
کتاب ۔۔۔ مسعود قمر
کتاب
مسعود قمر
میرے لیے
کتاب ہی کافی ہپے
جو
تنہائی کو مجھ سے
تنہا کراتی ہپے
جو
میلے میں مجھ سے
دھمال ڈلواتی ہے
جو
گھاس پہ پڑی
تازہ بارش کی خوشبو سے
مجھے دیوانہ بناتی ہے
پولیس
جب ڈھول بجاتی اور بھنگڑے
ڈالتی آتی ہے
تو کتاب میں نیفے میں
ڈال کر لے جاتا ہوں
کتاب بندی خانے کی ساری
دیواریں گرا دیتی ہے
سلاخیں کاٹ دیتی ہے
کتاب
جومیں نے اُسے
گھونگھٹ اُٹھائی میں دی تھی
کتاب
جو اُس نے
بغیرپڑھے
طلاق کے کاغذوں کےساتھ
واپس کر دی
کتاب
جس کو میں نے بہت کچھ
بیچ کے خریدا
کتاب
جس نے مجھے بکنے سے بچایا
کتاب
میرے دوسرے ہاتھ میں
برانڈی ، بلیک لیبل اور
فرانسسی ووڈکا تھماتی ہے
برانڈی، بلیک لیبل اور
فرانسسی ووڈکا
جو کتاب کو سمجھنے میں میری مدد کرتے ہیں
کتابوں سے بھرے
فٹ پاتھ والے شہر ہی تاریخ میں
زندہ رہتے ہیں
تکا بوٹی ، کڑاھی گوشت سے
بھرے فٹ پاتھ والے شہر کی ہڈیاں
سمندر کنارے ملتی ہیں
،، کاش
وہ عورت برف باری میں
میرے ساتھ ہوتی
اور ہم
سنو مین کو آتش دان کے سامنے
کُرسی پہ یٹھا کے
اپنی اپنی کتاب پڑھتے ،،
سنو مین کی طرح سو جاتے
سنو میں کی طرح پگھل جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسعود قمر