کٹا کٹ ۔۔۔ مصباح نوید


کٹا کٹ

مصباح نوید

۔صغریٰ نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے غوں غاں میں بتایا: ” زخم ٹھیک نہیں ہورہے”۔ اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں، ایک چیخ بھری ہوئی تھی۔دونوں ہاتھوں پر لمبی گہری خراشیں،کھرنڈ تھے، ادھ بھرے گھاؤ تھے۔ جیسے کسی جنگلی بلی نے وحشت میں چاقو کی دھار رکھنے والے پنجے مارے ہوں۔استخوانی ہاتھ، گالوں کی ہڈیاں نمایاں،جھائیوں سے بھرا چہرہ، گردن پر ابھری ہوئیں نیلی سبز نسیں۔ لان کے کپڑوں میں جثے کی ہڈیاں صاف نظر آرہی تھیں۔ماس گوشت کم ازکم مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا ،بس باہر کو ابلی ہوئی آنکھیں۔

یہ رومانس بھرا شاعرانہ خیال کہ کاگا سب تن کھائیو، دو نینا مت کھائیو ، دراصل خاصا ہولناک منظر ہے۔

وہ میری بچپن کی

یک طرفہ سہیلی تھی یعنی سارے سہیلاپا کا بیانیہ اور ذمہ داری اسی کی طرف سے ادا ہوتی تھی۔ وہ مکمل بہری تھی، اسی لیے لفظوں میں تو بول نہیں پاتی تھی پر اپنی بات مکمل کہہ سکنے پر قادر تھی۔ آنکھوں ہی سے کانوں کا بھی کام لیتی، ہونٹوں کی حرکات، ہاتھ کے اشاروں، چہرے کے تاثرات دیکھ کر بخوبی سن لیتی بلکہ وہ سب باتیں بھی سن لیتی تھی جو بنا کہے خاموشی کے حلق میں انڈیل دی جاتی ہیں۔ ہمارے شہر سے گاؤں پہنچنے پر تقریبا سارا گاؤں ماموں کے گھر ہم سے ملنے آتا تھا لیکن پہلا ملاقاتی صغریٰ ہی ہوتی۔ میری آمد کا سنتے ہی لپک کر ملنے آجاتی۔پسلی توڑ جپھی کے بعد، جو عمر میں مجھ سے کئی برس چھوٹی تھی، ایک بزرگانہ شفقت کے ساتھ ماتھا بھی چومتی۔وارفتگی سے تکتی ہوئی کئی گھنٹے میرے پاس میرے گھٹنے پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہتی،میں اس کی ساری غوں غاں سمجھ لیتی تھی،اور وہ اپنی آنکھوں سے میری سنائی گئی ساری باتیں اخذ کر لیتی۔سکول کالج کی باتیں سننے کے لیے وہ محاورتاً نہیں واقعی ہمہ تن گوش رہتی۔ اس کی ماں نے اسے سکول نہیں بھیجا تھا کہ اس بہری گونگی نے سیکھنا کیا ہے! بس “ٹیم ویشٹ” کرے گی، بہتر ہے کہ گھر کے کام کاج کرے۔ صغریٰ کے ننھیال ولایت رہتے تھے، اس لیے صغری کی ماں کی انگریزی کمال تھی اور گھر بھی دوسرے گھروں کے کھلے دالانوں کے برعکس جدید طرز کا بند ڈبے جیسا تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ شور مچاتی رہتی کہ حرام دے او! باشٹرڈو! ڈوراں وِنڈاں بند رکھاکرو، باہر سے گندی ایئراں آتی ہیں۔جاڑے میں تو گزارہ ہو جاتا ،لیکن گرمیوں میں بند کمروں میں “گندی ائیروں ” بغیر سانس لینا محال ہوتا تھا۔پھر ہر آئے گئے کی حسرتوں کے سامنے جارجٹ کے کپڑوں، خوش رنگ سویٹروں، جرسیوں کی نمائش مزید دم گھٹنے کی کیفیت پیدا کردیتی۔ بیٹے تو رنگ برنگی گھڑیاں کلائیوں پر مٹکاتے، اِتراتے گلیوں میں پھرتے تھے کہ ان کا بھی یہ ہی خیال تھا سکولے جانا ٹیم ویشٹ ہی ہے اور کوئی ہنر سیکھنا بھی ہیٹی سمجھی جاتی۔ صغریٰ اور اس کی چھوٹی بہنیں ولایت سے آیا سامان برت نہیں سکتی تھی کہ دن میں کئی بار یہ اعلان ہوتا تھا : “اپنے گھر جا کر شوق پورے کرنا “۔ گھر تو صغریٰ کا نہیں تھا، پر گھر بھر کا رسوئی چوکا ، جھاڑ پونچھ اسی کا تھا ۔ صغریٰ کے سوال عام طور پر سکول کالج کے متعلق ہوتے،استادوں کے لباس،ہیئر اسٹائل پڑھانے کے انداز سب کے متعلق پوچھتی تھی۔ پھر جانے کب! ایک اور سوال کا بھی اضافہ ہوگیا :”شادی کیوں نہیں کرتی؟۔اس سوال کے زد سے ماموں زاد تو محفوظ رہتی کہ وہ صغری کی ہم عمر ہی تھی،میں سینئر تھی،اصولی طور پر شادی پر پہلا حق میرا ہی بنتا تھا اس لیے یہ “گولا” ہمیشہ مجھ پر داغا جاتا۔ یہ سوال سنتے ہی ماموں زاد جھنجھلا کر پاس سے اٹھ جاتی: “اب اس کملی سے خود ہی نمٹو “۔ وہ بھی صغری کی طرح سولہویں میٹھے سال میں تھی، البتہ اس کی دلچسپی شادی میں نہیں، محبت کی کہانیوں میں تھی۔ وہ نزدیکی شہر میں سرکاری سکول کے ہاسٹل میں رہتی۔ چھٹیوں ہی میں گاؤں آتی، پھر بھی گاؤں میں وقوع پزیر کسی بھی نئی نویکلی اور انتہائی خفیہ محبت کی خبر اس کو ہوتی تھی۔تپتی دوپہروں میں محبتوں کے قصے کہانیوں سے رنگ برنگے برفیلے گولے گنڈے کی مانند لطف اٹھایا جاتا۔جب تک کوئی پچھل پیری اس خفیہ محبت کی مخبری نہ کرتی، محبت جیتی رہتی۔ افواہوں کا جھکڑ چلتے ہی محبت کو ایسے ذبح کر دیا جاتا تھا،جیسے ماموں ہماری مہمانداری میں ڈربے میں گھس کر مرغی دبوچتے پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے اس کی گردن پر چھری پھیر دیتے، مکمل احتیاط کے ساتھ کہ خون نکاسی کی نالی میں جائے، چھینٹے کپڑے داغ دار نہ کریں۔

اس کے ہاسٹل کے کمروں میں لاتعداد لڑکیاں مرغیوں ہی کی طرح بند رکھی جاتی تھیں۔وہ چھٹیوں میں گھر آکر لمبے لمبے سانس ایسے لیتی تھی جیسے یہاں سے ہی ساری آکسیجن ذخیرہ کر کے واپسی پر ساتھ لے جائے گی۔کھلے صحنوں میں آکسیجن کی فراوانی کے باوجود ایک مسلسل گھٹن تو موجود رہتی تھی کہ نوجوان لڑکیاں انسان کم سامان زیادہ تصور ہوتی ہیں، سامان بھی ایسا جس کے چوری ہو جانے کا خدشہ ہو۔تنبہیی نگاہیں ٹوکتی رہتیں:!اچھی بیٹیاں کھڑکی میں سے نہیں جھانکتیں۔۔۔۔۔بْری بات،اچھی بیٹیاں دروازوں میں کھڑی نہیں ہوتیں۔۔۔ بْری بات! اچھی بیٹیاں زور سے نہیں ہنستیں۔۔بْری بات!اور تو اور اچھی بیٹیاں خوشبو اور نیل پالش بھی نہیں لگاتیں۔۔۔ بْری بات!”۔ خیر ماموں زاد نے بھی جینے کے لیے سپاٹ دیواروں میں کئی چور دروازے،دریچے، روشندان تراش رکھے تھے، پریم کہانیوں کے علاوہ ان بوہے باریوں میں نیل پالش بھی شامل تھی،جو اس کے ہینڈ بیگ کی خفیہ پاکٹ میں رکھی ہوتی۔ نیل پالش لگانے کی سکول،گھر دونوں میں ممانعت تھی اور وہ اپنے نیل پالش سے سجے پیروں پر ہمیشہ جرابیں چڑھا رکھتی تھی۔ “ہائے تمیں گرمی نہیں لگتی کیا! “۔

شاید نیل پالش کی ٹھنڈک ہی اتنی تھی کہ گرمی محسوس ہی نہ ہوتی۔۔ ان ڈھیر بْری مزیدار باتوں کے باوجود گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں جانا کچھ زیادہ خوش کن نہ ہوتا کہ ایک تو ماموں کے گھر میں نافذ مارشل لا، دوسرا دھاڑتی، چنگھاڑتی ہوئی لوکل بس، تیسرا بس سے اتر کر گھنٹہ بھر ٹوٹی ہوئی تپتی سڑک پر جھولتے ٹانگے کی سواری ، اور پھر کوچوان کا لہراتا چابک، پسینے میں شرابور گھوڑے کی بے بسی۔جی میں آیا کرتا تھا کہ چابک چھین کر ٹوٹے ٹوٹے کروں اور تانگے سے اتر کر گھوڑے کو گود میں اٹھا کر چلنا شروع کر دوں، شاید ایسا کر بھی گزرتی پر اپنی سیخ سلائیوں جیسی کلائیوں پر نگاہ جاتی تھی۔ تمام حیلوں بہانوں کٹھنائیوں میں دم پخت ہونے کے باوجود ماں کے پروگرام میں کوئی کمی بیشی ممکن ہی نہ تھی۔

صغریٰ کی شادی ہو گئی تو گرمیوں کی چھٹیاں صغریٰ سے ملے بنا گزرنے لگیں۔ اس کے خاوند نے اس پر گھر سے باہر نکلنے پر پابندی جو لگا رکھی تھی۔ صغری کی شادی بھی ایک طرح سے ایمرجنسی کا نتیجہ تھی۔

اس کے چچا کے بیٹے کی جوالا مکھی کی سی جنسی بلوغت نے کچی مٹی کی دیواروں کو تھرتھرا کر رکھ دیا تھا۔ چاٹی سے لسی انڈیلتی ہوئی عورت نے مامی سے سرگوشی کی” ‘عورت تو اس کے ہتھے کوئی چڑھتی نہیں، لیکن گاؤں کی کوئی گدھی اس نے چھوڑی نہیں ” باقی کہانی بھی قسطوں میں کبھی سرگوشیوں میں کبھی باآواز بلند “ہائے!توباں!” کے تڑکے اور چسکے کے ساتھ سنائی جاتی رہی۔

آخری ‘معلوم’ گدھا گیری کے بعد گدھی کے مالک نے وارننگ دے دی تھی کہ اب اس نے میری گدھی کے ساتھ کچھ ایسا ویسا کیا تو میں بھی اِس بہن چ کی ماں کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔ انشاللہ!۔برادری شاید اس معاملے کو اتنا سیریس نہ لیتی بس” انشاللہ’ کی گھمبیرتا سے ڈر گئی۔ پھر سیانوں کو اس بے مہار جنسی ابال کا یہ ہی علاج سمجھ میں آیا کہ فوری طور پر اس کی شادی کر دی جائے۔گدھی بچاو مہم میں بلیدان صغریٰ کا ہوا۔ گونگی، بہری صغریٰ! جو صرف محبت کی زبان سمجھتی تھی،پوتر من کے ساتھ گھر، آنگن، قِلقاریاں مارتے بچوں کے تصور میں مہکتی رہتی، خوشی خوشی بلیدان ہونے کو تیار بھی تھی۔ ناخوش بھی ہوتی تو کیا بگڑتا زمانے کا!!!! کبھی کسی نے قربانی کے جانور سے اس کی رضامندی پوچھی؟۔

پھر ماں کی بیماری اور ماموں کی وفات نے گاؤں کا سفر بھی تمام کردیا۔عرصے بعد ماموں زاد کی شادی میں شریک ہونے گاؤں آئی تو آنکھوں میں بدستور اپنا سوال لیے اجاڑ سی صغری جھٹ سے ملنے اگئی۔اس کے ساتھ آنکھوں میں جگنو لیے، قْلقْل ہنسی کے ساتھ اس کی تیرہ چودہ برس کی دراز قد صحت مند بیٹی بھی تھی۔ صغری کو کوتوال کی “نگران آنکھوں ” سے چھٹکارا مل گیا تھا کہ شوہر مزاروں،درباروں کا مجاور بن گیا تھا۔ روٹی شوٹی مفت مل جاتی اور چرس کے سگریٹ مفتا مفت، بقول ماموں زاد سال میں ایک بار ہی اس کی ٹھکائی اور پاؤں بھاری کرنے آتا ہے۔ صغریٰ نے میرا ماتھا شفقت سے چومتے ہوئے اپنا پسندیدہ سوال بھی ماتھے پر دے مارا:”شادی کیوں نہیں کرتی؟”۔میں خاموش رہی اور یہ ایسی چپ تھی کہ جس میں صغری بھی کوئی آواز تلاش نہیں کر پائی۔ اس چپ کو صغری کی بیٹی کی کھنکھتی آواز نے توڑا ، وہ مجھے بتانے لگی کہ:” اماں ہر وقت آپ کا ذکر کرتی ہیں میں آپ کو اچھی طرح جانتی ہوں “۔

” اچھی طرح؟ بھئی واہ!” میں نے صغری کی بیٹی کے سیاہ ریشمی بکھرے بالوں کو سنوارتے ہوئے صغریٰ سے پوچھا:”کتنے بچے ہیں؟”

صغریٰ نے انگلیوں کی پوروں پر گنتی شروع کر دی۔”ہائے صغریٰ! تجھے اپنے بچے بھی گننا پڑتے ہیں۔”

ماموں زاد ہنس کر بولی: ” اچھا ہے کہ گنتی دس تک ہی آتی ہے، خصم سے جتنے جوتے کھاتی ہے،گننے میں پڑ جاتی تو جینا اور مشکل ہو جاتا “۔ صغری نے چادر سر لپیٹتے ہوئے اپنی غوں غاں میں کہا: ” کوئی بات نہیں مالک جو ہوا”

ماموں زاد نے بتایا:” کئی بار اس کے خاوند کو برادری نے سمجھایا کہ پیار محبت سے بات کیا کر،کیوں بے چاری بے زبان کی ہڈیاں توڑتے ہو!!”۔۔۔وہ کوئی بندہ تھوڑی ہے ڈنگر ہے ڈنگر ”

لفظ ڈنگر کو مزید تشدید کرتے ہوئے میں نے کہا:

“..’ڈنگر’ہے تو اس ڈنگر کی شادی کیوں کر دی گئی؟

“شادی کر دی گئی تو کیا انوکھا ہوا؟ شادی تو دیسی طب میں صدیوں سے بطور علاج بھی تو آزمودہ ہے۔”

ماموں زاد نے تمسخر آمیز سنجیدگی سے مزید اضافہ کیا: “اور کلچرلی بطور انتقام بھی رائج ہے ایسا نہ ہوتا تو لفظ “سالا” بھلا گالی ہوتا کیا!”

پھر “کنکھیوں سے صحن میں بھاگم دوڑ مختلف کاموں میں مصروف اپنے بھائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی : ” پرسوں بارات ہے ان “سالوں ” کی حالت دیکھو جیسے آسمان آج ہی سر پر ٹوٹ گرا ہو۔”

جہیز کو ذرا اتاولی تھی اس نے دلہن سے پہلے ہی رخصت ہونا تھا، سامان اٹھانے والا ٹرک باہر کھڑا تھا۔

صغری نے صحن میں جہیز کی پیٹیاں اور فرنیچر اور الا بلا پیک کرتے ہوئے بھائیوں کو ہمدردی سے دیکھا۔ پھر اپنی بیٹی کے بابت بتانے لگی کہ آٹھویں میں پڑھتی ہے بہت لائق ہے لیکن فیشن بہت کرتی ہے اس کا بھائی اسے مارتا ہے فیشن کرنے سے منع کرتا ہے۔نہیں باز آتی، “تم اس کو سمجھاؤ نا! آخر اتنا پڑھی لکھی ہو۔” بیٹی کے ہاتھ انگوٹھیوں اور بازو چوڑیوں سے سجے تھے۔ میرے دل میں اس کے بے اختیار پیار امڈ آیا۔میں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا. فیشن کرنے میں کیا برائی ہے تم اپنے بیٹے کے ہاتھ توڑو،وہ کیوں اس پر ہاتھ اٹھاتا ہے”۔ صغری نے ہاتھ توڑنے کی بات پر سہم کر مجھ سے رحم کی اپیل کی۔” پھر کیا ہوا بھائی تو مارتے ہی ہوتے ہیں۔اس سے سال بھر چھوٹا ہے، عقل کا بھی پورا ہے لیکن بھائی تو ہے نا۔۔اچھی بیٹیاں فیشن نہیں کیا کرتیں تم اسے سمجھاو نا! تم نے تو اتنا ڈھیر پڑھ لیا ہے خواہ مخواہ ہی۔اس پڑھائی کا کیا فائدہ جب شادی ہی نہ ہوئی دیکھ تو بال بھی سفید ہو گئے”۔ صغری کی تیز نگاہوں نے میرے بالوں میں سفید بال ڈھونڈ ہی نکالے۔آخر شادی کیوں نہیں کی؟ سوال بدستور اپنی جگہ موجود تھا۔ “اففففف یہ شادی!! کہیں یہ معاملہ تو نہیں صغری! کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمھیں بھی لے ڈوبیں گے!!۔” میں نے ہنس کر صغریٰ سے کہا تو اس نے لمبی غووووں کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ تو پھر میں نے بڑی تسلی سے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اپنا واضح بیان جاری کیا: “اوہ بہن! کیا بتاوں! میں کسی “عظیم مقصد” کے لیے شادی نہیں کرنا چاہتی میں تو بس سادہ سی شادی کے لیے شادی کرنا چاہتی ہوں اور کوئی سادہ سا متمنی ملتا ہی نہیں “۔ ماموں زاد نے ہنکارا بھرتے ہوئے شاید اپنا دکھڑا سنایا:” سادہ سی شادی! یہ کیا ہوتی ہے؟۔ شادی میں تو فاتح اور مفتوح ہوتے ہیں، اور ڈھیر مال غنیمت بونس میں، یعنی مزید عظیم مقصد “۔جانے صغریٰ ہماری گفتگو سمجھی یا نہیں سمجھی یا پھر زیادہ ہی سمجھ گئی، پر ہنسنے لگی۔پھر ہماری ہنسی بھی اس کی ہنسی میں شامل ہو گئی۔ہم تینوں اتنا ہنسے اتنا ہنسے کہ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور پھر یہ ظلمی آنسو بہنے بھی لگے۔صغری کی بیٹی مجھ سے چمٹی رہی اس کے دل کی دھک دھک سے میرے بدن میں لرزش سی تھی لیکن وہ نہ روئی نہ ہنسی۔بس پٹر پٹر ہمیں ہنستے ہوئے دیکھتی رہی۔ہنسی کی بریکیں لگتے ہی ماموں زاد نے ہاتھوں کی زبان بھی استعمال کرتے ہوئے کہا: اسے کہتے ہیں بھینس کے سامنے بین بجانا، زندہ بھینس تو پھر کچھ سن دیکھ لیتی ہوگی ہم تو مری ہوئی بھینس کے سامنے بین چھوڑ شہنائی بجاوت ہیں۔”

صغری نے غوں غاں کرتے ہوئے احتجاج کیا:” ہائے یےیے! مجھے بھینس کہا؟میں اتنیییی دبلی پتلی جیسے سولہ سال کی لڑکی۔ ماموں زاد تنک کر بولی: اونہہ! سولھوآ سال! وہ اور دنیا کے لوگ ہیں جو سولہویں برس کو سویٹ سکسٹین کہتے ہیں ہم جیسوں کے سولہویں سال میں بھی بہاروں پر بین لگا ہوتا ہے، اور تْو! اب ٹنڈ منڈ ہوئی، سولہویں سال کی حسرت میں مری جا رہی ہے۔۔۔ اوئے!تجھے نہیں تیری سوچ کو بھینس کہا ہے” صغری جواباً ماموں زاد کو لتاڑا؛ ”

صغری نے دھیمے سروں صفائی پیش کرتے ہوئے کہا:” میں نے کیا غلط کہا؟ دیکھ نا! اگر شادی کر لیتی تو اس کی بھی بیٹی ہوتی۔” میں نے اپنے سفید ہوتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا،افففففف یہ شادی۔

ماموں زاد کی شادی کو تو ابھی سال بھی نہ گزرا تھا کہ رات گئے اس کا فون آیا:” بات تو معمولی سی تھی صغری کی بیٹی کو اس کی ولائتن خالہ نے موبائل فون تحفے میں دیا تھا۔چھوٹا بھائی شور مچاتا تھا کہ یہ کوئی چاند چڑھائے گی اس سے فون چھین لو۔صغری کی بیٹی ایک نہ سنتی کہتی کہ بھائی سے موبائل چھین کر دکھاؤ تو مانوں!۔بھلا لڑکوں سے مقابلے ہوتے ہیں؟؟ ” ماموں زاد کی آواز بھرا گئی.”کسی لڑکے سے موبائل پہ وڈیو پر کال کر رہی تھی۔بھائی نے قربانی کے لیے تیز کرایا گیا چھرا گھونپ گھونپ کر اسے اپنے ہی صحن میں مار مکا دیا۔ہائیےیے!میں نے خود دیکھی لاش، ایسے جیسے چیتھڑے ہوں “۔ماموں زاد کے بین کان کے پردے پھاڑ رہے تھے۔ “صغری بچاتی رہی ماں بیٹی کی چیخوں نے پورا گاوں اکٹھا کر دیا، لڑکی کا تو قیمہ کر دیا اس نے، کیا بچنا تھا!!۔اب صغری زخمی ہاتھ لیے پھوہڑی پر بیٹھی ہے، لوگ تف تف کرتے ہیں،مقتولہ کو زیادہ قاتل کو کم۔”

مہینوں بعد خود کو بمشکل یکجا کر کے ماتم والے گھر پتھر کی سل کی طرح بیٹھی تھی۔صغری غوں غاں کی بجائے صاف رواں بول رہی تھی جیسے کسی چینل پر نیوز کاسٹر خبریں سنارہی ہو: “سب نے سمجھایا، بیٹی تو گئی بیٹے کو تو بچالو، مہینہ بھر کے بعد ہی تھانے سے چھوٹ کر گھر آگیا۔کچھ دنوں بعد ہی عید تھی۔اس بار کسی بیٹی نے چوڑیاں پہننے کی ضد نہ کی،ہاں! سب مردوں نے نئے کلف دار جوڑے پہنے، عزت تو سنبھالی گئی نا”. پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد دونوں زخمی ہاتھ میری طرف بڑھا کر دکھاتے ہوئی کہا: ” گھاؤ بھرتے ہی نہیں“

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.