
اداسی ۔۔۔ نادیہ عنبر لودھی
اداسی
نادیہ عنبر لودھی
ملگجے اندھیرے میں
کمرے کے ایک کونے میں چھپی ہوئی اداسی
آہستہ آہستہ کتر رہی ہے
اپنے تیز نوکیلے
چھوٹے چھوٹے دانتوں سے
کمرے کی کشائش
اس کے دانتوں تلے کٹتی جارہی ہے
دل کی آسودگی
کمرے کی جامد فضا میں
بڑھتی جارہی ہے اداسی
یہ پیٹ بھر کر
دبک کر سوتی نہیں
اپنے دانتوں میں خوشہ لیے یہ چل پڑتی ہے
ہم نفس کو پہنچانے سندیسہ اداسی کا
عندیہ اداسی کا
قطار میں چلتے چلتے
خالی صحن کے درمیان میں استادہ
برگد کے بوڑھے پیڑ کی کھوکھلی جڑوں کی درزوں میں
یہ چھپاتی ہے اپنا اثاثہ
بھرتی رہتی ہے
اداسی کا خزانہ
خاموش پیڑ سے لٹکا خالی جھولا
راہ تکتا رہتا ہے
بچھڑے ہوئووں کی
اداسی کا بہاؤ تھمتا نہیں
یہ تو اک راگ بن کر ماتمی فضا میں بجنے لگتا ہے
Facebook Comments Box