
بَکھی ۔۔۔ مریم مجید ڈار
بکھی
مریم مجید ڈار
دن کی دھوپ خاصی پھیل گئی تھی ،جب شوکا کھولی سے باہر آیا،ایک بدبودار سانس فضا میں چھوڑ کر اس نے دونوں بازو پھیلا کر انگڑائی لی،اور پھر تھڑے پر بیٹھ گیا۔کچی بستی میں دن پورا چڑھ آیا تھا،جگہ جگہ میلے سے لگے تھے،بچے بھاگتے پِھر رہے تھے،کچھ مرد کچے گھڑے کی مانند اوندھے پڑے تھے،ان کی عورتیں اپنے اپنے مقدرو ں اور ان کے جنم کو رو پِیٹ کر مزدوری پر نکل گئیں تھیں ۔شوکے نے ایک اور انگڑائی لی،اور سستی بھری بیزاری سے افھر ادھر دیکھنے لگا۔گندگی پر بھنکتی مکھیاں اور خارش زدہ کتے کانوں کو کھجاتے ماحول کو مزید نحوست بخش رہے تھے۔جہاں شوکا بیٹھا تھا قریب ہی آم کے چوسے ہوئے چھلکے دھوپ میں سڑ رہے تھے،اور ان سے عجیب گرم شہوانی مہک اٹھ رہی تھی،آم کے چھلکوں کو دیکھتے دیکھتے شوکے کے ذہن میں بیتی رات ایک دھماکے سے تازہ ہوگئی۔اور یکدم ہنس پڑا۔۔۔۔بکھی کی مرجھائی ہوئی چھاتیاں بھی تو اسی چوسے ہوئے آم کی طرح تھیں ۔۔۔۔۔لیکن سالی رانڈ !
اگلے ہی پل وہ ارنے بھینسے کی طرح غصے سے نتھنے پھلانے لگا۔حرام خور ،خداجانے کس بھٹی کی مٹی سے بنی ہے۔۔نچور دیا مجھے نمبو کی طرح۔۔۔۔اوپر سے بان کی ڈھیلی چارپائی نے انگ انگ ہلا دیا۔۔اور لعنتی عورت چھوٹی بھی نہیں ۔خدا کی مار ،نامراد نجانے آج کل کیا چاٹ کر آجاتی ہے کہ وید جی کے سارے کشتے اور طلے پانی بھرتے رہ جاتے ہیں ،اور کتیا منہ سے کہتی ہے،شوکے ڈھیلا ہوگیا ہے تُو۔۔۔۔بکواسن!نفرت سے جھر جھرا کر اس نے زمین پر یوں تھوکا جیسے سامنے بکھی کا مہاندرہ ہو۔
کچھ دیر تک من ہی من جلنے کڑھنے کے بعد شوکے کو یاد آیا کہ پیٹ میں کچھ ڈالنا ہے۔۔بھوک آنتیں کاٹے ڈال رہی تھی رات بھی بکھی کے چکر میں بس دیسی توڑے کے ساتھ نمکین چنے ہی پھانکے تھے۔۔۔وہ کھڑا ہوا اور کسلمندی سے پاؤں گھسیٹتا ہوا بالو کے ڈھابے کی جانب چل دیا۔۔۔۔
ابھی ڈھابے سے کچھ ہی دور تھا کہ ٹوٹے بنچ پر اسے جمن اور کلو نظر آگئے وہ زوروشور سے نجانے کس بات پر بول رہے تھے۔۔شوکے نے بہترا ان کی نظروں سے بچ کے نکلنا چاہا مگر جمن کی نظر پڑ گئی اور وہ لپک کر اس تک آن پہنچا۔۔۔۔
اب آیا ہے تو؟؟؟جمن نے خبیثانہ رازداری سے دیدے گھماتے ہوئے پوچھا۔۔۔
شوکے کے حلق میں کونین گھل گئی اور اس نے ٹالتے ہوئے کہا” جی اچھا نہیں ہے آج۔۔۔شاید دال باسی تھی رات تبھی پیٹ میں آگ سی لگی ہے”
جمن نے حلق پھاڑ کر قہقہہ لگایا اور واہیات انداز سے کہنے لگا” دال باسی تھی یا گلی ہی نہیں تھی”؟؟؟
شوکے نے اس کی گچی مروڑنے کی خواہش کو بڑی مشکل سے دبایا اور اس کو ٹالنے کی خاطر ڈھابے کے چھوکرے کو چائے پراٹھا لانے کو دوڑا دیا۔جب تک چھوکرا چائے پراٹھا لایا کلو اور جمن شوکے سے گزری رات کا قصہ سن کر اب دوسری باتوں میں مصروف تھے کہ اس بستی میں عورت کی اہمیت بس اتنی ہی تھی۔۔۔اور اس سے زیادہ اس پر وقت ضائع کرنا بیوقوفی سمجھی جاتی تھی۔۔۔۔
شوکا چائے میں پراٹھا ڈبو ڈبو کر کھا رہا تھا اور کلو بھٹا بستی کے قریب کسی انسانی حقوق کی تنظیم کے افسر کی ماں بہن کو بخشوانے میں مصروف تھا۔۔۔
” میں پوچھوں۔۔۔سالے!تیری ماں کے جنے ہیں ۔۔اولاد میری میں بھٹے میں جھونکوں یا ٹکٹکی پر باندھوں تیرے کو کیا تکلیف ہے۔۔؟،کلو بانچھوں سے کف اڑاتا ہوا بکنے جھکنے میں مگن تھا اور جمن اور شوکا سر دھن رہے تھے۔۔۔
قصہ یہ تھا کہ یہ کچی بستی اینٹوں کے بھٹوں کے قریب آباد تھی اور سارے مردوزن ان بھٹوں کے زندہ ایندھن تھے دن رات کی چار شفٹیں لگتیں اور آدمی عورتیں سبھی پیٹ کا نرکھ بھوگنے کو بٹھوں میں اپنا جیون جھونکتے تھے ۔۔۔جونہی چھوکرا چھوکری گو موت سنبھالنے کی عمر کو پہنچتے تھے ان کو پانچ دس روپے مہینہ پر بھٹے میں چنوا دیا جاتا تھا۔مرد زیادہ تر اپنی کائناتی برتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عورتوں کی کمائی ہتھیانا عین کار ثواب جانتے تھے۔۔۔۔اور جیون جیسے تیسے بھوگا ہی جا رہا تھا
بستی والے اپنے حال میں جیے جا رہے تھے اور شاید روز ازل تک یونہی رہے جاتے کہ ایسی لعنتی بستی اور بستی والوں کو خدا روز قیامت بھی بھول جاتا جیسے کہ وہ انہیں دنیا میں بھولا ہوا تھا۔ مگر نجانے کہاں سے ایک انسانی حقوق کی تنظیم وہاں ٹپک پڑی اور ان کے کاموں میں اڑچن بننے لگی۔۔۔شوکا حیرانی سے سوچتا کہ وہ کس پاسے سے ان کو انسان لگتے تھے جو حقوق پر بھاشن دینے چلے آتے تھے۔۔۔آئے روز کوئی نہ کوئی کارندہ کاغذوں کے پلندے تھامے چلا آتا اور نت نئے دوسری دنیا کے اصول قاعدوں سے ان کے کانوں میں برچھیاں کھبونے لگتا۔۔۔ بستی والے منہ کھول کر سنتے اور جی بھر کر ہنستے ۔۔۔
آج ہی کے قصے میں کچھ اصول ان پر لاگو کیے گئے تھے اور وہی اس وقت زیر بحث تھے۔۔۔
کلو نے بیٹری سلگائی اور واہی تباہی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔” حرامی تنجیم کا بابو۔۔۔بہن ۔۔! آج کہتا ہے کہ آئندہ کے بعد سولہ سال سے کم کا چھوکرا چھوکری بھٹہ مجوری کے لیے نہیں بھیجنے کا۔۔
پیٹ والی زنانی بھی چار گھنٹہ سے اوپر کام نہیں کر سکتی۔۔۔سالے سے کوئی پوچھے۔۔ بہن کے۔۔۔گابھن کے کیا ہاتھ پیر ٹوٹے ہوتے ہیں کہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی؟؟چھوکرا چھوکری تو پیٹ میں ہووے ۔۔۔اینٹیں تو سر پہ ہی ڈھونی ہوتی ہیں ”
جمن شوکے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوئے بولا” ہاں تو اور کیا! ! اچھو کمہار کی کھوتی بھی تو گابھن ہے پھر بھی اینٹیں ڈھوتی ہے وہ تو نہیں مری۔۔۔ویسے میں کہوں ۔۔ زنانی گابھن نہ ہی ہو تو بھلا ۔
“وہ کیوں؟ ؟”
اس انوکھی منطق پر شوکے نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔۔
جمن نے تھوڑا توقف کیا۔۔۔ایک زوردار آواز کے ساتھ ہوا خارج کر کے اطمینان کی سانس لی اور پیٹ تھپتھپا کر بولا ۔۔”وہ اس لیے کہ ۔۔گابھن عورت نہ اپنے کسی کام کی رہتی ہے اور نہ ہمارے۔ نو مہینے پھٹکار پڑی رہتی ہے ۔۔ہر وقت اباکتی رہتی ہے۔۔۔منہ لگانے کو جی نہیں کرے۔۔۔۔ارے اس سے تو گیئا بھلی ۔۔۔گابھن ہووے تو بچھیا کے ساتھ دو وقت دودھ کی دھار بھی دیوے ” جمن نے بات کے اختتام پر وحشی قہقہہ حلق کی گہرائیوں سے برآمد کیا اور تائیدی نظروں سے کلو اور شوکے کی جانب دیکھا ۔۔۔
“بات تو تو سولہ آنے کھری کرے پر یہ بھی تو سوچ کہ زنانی جنے نہ تو پھر زنانی کاہے کی؟؟”کلو نے میلی لنگی کے پلو سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔”بھول گیا ؟ بکھی کو جب خصم نے لات مار باہر کیا تھا ؟؟ارے مورکھ! !!بچے سے ہی تو پتہ چلے ہے کہ آدمی جنا کہ ہیجڑا ۔۔”
اور شوکا جو رات والی ذلت بمشکل بھلائے بیٹھا تھا، اس کے ذہن میں بکھی کا مہنہ کتا مکھی کی طرح پھر سے بھنبنانے لگا۔۔۔”سالی۔۔۔سوکھی کیوں رہی آخر”؟؟؟ابلتے کھولتے دماغ میں بکھی اور اپنی پرچھائیاں پھر سے تانڈو کرنے لگی تھیں ۔۔وہ تو بھلا ہو کہ بھٹی کی شفٹ کا بھونپو چلا پڑا اور وہ تینوں اٹھ کر بھٹی کی طرف چل پڑے۔۔۔
********************