
سویر دا سلام ۔۔۔ ثمین بلوچ
سویر دا سلام
ثمین بلوچ
تعلق رشتہ اور محبت
ذات کے سکے کے تین رخ ہیں
انسانیت کے انگوٹھے سے لگائی گئی مہر
ہمیشہ مثبت رخ دکھاتی ہے
محبت کا دورانیہ وقت سے نہیں
تاثیر سے ماپا جاتا ہے
میں نے کچھ عرصہ محبت جی
مگر سات جنم سے زائد کشید کی
کاش میری جھولی اور ظرف
میری پیاس جتنے ہوتے
تو آج میں کسک یافتہ نہ رہتی
کیا کوئی انسان ایسا ہو سکتا ہے
جسے مذہب
ملک
فاصلے
اختلاف
اور جنس کی رکاوٹ نہ بنتی ہو
وہ صرف انسان ہو
میں اپنی مرضی سے اس میں اتر جاوں
وہ مجھ سے پوچھے بنا میری سیر کرتا پھرے
محبت چہروں اور ناموں کی محتاج نہیں ہوتی
میں نے ہمیشہ بے دھیانی سے نظم لکھی
اور کبھی کبھی تو لکھنے کو کوفت جانا
لیکن ایک نظم ۔۔۔۔۔۔
مجھے لکھ گئی ہے
جس کی عمر نو ماہ
بال سفید
اور نام
مسعود قمر ہے۔