
غزل ۔۔۔ ماہ نور رانا
غزل
ماہ نور رانا
ترے فقیر کا تیور خراب ہونے تک
عدو کی مِلک ہے ایڑی رکاب ہونے تک
ترے جمال کا حق ہے اے شاہِ خوش نقشاں
ہم اس کو اور کشیدیں شباب ہونے تک
ہماری پیاس کے صحرا کی سمت نگراں تھا
خمارِ کفر کا دریا حباب ہونے تک
لہو پہ پالتے ہیں آنکھ میں سموتے ہیں
ہم اپنے خواب کو ہستی کا باب ہونے تک
قدم بحال کرلے شاعری کہ چلنا ہے
ہمارے ساتھ ہی تجھ کو نصاب ہونے تک
یہ آپ اپنی حقیقت بھی ہے حکایت بھی
سو اس سوال کو سنیے جواب ہونے تک
یہی ہے صدق کہ چادر میں ڈھانپ کر کوئی
اسی گناہ کو رکھ لے ثواب ہونے تک
محافظت میں رہا ہوگا اس کی وحدت کی
نہاں رہا ہے جو چہرہ حجاب ہونے تک
Facebook Comments Box