جہنم زادہ ۔۔۔ روبینہ یوس

جہنم زادہ

روبینہ یوسف

وہ  دیر تک ہنستا رہا یہاں تک کہ اس کے آنسو نکل آئے۔ پتہ نہیں کیوں اسے رونا نہیں آیا۔ وہ دیوانگی کی حد تک جسے چاہتا تھا وہی ابھی چند لمحوں پہلے اسے چھوڑ گئی تھی

 اس نے جب سے ہوش سنبھالا ماں باپ کو زندگی کے ساتھی کے طور پر نہیں بلکہ جنگ کے میدان میں دشمنوں جیسے تیوروں کے ساتھ دیکھا تھا۔ پتہ نہیں وہ کیسے پیدا ہو گیا تھا۔ نفرتوں کے بیچ پروان چڑھنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔

 دونوں جب لڑتے تو چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ۔وہ اپنے کمرے میں جا کر بیڈ کے نیچے گھس جاتا۔ کانوں میں انگلیاں دے لیتا مگر جنگ اپنے وقت پر ہی ختم ہوتی۔ ایک بار اس کے رشتے کے چچا کا انتقال ہو گیا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ جنازے پر گیا۔ وہاں سے قبرستان بھی گیا ۔یہ پہلا موقع تھا کہ وہ کسی میت کو قبر میں اتارنے کی کارروائی حیران آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔میت قبر میں اتار کر اس پر مٹی ڈالی جانے لگی۔ اس کا دل زور سے پھڑکا۔ اسے لگا جیسے اس کے اوپر پتھریلا بوجھ پڑ  گیا ہو۔ اس نے کَس کے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔

 گھر آ کر بھی اس کے ذہن میں قبرستان کی ساری فلم گھومتی رہی۔ ویسے اسے وہاں بہت سکون ملا تھا۔ کتنی خاموشی اور تقدس تھا وہاں کی فضا۔ میں پھولوں اور اگربتیوں کی خوشبو دل کو سکون کے عجیب زاویوں میں ڈھال رہی تھی۔

 پھر اس کے ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی۔ پہلے تو دونوں میں شدید قسم کی لڑائی ہوئی۔ اس کی ماں کو اس کے باپ رئیس شاہ نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ زخموں سے نڈھال جھولی پھیلا پھیلا کے شوہر کو بد دعائیں دیتی گھر سے نکل گئی۔ اس کے بعد وہ واپس نہ آئی۔

 وہ اپنے کمرے میں دبکا رہا۔

 ماں کے جانے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکلا۔ رئیس شاہ اپنے کمرے میں پڑا ہانپ رہا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے دبا رہا تھا۔شاید وہ کسی اور مظلوم پر تشدد کرنے کے لۓ ہاتھ کو تیار کر رہا تھا۔

وہ چپکے سے نکلا اور سیدھا قبرستان آ کر دم لیا ۔کتنی شانتی تھی یہاں۔ نہ لڑائی جھگڑے نہ گالیاں کوسنے۔

 مہر بلب مکین تھے۔ گلابوں کی باس تھی۔ کسی کسی قبر پر دیے جل رہے تھے۔ پیڑ پودے تقدس کی رداؤں میں لپٹے کھڑے تھے۔

 وہ کافی دیر تک وہاں گھومتا رہا۔ پھر یہ اس کا معمول بن گیا۔ جب کبھی آبادیوں سے دل گھبراتا وہ اس بولتے ویرانے میں پہنچ جاتا۔

ماں اسے چھوڑ کر چلی گئ تھی اور وہ نہ چاھتے ہوۓ بھی اپنے باپ کے گھر رہنے پر مجبور ہو گیا۔

 رئیس شاہ ایک سخت گیر مرد تھا۔

 وہ اپنی نئی نویلی دلہن نائلہ کے جلوؤں میں گم تو ہوا مگر اپنے بیٹے ریحان شاہ کی تعلیم سے غافل نہ ہوا۔ یہاں بھی اس کے ساتھ روایتی سوتیلی ماں والی کہانی تو چلی مگر وہ اعلی تعلیم یافتہ ہو گیا۔

 ایم بی اے کرنے کے بعد اسے دواؤں کی کمپنی میں بہت اچھی ملازمت مل گئی۔  بیٹے کی اٹھتی جوانی اسے نائلہ کے لیے خطرے کا سگنل محسوس ہوئ تو اس نے حیلے بہانوں سے بیٹے کو ہوسٹل شفٹ ہونے کا بندوبست کر دیا۔

 ویسے بھی وہ اب اپنی زندگی کے بچے کھچے سالوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔

 ریحان شاہ ہاسٹل میں مقیم ہو گیا ۔ہر ہفتے وہ قبرستان ضرور آتا تھا۔ اسے لگتا کہ یہ جو مر گئے ہیں وہی اس کے حقیقی رشتہ دار ہیں۔ وہ اپنے ساتھ باجرہ لے جاتا۔ قبرستان کے نلکے سے مٹی کے کونڈوں میں پانی بھرتا۔ پرندوں کی ڈاریں آتیں۔

 وہ مسرت کے گہواروں میں جھولتا ۔وہاں وقت گزارتا۔ قبروں کی بھربھری مٹی کی اپنے ہاتھوں سے ڈھیریاں بناتا۔ کتبوں کو پڑھتا جاتا۔ محسوس کرتا کہ شاید یہیں کسی قبر میں اس کی ماں بھی سو رہی ہوگی۔ کیسی ماں تھی؟ اسے کس دل سے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔

 اس کے سامنے بے شمار نئی قبریں بنی تھیں۔ چند دن تک تو وہ پھولوں سے مہکتی رہتیں۔ لواحقین بھی آتے رہتے مگر آہستہ آہستہ پھول مرجھاتے چلے جاتے۔ اگربتیوں کی راکھ ہوا اڑا کے لے جاتی

 پرندوں کی بِیٹوں کا قبر پر ڈھیر لگ جاتا۔ اسے اپنا آپ بے وقعت لگتا۔ اس کے ماں باپ کی زندگی کا ایک مقصد تو تھا کہ وہ ہر وقت لڑتے رہنا پسند کرتے تھے کیونکہ نفرتوں کے لیے اندھے جذبوں کی آبیاری ضروری ہوتی ہے۔ اس کے پاس تو کوئی خیال کوئی واہمہ اور گمان تک نہ تھا جسے وہ اپنا خون جگر پلاتا۔

 ایک دن وہ سو کر اٹھا آئینے کے سامنے گیا تو وہ چٹخ گیا مگر دراڑیں آئینے میں نہیں اس کے چہرے پر پڑی تھیں۔

 وہ کتنی دیر تک آئینے پر ہاتھ پھیرتا رہا پھر یہ دراڑیں بڑھتی گئیں

 وہ اپنے ساتھ رہنے والوں سے لاتعلق رہتا مگر پتہ نہیں وہ کیسے اس کی زندگی میں آگئی ۔اپنی ماں کی قبر پر پھول چڑھانے آتی تھی ۔

وہ بہانے بہانے سے آفس سے چھٹی لے کر اسے ملنے آنے لگا ۔

کبھی قبرستان کبھی کسی کیفے اور کبھی کسی پارک میں وہ ملنے لگے۔ ریحان شاہ کے سوئے ہوئے جذبے بیدار ہونے لگے ۔اب آئینہ دیکھتے وقت اس کا چہرہ چٹختا نہیں تھا مگر خوشی اسے راس نہ آئی۔ اس کی طبیعت گری گری رہنے لگی۔ کمپنی کی طرف سے اس کا علاج شروع ہوا۔ مختلف قسم کے ٹیسٹوں کے بعد یہ روح فرسا رپورٹ آئی کہ اسے بلڈ کینسر ہے۔

 آئینہ یہ خبر سن کر اسے چھوڑ گئی۔ محبت کا جھوٹا پندار چٹخ گیا۔ پھر اس نے قبرستان کے قریب ہی کرائے کا گھر لے لیا۔ کمپنی سے ملنے والی رقم سے اس نے چھوٹی موٹی سی دکان ڈال لی۔ گھر کے کمرے میں اپنی دکان پر اس نے پھولوں کا بازار بھی سجا لیا۔ اگر بتیاں مٹی کے کونڈے اور پرندوں کا دانہ بھی رکھ لیا۔

  ایک دن وہ قبروں کے درمیان ٹہلتا ہوا قبرستان کی باؤنڈری وال پر پہنچ گیا۔ دیوار بیچ میں سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ وہ دیوار کے پار دوسری طرف چلا گیا۔ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ وہاں ایک قبر تھی اس کی طرح اکیلی۔۔۔۔ جیسے وہ تھا۔۔۔۔ کہکشاں سے بچھڑا کوئی فنا ہونے والا شہاب ثاقب۔۔۔ اس مدفن کو دیکھ کر وہ شش و پنچ میں پڑ گیا۔ کتبے کے نام پر صرف ایک شکستہ سا پتھر تھا۔ قبر کی سطح چٹخی ہوئی تھی جیسے مدت سے یہاں نہ ابر برسا ہو اور نہ کسی نے پانی کے چھینٹے مارے ہوں۔

 وہ اندازے لگاتا رہا کہ یہ قبر کسی لڑکے، لڑکی، عورت یا مرد کی ہے بہرحال اس نے قبر کے آس پاس سوکھے ٹوٹے جھاڑ جھنکاڑ کو صاف کیا۔ اس پر پانی چھڑکا۔

 اگلے دن وہ آیا تو اس کے ہاتھوں میں پھول اور اگربتیاں تھیں۔ یہ تنہا مسکن اس کے دل کو بہت بھایا۔ دونوں میں کس قدر مشابہت بھی تو تھی۔ آہستہ آہستہ وہ قبر اس کے سارے رشتوں کا روپ دھار گئی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اس کے اندر سونے والی کوئی جوان خوبصورت لڑکی بھی ہو سکتی ہے؟ اس خیال کے آتے ہی اس کے بدن میں چنگاریاں سی بھر گئیں۔ آنکھوں میں خواب اتر ائے ۔وہ بیٹھ کر سرہانے پر ہاتھ پھیرنے لگا جیسے ستارہ آنکھیں اسے دیکھ کر ہنس رہی ہوں۔ گلابی عارض اسے دیکھ کر شرم سے تمتما رہے ہوں ۔پنکھڑیوں جیسے ہونٹ اسے چومنے کو بے قرار ہوں۔ جذبات اس پر غالب آتے گئے۔ اس کی سانس تیز تیز چلنے لگی۔

 اس نے اپنے ہونٹ اپنی اندیکھی، انچھوئ محبوبہ کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ مٹی میں سے آب حیات کے چشمے پھوٹنے لگے ۔

اسے ہوش اس وقت آیا جب جھاڑیوں میں سے کوئی جانور نکل کر بھاگا ۔وہ بوجھل قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا۔

 کل اسے سرکاری ہسپتال جانا تھا۔ اس کا بلڈ کینسر آخری سٹیج پر تھا۔ اب شاید وہ دوبارہ یہاں نہ آ سکے مگر اسے ایک بار یہاں ضرور آنا تھا۔ اپنی ابدی نیند سونے والی دلربا کو تحفہ دینا تھا۔

 ایک شام وہ پھر اس گمنام قبر پر آیا ۔

اس کے ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے، میک اپ کا سامان اور ایک شاپر میں وہ تھی جسے اس نے شرماتے ہوئے قبر کے پاس رکھ دیا۔ پھر اپنے ساتھ لاۓ ہوۓ نۓ کتبے پر لکھے الفاظ کو گھورتا رہا۔

آج وہ بہت خوش تھا۔ وہ اسے زندگی تو نہ دے سکتا تھا مگر اپنے لیے مسرتوں کو امر کرنا چاہتا تھا۔ فضائیں سرگوشیاں کر رہی تھیں۔

 اگلی صبح لوگ اس قبر کے ارد گرد جمع ہونا شروع ہو گۓ۔

قبر کے قریب ہی وہ کتبے پر اوندھے منہ لیٹا تھا جس کے اوپر لکھا تھا”جہنم زادہ”.

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

February 2025
M T W T F S S
 12
3456789
10111213141516
17181920212223
2425262728