روانی میں ٹھہرا ہوا کارواں ۔۔۔ سرمد سروش

روانی میں ٹھہرا ہوا کارواں

سرمد سروش

رات آدھی اِدھر اور آدھی اُدھر ہے

مگر میں ابھی سے وہ سب نعمتیں چکھ چکا ہوں

کہ جو موت کا جام پینے سے پہلے

اسیروں کو شب بھر میسر رہی ہیں

زیست کا جام اوندھا پڑا ہے

تو خالی صراحی میں اب ہو کے عالم سوا کچھ نہیں ہے

بے کلی ! صبح ِ سقراطِ محبوس آنے میں کیا دیر ہے ؟

جب خساروں کی حالت میں مرنا مرا طے شدہ ہے

تو پھر یہ کوئی دن، کئی دن کا جھگڑا ہی کیا ہے

بظاہر یہ دریا کے جیسی رواں زندگی ہے

حقیقت میں حرکت میں ٹھہرا ہوا کارواں زندگی ہے

اسی انجمادی روانی میں ہم غل غپاڑا مچاتے بہے جا تے ہیں

تیری فطرت کی ترکیب کی استواری میں کام آتے ہیں

سو میں کام ا رہا ہوں

جو رد کر چکا تھا وہ اپنا رہا ہوں

پھر اک بار امکان ِ تردید کے کارِ صیقل گری میں پڑا ہوں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.