شاپنگ مال ۔۔۔ ممتاز حسین

شاپنگ مال

ممتاز حسین

“Chill goes away”

پہلی دفعہ کا ذکر ہے، جب انگریز نے لنڈی کوتل کے مقام پر خٹک ڈانس دیکھتے ہوئے ایک خاص میوہ کھایا تو اس کی شریانوں کے ٹھنڈے خون میں تپش آ گئی ۔ اس نے اس میوے کا نام خٹک ڈانس میں ناچتے ہوئے’

Chill goes away

رکھ دیا جو بعد میں چلغوزہ “ بن گیا۔

اسی طرح اس نے اپنے یا اپنے وفادار جانثاروں کی شریانوں میں خون کی تپش لانے کے لیے جہاں جہاں فوج کی چھاؤنی بنائی ، اس کے ساتھ انسانی لذت کے میوے کا چکلہ بھی کھول دیا تا کہ وفاداروں کا خون گردش میں رہے اور بہنے میں دقت نہ ہو۔ لیکن بہ میوہ کھانے کے بعد وہ ناچتے نہیں تھے اور شور نہیں مچاتے تھے بلکہ لمبے کوٹ کے کھڑے کالروں میں اپنا منہ چھپا کے آتے اور میوہ کھا کے منہ چھپا کے وہاں سے چلے جاتے۔ اس مناسبت سے ایک سڑک کا نام جس پر چکلہ آباد تھا، اس کا نام ”کوٹ روڈ “مشہور ہوگیا۔

چھاؤنی تو وہاں سے چلی گئی لیکن کوٹ روڈ وہاں موجودرہا۔

پالکل اسی طرح ایک انگریز افسر نے اس شہر میں ایک یورپین انداز میں بہت بڑا محل بنایا جس کا نام اس نے ولزلے ہاؤس رکھا، جیسے لائل پور منٹگمری کلکتہ وغیرہ  شہروں کے نام ہیں۔ انگریز تو وہاں سے چلا گیا لیکن اس کا ولزلے ہاؤس وہاں موجود رہا۔ انگریز افسر نے جاتے ہوئے ولزلے ہاؤس اپنے ایک وفادار کو بخش دیا بلکہ اس کی وفاداری سے اتنا خوش تھا کہ اسے اعزازی کرنیل کا رتبہ بھی دے دیا کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں اس وفادار نے بہت زیادہ فوجی انگریز سرکار کو مہیا کیے تھے لہذا بختیار خاں کا نام کر نیل بختیار خاں ہو گیا۔

وٹر لے ہاؤس اور کوٹ روڈ میں کچھ کرتبے بہت ملتے تھے ۔ مثال کے طور پر وہاں کے باسی دن بھر سوتے ، رات کو چہل پہل اور کاروبار زندگی عروج پر ہوتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں جگہوں میں کچھ تبدیلی آنا شروع ہوگئی ، یعنی کوٹ روڈ شہر کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ بالکل شہر کا حصہ بن گیا لیکن کوٹ روڈ کے بسنے والے وہیں موجود رہے اور اپنا کاروبار نئے انداز سے جاری رکھا۔ ولزلے ہاؤس آبادی سے ذرا دور تھا۔ وترلے ہاؤس کے صاحبوں اور بیگمات کی بہت عزت تھی۔ بیگمات کو خاص طور پر بہت احترام سے دیکھا جاتا بلکہ بالکل نہ دیکھا جاتا۔ جب بھی بیگمات ولزلے  ہاؤس کے علاقے سے گزرتیں ، مرد حضرات پردے میں چلے جاتے ۔ ولز لے باؤس کی شان وشوکت میں قدرے کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس کی وجہ کرنیل بختیار خان کی اولاد تھی۔ وہ کوئی کام کاج تو کرتے نہیں تھے ، بس جو جائیداد تھی اسے بیچ بیچ کر زندگی عیش وعشرت سے بسر کرتے ۔ ساری جائیداد بک جانے کے بعد ولزلے ہاؤس کے مکینوں کا آخری سہارا ایک فارم رہ گیا تھا جس وہ بیچ نہیں سکتے تھے ۔ وہ فارم انگریز سرکار نے گھوڑوں کی خاص نسل کی افزایش کے لیے اپنے وفاداروں کو گھڑ پال سکیم کے تحت دے رکھا تھا۔ گھوڑے پالنے کا شوق ہی تباہی کا باعث بنا کیونکہ ریس کے جوئے کی بری لت نے تمام جائیداد کو بربادی کی نذر کر دیا۔ وہی اکلوتا فارم اب ولز لے ہاؤس کا واحد سہارا تھا۔ ہر وقت کا دھڑ کا کہ نئی حکومت اسے واپس نہ لے لے کیونکہ گھڑ پال سکیم دوسرے علاقوں میں تو ختم ہو چکی تھی لیکن کرنیل بختیار خاں کی اولاد اپنے اثر ورسوخ سے اس پر قابض تھی ۔ جب بھی حکومت بدلتی تو کوئی نہ کوئی وزیر یا تو ان کا رشتہ دار ہوتا یا قریبی دوست جو ان کے مفادات کو بچا لیتا۔

 سفید فام حکمرانوں نے اپنی حکومت گندمی فام حکمرانوں کے حوالے کر دی۔ ان  کی تربیت کے لیے انگریزوں نے ہر شہر میں ایک تربیت گاہ قائم کی جہاں یہ گندمی فام امرا وڈیرے ہی صرف تعلیم حاصل کر سکتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مشینی انقلاب کی ترقی سے جب دولت کی تقسیم عام لوگوں میں بھی ہونے لگی تو ان لارڈز کی تربیت گا ہوں میں ٹھیکیداروں، آڑھتیوں اور دوسرے کا روبار کرنے والوں نے بھی اپنے بچوں کو خاندانی امرا کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے لارنس کالج ، ایچی سن ،سیکر ڈہارٹ، برن ہال نامی تربیت گاہوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔ یوں سمجھ لیجیے ہر پیسے والا جوان تربیت گاہوں کے بھاری اخراجات برداشت کر سکتا ، وہاں پہنچ جاتا۔ اسی لیے کوٹ روڈ کے باسیوں کی ایک شمیم آراء نے بھی وہاں سے تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی تا کہ امیروں سے راہ و رسم میں آسانی رہے۔ شمیم آراء کی ماں اپنے زمانے کی پری چہرہ نسیم تھی ۔ اس کے پری چہرے کوکسی دل جلے نے تیزاب سے جلا دیا تھا۔ وہ کبھی کسی کو تیزاب سے جلے چہرے کے بارے میں نہیں بتانی تھی جسے ہمیشہ شمیم آراء پڑھنے کی کوشش کرتی تو اس کی ماں اس حادثے کی کتاب کوکھولنے کے بہانے سے بند کر دیتی۔

 شمیم آراء اپنے آداب و اطوار سے بالکل کوٹ روڈ گھرانے سے آئی ہوئی نہیں لگتی تھی ۔ تعلیم و تربیت، بات کرنے اور پہناؤ کا سلیقہ ہمیشہ دھوکہ دیتا کہ اسکی رگوں میں کسی بہت بڑے خاندان کا خون دوڑتا ہے۔ خوبصورت اتنی کہ لوگ دیکھتے ہی اپنے ہونٹ کاٹ لیں ۔ بادام نما آنکھوں پر لمبی پلکوں میں کھیلتے بلوری بنٹے ستواں ناک اور ناک میں اٹکی ہیرے کی نتھنی جیسے ہلال احمر میں جھلملاتا ستارہ ۔ شمیم آراء کی دوستی ولزلے ہاؤس کی شہر بانو سے بہت زیادہ تھی۔

دونوں ذہانت اور حسن میں اپنی مثال آپ تھیں۔ بس دونوں کو دیکھتے ہی دل والے اپنا دل قدموں میں رکھ دیتے ۔ شہر بانو کو شمیم آراء کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا اور نہ ہی شہر بانو کچھ معلوم کرنا چاہتی تھی ۔ دونوں کو انگریزی ادب میں خاصی دلچسپی تھی۔ ایک دوسرے سے کتابیں تبدیل کرتیں اور بحث لگا تیں ۔ ادب اور آرٹ تھیڑسے لگاؤ کی تسکین ہمیشہ شیکسپیئر کے نوٹنکی تھیٹر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر کرتیں اور جوش و جذبے سے کوئی نہ کوئی شیکسپیئر کا کردار ادا کرتیں۔ لیکن اس تربیت گاہ میں ایک کیریکٹر اسد ضمیر بھی تھے۔ اسد ضمیر نہیں بلکہ صاحبزادہ اسد ضمیر ۔ چھوٹے نواب صاحب کالا افغانہ ریاست کے نواب کے چھوٹے صاحبزادے تھے ۔ ملک کے بٹوارے کے بعد ان کو پہلے سے بھی زیادہ جائیداد الاٹمنٹ میں مل گئی ۔ بگڑے نواب کے اطوار خاصے نامناسب تھے۔ غرور اور بدتمیزی ہمیشہ ان کے کوٹ کی باہر والی جیب میں ٹنگے ہوئے بور کیڈ کے سرخ رومال کی طرح ہر ایک کو دور سے متوجہ کر دیتی کہ اسد ضمیر وہاں موجود ہیں لیکن تھا وجیہہ وشکیل جو بالکل ٹاٹ کی شخصیت پر مخمل کی ترپائی کا کام کرتا تھا۔ جب بھی تربیت گاہ میں آتا، ساتھ میں اس کا ملازم ایک شکرے کو اپنے چمڑے کے دستانے میں چھپے ہاتھ پر بٹھا کے ساتھ لاتا۔ شکرے کی آنکھیں چمڑے کے کٹوروں سے ڈھکی ہوئی تھیں، بالکل اپنے مالک کی طرح جو اپنی آنکھیں گہرے رنگوں والی عینک میں چھپائے رکھتا تھا۔ تربیت گاہ میں گھسنے سے پہلے وہ اپنی لمبی کار میں شکرے کو پیار کرتا، اسے چڑیوں کا گوشت اپنے ہاتھ سے کھلا تا اور خود شکرے کی طرح تربیت گاہ کو شکار گاہ سمجھ کر گھس جاتا۔

اسد ضمیر ہمیشہ شمیم آراء اور شہر بانو کے گرد منڈلاتا رہتا۔ ہر روز نئے نئے ڈائیلاگ رٹ کر اپنی کتابی دلچسپی کا جھوٹا ڈھونگ رچا تا رہتا لیکن وہ دونوں اس سے بہت نفرت کرتی تھیں ۔ ایک دن شمیم آراء کو کیلے پا کر اس پر اپنے کتابی مطالعے کا رعب ڈالنے لگا

” چچ چچ چچ چچ ۔۔۔۔  بہت زیادتی کرتی ہیں آپ۔”

شمیم آراء نے حیران ہو کر دیکھا ” کیا مطلب؟”

” اس چہرے کی کتاب پہ غصے کا کور بھلا نہیں لگتا۔“

شمیم آراء نے طنزیہ لہجے میں مسکرا کر جواب دیا ” یہ چہرہ کھلی کتاب ہے چہرے کے دل میں اگر کسی سے نفرت ہے تو چہرے کے اوراق پر ابھرے ہوئے الفاظ خاصے نمایاں ہیں اور اگر اگلی دفعہ کسی سے ڈایئلاگ لکھوا کے لاو تو اس سے کہنا کہ جین آسٹن کی کتابوں کی چوری مت کرے۔ “

اسد ضمیر اپنے ضمیر کو مات کرتا ہوا اپنا سا چہرہ لیے وہاں سے روانہ ہوگیا شیم  آرا اور شہر بانو کا ہمیشہ کی طرح اسد ضمیر محور گفتگو رہتا اور ان کا یہ کامیڈین ولن انہیں خاصا محظوظ کرتا۔ ایک دن شمیم آراء کچھ اداس سی تھی۔ شہر بانو نے کچھ معلوم کرنے کی کوشش کی تو ٹال گئی ۔ غور سے دیکھا تو ناک میں پتلی سی کالے رنگ کی ڈوری بندھی تھی۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔ کچھ عرصے کے بعد وہ ڈوری غائب ہوگئی اور اس کی جگہ ہیرے کی نتھنی نے لےلی ؟ اس پر بہت جچتی تھی ۔ اسد ضمیر اپنی حرکات سے باز نہ آیا بلکہ ان حرکات میں اور بھی تیزکی آنے لگی ۔ خوامخواہ دونوں کا راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا۔ ایک دن تو اس نے حد ہی کر دی۔ شہر بانو کو اکیلا دیکھ کر اپنی محبت کا بے سرا راگ الاپنے لگا۔ اپنے ایک گھٹنے کے بل آدھا کھڑا آدھا بیٹھ کر جیب سے بہت مہنگی انگوٹھی نکال کر شہر بانو کو پیش کی اور بہت بھونڈے انداز میں کہا ” میری محبت کی یہ نشانی قبول کر کے میرے پاؤں میں میرے شکرے والی ڈوری باندھ دیں اور میں ہمیشہ آپ کے ہاتھ پر آنکھیں بند کیے بیٹھا رہوں گا۔ باقی کے ہم جماعت بھی اس ڈرامے کے سین کو دیکھ رہے تھے۔ شہر بانو نے اسے اپنی ہتک محسوس کیا اور غصے میں آگ بگولا ہوگئی اور بے قابو ہو کر زناٹے کا ایک زوردار تھپڑ ثبت کیا جس کی آواز سے درختوں پر بیٹھے کبوتر اور اسد ضمیر کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھپڑ کی آواز کی گونج بڑی دیر تک آڈیٹوریم میں پھڑ پھڑاتی رہی۔ اسد ضمیر بے قراری میں ادھر ادھر دو چلو پانی ڈھونڈنے لگا تا کہ بے شرمی سے اس میں ڈوب کے مر سکے ۔ نواب آف کالا افغانہ کے لیے یہ بہت بڑی بے عزتی کا مقام تھا۔ اس نے شہر بانو کے غرور کو نیچا دکھانے کی ٹھان لی ۔ ہر تدبیر کرنے کے لیے تیار ہو گیا خواہ اس میں وہ سب کچھ ہی کھو دیتا ۔ سب سے پہلے اس نے اپنی والدہ سے شہر بانو سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ والدہ بہت ہی خوش ہو گئیں اسد ضمیر کی والدہ اور والد اس کا رشتہ لے کر شہر بانو کے گھر گئے لیکن اس کے بھائی نے رشتہ سے انکار کردیا۔ صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ لڑکے کے چال چلن اچھے نہیں ہیں ۔ جب اسد ضمیر کے والد نے بیٹے کے حصے کی جائیدادشہر بانو کے نام کر دینے کی پیشکش کی تو شہر بانو کے بھائی میں تھوڑی سی لچک آئی لیکن بہن کی رضامندی کے خلاف فیصلہ دینا مشکل تھا اور چھ دنوں کی مہلت مانگی۔

اسد ضمیر ہرممکن طریقے سے ہر قیمت پر شہر بانو سے انتقام اس سے شادی کر کے لینا چاہتا تھا۔ اس نے جب کھوج لگایا تو معاملہ اور بھی آسان ہو گیا کیونکہ ولز لے ہاؤس کے جنازے کے پائے تو گھڑ پال سکیم کے کندھوں پر رکھے تھے۔ اس نے فوراً اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے حکومت کی طرف سے گھڑپال فارم کے بند کرنے کا نوٹس بھجوا دیا۔ اس خبر نے ولزلے ہاؤس کی بنیادوں کو ہلا دیا۔ شہر بانو کے بھائی نے فوراً گھر کی عزت اور لاج بچانے کیلئے بہن کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے کہ رشتے کو قبول کرلو۔ ویسے بھی نوابوں کا خاندان ہم سے بہت اونچا ہے۔ ساری عمر عزت اور عیش کی زندگی بسر کرو گی ۔ شہر بانو نے اپنی زندگی کے سب سے اہم فیصلے کا کڑوا ز ہر بڑی مشکل سے نگل لیا۔ اسد ضمیر کے والدین نے ولزلے ہاؤس والوں کی سب شرطوں کے ساتھ شہر بانو کی دودھ پلائی کی بھاری شرط کے ساتھ سب قبول کر لیا۔ صرف شمیم آراء ہی اس کے دکھ کو سمجھ رہی تھی اور رورو کر یہ کہ رہی تھی کہ مجھ میں اور شہر بانو میں کوئی فرق نہیں ۔ اس نے شہر بانو کوسرخ ڈبیہ میں بند ایک کالی ڈوری تحفے میں دی۔ شادی کا دن مقرر ہو گیا۔ بہت دھوم مچ گئی اس شادی کی ۔ شادی کی خبر کا شور اخباروں کی سرخیوں سے لے کر ٹیلیویژن کے زنانہ پروگراموں کا موضوع بنا ۔ زنانہ رسالوں کے باہر والے صفحات پر دونوں کی تصویریں چھپیں۔

۔ ولزلے ہاؤس کو دلہن کی طرح سجایا گیا اور دلہن کو قربانی کی گائے کی طرح سجایا گیا ، جو قربانی والی عید سے پہلے مہندی کے ڈیزائن بنائے جائے ہیں اور سر پر سرخ رنگ کے دوپٹے باندھے جاتے ہیں۔ تیاریاں زوروں پر تھیں، میک اپ  کے لیے ایک ٹیم ہالی وڈ سے منگوائی گئی۔ دلہن کا عروسی جوڑا فرانس کے ڈیزائنروں نے ڈیزائن کیا۔ دلہن کی جوتی نایاب گلہری کی کھال میں موتی جڑے اٹلی سے بنوائی گئی۔ ہندوستانی جو ہریوں نے زیورات ڈیزائن کئے ۔ دعوتوں کا سلسلہ پانچ دن پہلے سے شروع ہو گیا۔ دعوت میں استعمال ہو نیوالی شرابیں پچاس سال پرانی منگوائی گئیں ۔ سوسالہ شییمپین سے جشن کے افتتاح کا اہتمام ہوا۔ کیوبا سے سگار لپیٹنے والے منگوائے گئے تا کہ تازہ سگار پیش کیے جائیں اور اسد ضمیر ہاتھی پر بیٹھ کر اپنی بارات کے ساتھ شہر بانو کو لینے آیا۔ رسومات کے بعد دولہا اپنی دلہن کو اپنے گھر لے گیا۔ رات کو دلہن کے کمرے میں دلہن سے ملنے گیا تو دلہن خاموش سدھ بدھ پھولوں کی سیج پر لمبا گھونگھٹ لیے بیٹھی تھی ۔ اسد ضمیر نے جب دلہن کا ہاتھ گھونگھٹ سے باہر نکلا دیکھا تو اسے دودھ پلانے والی رسم کی شرط یاد آ گئی اور فورا 25 لاکھ کا

چیک شیروانی کی جیب سے نکال کر دلہن کے ہاتھ پر رکھ دیا۔

ابھی وہ اپنا ہاتھ میز پر رکھے دودھ کے گلاس کی طرف بڑھا ہی رہا تھا کہ اُسے گلاس کے ساتھ شمیم آراء کے تحفے کی سرخ ڈبیہ کھلی ہوئی پڑی تھی تو شہر بانو نے اپنا گھونگھٹ اٹھا کے بند آنکھوں سے اپنا چہرہ اوپر کی جانب کر دیا۔ اسد ضمیر نے دیکھا کہ دلہن کی ناک میں ہیرے کی تھی بجائے چھوٹی سے کالی ڈوری بندھی تھی۔

شہر بانو نے دبے الفاظ میں کہا …

“تمہیں میری نتھ کھولنے کا پورا اختیار ہے۔“

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

February 2025
M T W T F S S
 12
3456789
10111213141516
17181920212223
2425262728