مشین کو ٹھہرا کر مشینوں کو توڑتا تھا۔
نقاد کے نے موڑ نے جہاں پرانے استحصالی رشتوں اور جاگیردارانہ سوچ پر ضرب لگای ہے وہاں ایک خطرناک کام بھی انجام دیا ہے وہ یہ کہ ادب میں لوک رنگ مدھم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ادیب کا رشتہ اپنی زمین سے ٹوٹتا جارہا ہے۔وہ ادب میں وہ پیش نہیں کر رہا جو اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں کی روز مرہ کی زندگی میں دیکھ رہا ہے۔ بلکہ وہ تو صرف پیش کر رہا ہے جو اس کی میکانکی ذات پر گزرتی ہے۔ اس طرح پاکستانی ادیب اس اندھے کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے جو پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہو اور اس کے لئے سارے رنگ ایک ہی طرح کے ہوں۔ اُس کے ذہن میں چیزوں کی شناخت کا تصورصرف آواز کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح موجودہ ادیب کے تخلیقی ہوتے ہوئے بھی اپنی بیمار ذات کے سبب سماج میں ہونے والے تخلیقی عمل کو پوری طرح اپنے اندر جذب نہیں کر رہا۔
اصلاح پسند اپنے تمام تر ادبی رویوں کا تحظ کرنے کے لیے ہیو منسٹت ادیبوں کے ڈھانچے میں پناہ لیتے ہیں۔ وہ منٹو کی مثال پیش کرتے ہیں۔ میرا جی کا حوالہ دیتے ہیں اور پرانی ترقی پسند تحریک کی بنیادوں پر ضرب لگاتے ہوئے اپنے وجود کا جواز تلاش کرتے ہیں۔
ہاں میراجی یا وزیر آغا کے ادبی ڈھانچوں میں انہیں مزید پناہ لینی چاہیئےکہ وہ واقعی ہی انکے وفادار اور حاشیه بردار ثابت ہو رہے ہیں مگر انہیں منٹو کو اپنی حفاظت کی دیوار نہیں بنانا چاہیے۔ منٹو تو ان کے بالکل متضاد تھا ۔ اس کا دماغ اور اس ا سماجی شعور مکمل طور پر تندرست تھا۔ اس کے کردار صرف اس لئے بیمار تھے کہ وہ سماج کے بدن پر نشتر ہی بیمار جگہ پر لگاتا تھا جبکہ موجودہ اصلاح پسند ادیب ایسے بیمار ذہن ہیں جو سماج کے بدن کو بیمار جگہ سے کاٹنے کی بجائے تندرست جگہ سے کاٹ کر ایک کی بجائے دو جگہ سے بیمار کر رہے ہیں۔ لہاذا منٹو ان کے لیے اب ایک پرانی چیز ہونی چاہیے۔ ۔۔۔۔ ایسے ہی جیسے تمام ترقی پسند ان کے نزدیک پرانی چیزیں ہیں اور اشفاق احمد کا بیمار ذہن با لکل نئی چیز۔
پاکستانی ادب میں اسی اصلاح پسند ادبی روایات کے ساتھ ساتھ بہت چھوٹے پیمانے پر سائنسی رویے بھی پروان چڑھے رہے ہیں۔ جن کے نتیجے میں بہت سی پرانی قدریں تباہ ہوئی ہیں۔ مگر ان ترقی پسند رویوں کی نشو نما اصلاح پسند رویوں کے مقابلے میں بہت سست ہے۔ جس سے یہ خطرہ پیدا ہو رہا ہے کہ اصلاح پسندی روشنی کی ان چھوٹی چھوٹی کرنوں کو 1960ء میں اٹھنے والے ترقی پسند رحجانات کی طرح دوبارہ اپنی ہیت بدل کر بہت جلدی نگل جائے گی۔ اس لئے ان اصلاح پسند ادبی رویوں کے خلاف جدو جہد کرنے کا اہم فریضہ انجام دینے کی واحد صورت یہی ہے کہ ترقی پسند ادبی رویوں کو نیا خون مہیا کیا جائے ۔ انہیں جمع کیا جائے اور ایک منضبط شکل میں اصلاح پسندی کی جڑوں پر وار کیا جائے ۔۔۔۔ پاکستانی ادب کے سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھنے کا یہی ایک راستہ ہے۔