بالآخر آزادی ۔۔ تھین پی مینٹ/نصر ملک

با لاخر ۤزادی
افسانہ نگار: تھین پی مینٹ ( برما)
مترجم :: نصر ملک ( کوپن ہیگن۔ ڈنمارک)

مانگ تن مئنیت مکان کی نچلی منزل کے کمرے میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اوپر والی منزل کے فرش پر لوگ اِدھر اُدھر آجارہے تھے اور شور ایسا تھا کہ اس کے پڑھنے میں مخل ہورہا تھا اور وہ پڑھنے کا کوئی لطف نہیں لے سکتا تھا۔ اس نے شور سن کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ اسے یوں آواز سنائی دی جیسے کوئی فرنیچر گھسیٹ رہا ہے۔ اس نے اندازہ لگایا کہ اب لنچ کا وقت ہوگیا ہے اور یہ شور اسی کی تیاری کی وجہ سے ہے۔ اسے اچانک بھوک کا احساس ہوا۔

“سر، آئیں لنچ کرلیں”، اہ نی نے اسے بالکونی سے آواز دی ۔ اس نے اپنی کتاب میز پر رکھی اور سامنے کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گیا۔

تن مئنیت اس گھر میں یو اہن پی کے ایک اجرتی مہمان کے طور پر رہ رہا تھا۔ اس کا اِس خاندان سے کسی بھی طرح کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ اہ نی گیارہ سال کی چھوٹی بیٹی تھی جسے تن مئنیت ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ وہ اسے سایا یعنی ٹیچر کہہ کر بلاتی تھی۔ اہ نی کی بڑی بہن، پندرہ سال کی ہلا ہلا، تن مئنیت کی گرل فرینڈ تھی۔ سبھی بڑے یہ بات جانتے تھے لیکن دکھاوا کرتے تھے کہ جیسے وہ کچھ نہیں جانتے۔ انہیں اگرچہ اِس میں کوئی اعتراض بھی نہیں تھا لیکن وہ اِن پر خاصا کنٹرول بھی رکھتے تھے۔

یواوہن پی، اس کی بیوی اور ہلا ہلا بڑی بیٹی اور اہ نی پہلے ہی سے اپنا کھانا کھاناشروع کرچکے تھے۔ وہ سب کہیں باہر کے لیے نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ جب تن مئنیت کرسی پر بیٹھ گیا تو ہلا ہلا نے اپنا سر یوں آگے کو جھکالیا کہ اب اس کے بالوں میں جڑا ہوا گلاب کا ایک بڑا پھول اسے صاف نظر آرہا تھا۔ تن مئنیت کو ہلا ہلا کر ہر انداز بہت اچھا لگ رہا تھا اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس کے بالوں میں لگے ہوئے گلاب کے بڑے پھول کو بوسہ دے۔

چاول اور کری ملاتے ہوئے تن مئنیت نے پوچھا: “چچی آپ سب کہا ں جارہے ہیں؟”

“ہم شیو داگون پاگوڈا (مندر) جارہے ہیں اور تم اور تمہاری اہ نی، دیکھ بھال کے لیے یہیں گھر پر رہو گے۔” چچی نے جواب دیا۔

اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ پاگوڈا جاتے ہوئے ہلا ہلا کے ساتھ ہو۔ اسے خیال آیا کہ اس طرح اگرچہ انہیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا موقع تو نہ ملے البتہ اپنی محبت کے پہلو بہ پہلو چلنا بھی تو کسی خوشی سے کم نہ ہوتا۔ اور یہ ایسا ہی ہوتا جیسے کسی باغ میں بیٹھے خوشبو سے لطف اندوز ہونا ہوتا ہے۔ تن مئنیت نے سوچا کہ اپنی گرل فرینڈ کے قریب ہو کر وہ اپنی محبت کی خوشبو سونگھ سکتا تھا۔ اپنے اس خیال پر وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا لیکن جب اس نے سنا کہ اسے گھر ہی پر رہنا ہے تو اس کے دل کو سخت دھچکا لگا اور وہ چاول کا ایک دانہ تک نہ نگل سکا۔ اچانک وہاں سیڑھیوں پر بھاری قدموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ ارے، مامیا کیا تم لوگ ابھی اپنے لنچ سے فارغ نہیں ہوئے دو بوڑھی عورتیں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔ ان کے ساتھ نوجوان لڑکیاں اور دو لڑکے بھی تھے۔

وہ جب اوپر آرہی تھیں، ہلا ہلا نے اپنی پلیٹ چاولوں اور کری سے بھری اور کچن کی جانب چلی گئی۔ تن مئنیت اداس دکھائی دینے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید یہ لڑکی نہیں چاہتی کہ کوئی یہ دیکھے کہ وہ اس کے ساتھ بیٹھی، ایک ساتھ کھانا کھارہی ہے۔ وہ شاید ان لوگوں کی جانب سے ممکنہ تنقید سے خائف تھی؟ تن مئنیت کے دماغ میں ایسے عجیب سوال آرہے تھے کہ اسے لذیذ کھانے کا کچھ مزہ نہیں آرہا تھا اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس نے کھانا کھایا کیسے۔

وہ لوگ جو آئے تھے وہ کوئی اور نہیں تھے، وہ ہلا ہلا کے دوست اور رشتہ دار تھے۔ وہ سب بیٹھ چکے تھے اور لنچ کے بعد خوش گپیاں کررہے تھے۔ تن مئنیت نے سوچا کہ اگر وہ اور ہلا ہلا نے اپنے درمیان کسی ہچکچاہٹ یا خجالت کا مظاہرہ کیا تو ممکن ہے یہ لوگ ان دونوں کے درمیان تعلق کو بھانپ لیں۔ اب وہ ہلا ہلا سے یوں طنز و مزاح کرنے اور چھیڑنے لگا جیسے وہ دونوں بہن بھائی ہوں۔

“ارے دیکھو تو، ہلا ہلا نے کیا پہن رکھا ہے؟ اتنی موٹی سوتی لنگی، ایک دیہاتن کی طرح پہنے ہوئے!” وہ بولا۔ ہلا ہلا جان گئی کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے اور اصل میں وہ کیا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ بھی آشفتگی ظاہر کرتے ہوئے کچھ مسکرائی، ارے بھائی، تم یقیناً اندھے ہوگے، یہ سوت نہیں ، ریشم ہے، جناب ریشم! وہ بولی۔

“ہاں، اس کی لنگی تو دیکھو، اس پہ ریشم کے کیڑے دکھائی دے رہے ہیں! ” ایک مہمان عورت بولی۔ اس مذاق پر ہر کوئی ہنسنے لگا۔

ایک دوسری عورت نے پوچھا کہ کیا گھر کے مرد ان کے ساتھ پاگوڈا نہیں جارہے ، تن مئنیت فوراً بول پڑا، انہیں گھر پر چوکیداری کرنی ہے۔ کیا تم پاگوڈا میں ہمارے لیے دعا کروگی، اس نے گھوم کر ہلا ہلا سے پوچھا۔

“نہیں میں دعا نہیں مانگوں گی، تم ایسے آدمی ہو جو یقیناً دوزخ میں جائے گا۔” ہلا ہلا نے مذاق مذاق میں کہا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔

اس مذاق پر ہر کوئی ہنسنے لگا اور پھر وہ سبھی سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگے۔ ان کے جانے کے بعد تن مئنیت بہت اداس ہوگیا۔ وہ اٹھا اور ایک الماری کے پاس گیا جو کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ کچھ پڑھنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ وہ سایا یواہن پی کو کچھ کہے بغیر سیڑھیوں سے نیچے چلا گیا۔

تن مئنیت سیڑھیاں اتر کر نیچے بیٹھا خود کو بڑا اداس اور اکیلا محسوس کررہا تھا۔ وہ صرف ہلا ہلا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ شاید وہ اب تک پاگوڈا تو پہنچ ہی گئے ہوں گے، وہ سوچ رہا تھا، انہوں نے (مندر میں) چڑھاوے کے لیے پھول تو خرید ہی لیے ہوں گے۔

چچی نے یہ اچھا نہیں کیا کہ اس نے ان دونوں لڑکوں کو ساتھ لے لیا اور اسے پیچھے گھر پر چھوڑ دیا۔ شاید اس نے یہ اس لیے کیا ہوا کہ لوگ اسے ہلا ہلا کے ساتھ دیکھ کر باتیں کریں یا تنقید کریں۔ چچی شاید ان دونوں کو ان باتوں سے بچانا چاہتی ہو۔ خیالات اس کے ذہن میں آرہے تھے اور اس کی آنکھوں کے سامنے صرف ہلا ہلا کا شگفتہ چہرہ، مسکراتے ہونٹ اور چمکتی آنکھیں تھیں لیکن وہ اپنی اس سوچ پر قابو نہ پاسکا کہ آخر چچی اس کے ساتھ اتنی ناراض کیوں تھی۔ اس نے اس کے ان اقدامات کو بے جا اور شاید غلط سمجھا ہو۔ وہ پڑھنے کو ایک کتاب لینے کے لیے اٹھا لیکن اس کے دماغ پر تو صرف ہلا ہلا ہی چھائی ہوئی تھی وہ کتاب پڑھنے پر توجہ نہ دے سکا۔ اس نے کتاب بند کی اور اسے شلف پر واپس رکھ دیا۔ زندگی اس کے لیے بالکل ٹھیک نہیں تھی۔ اسے اکیلا کیوں پیچھے چھوڑ دیا گیا؟ اس کے ذہن میں بس یہی سوال تھا۔

اس نے گھڑی پر دیکھا۔ اس سے پہلے اس نے گھڑی کی منٹوں والی سوئی کو کبھی اتنے غور سے نہیں دیکھا تھا۔ اور یہ کتنی سست رفتار ہے! اچانک اس نے محسوس کیا کہ ہر شے بڑی خاموش خاموش ہے اور باہر بالکل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ بسوں کی آمدورفت بھی رک چکی تھی۔ وہ اب صرف اپنے سانسوں کی آواز سن سکتا تھا۔ تن مئنیت اب گھر سے باہر نکلا اور سڑک پر آکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ مین روڈ روشنیوں سے چمک رہی تھی، کتنا ہی اچھا ہوتا اگر اس وقت ہلا ہلا میرے ساتھ ہوتی۔ اس کی خواہش اس کے ہونٹوں پر آگئی تھی۔ کچھ لمحے وہاں ٹھہرنے کے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں آگیا لیکن اس کی سوچ کا محور ہلا ہلا ہی تھی۔ وہ اپنے اور ہلا ہلا کے بارے میں سوچتے ہوئے اداس اور ناراض ہورہا تھا۔ وہ ایک ملی جلی کیفیت میں مبتلا تھا۔ ناراض بھی اور اداس بھی۔ دوسروں کو ہمارے معاملات میں مداخلت کی کیا ضرورت ہے! اس کی سوچ کی لہر پھر ابھری۔ اگر کوئی ان پر تنقید کرتا ہے تو اس سے ان کو کیا ضرورت ہے! اس کی سوچ کی لہر پھر ابھری۔ اگر کوئی ان پر تنقید کرتا ہے تو اس سے ان کو کیا غرض! پوری دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے اور کسی کو کسی ایسے دوسرے سے محبت کرنے کی آزادی ہی نہیں، جسے وہ چاہتا ہے۔ ایک دوسرے سے بات کرنے کی آزادی نہیں۔ میں اپنی گرل فرینڈ سے کسی کی مداخلت کے بغیر محبت کرنا چاہتا ہوں۔ تن مئنیت غصے میں بڑبڑاتا اپنا کام کررہا تھا۔ میز پر بیٹھا، اب جب وہ کتاب پڑھ رہا تھا اسے گھر کے بڑے دروازے پر کسی کی آواز سنائی دی۔ اس نے کچھ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ اب اسے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی اس نے چچی اور اہ نی کی آوازیں بھی سنیں۔ وہ صرف اپنے بارے میں سوچ رہا تھا اور دکھ محسوس کررہا تھا کہ زندگی اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کررہی ہے۔

کچھ دیر بعد اسے یوں آواز آئی کہ جیسے کوئی سیڑھیاں اتر کر پھولے ہوئے سانس کے ساتھ اس کی میز کے قریب آرہا ہے جیسے کہ وہ بھاگتا رہا ہو۔ اچانک اس نے ادھر دیکھا، سامنے ہلا ہلا کھڑی اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرارہی تھی۔ وہ ٹائلٹ جانے کا بہانہ کرکے پچھلی سیڑھیوں سے دبے پاؤں نیچے اتر آئی تھی۔ وہ ننگے پاؤں تھی کیونکہ اسے ڈر تھا کہ بڑے کہیں اس کے قدموں کی آواز نہ سن لیں۔ وہ خوف سے کانپ رہی تھی۔

ہلا ہلا کے شگفتہ مسکراتے چہرے کو دیکھ کر تن مئنیت کے سینے میں جلتی ساری آگ ٹھنڈی پڑ گئی تھی۔ پوری دنیا ایک چکتے ہوئے پورے چاند کی طرح لگ رہی تھی جس کی کرنیں ہر طرف اپنی ٹھنڈی روشنی بکھیر رہی تھی۔

“اومیرے کوکو، ڈارلنگ ، کیا میں خدا کی طرف سے حاصل کردہ اس کی برکتوں میں تمہیں شامل کرسکتی ہوں؟ ” ہلا ہلا مسکراتے ہوئے بولی۔

او، ہلا پا گوڈا جاتے ہوئے جو کچھ تم نے کہا تھا اس میں کیا سنجیدگی نہیں تھی۔ تن مئنیت بولا۔

یقیناً بالکل نہیں، میرے کوکو، کیا تم نہیں دیکھ سکتے ؟ ہلا ہلا یہ کہتے ہوئے اسے کچھ اجنبی نگاہوں سے دیکھ بھی رہی تھی۔

“تم مجھے یوں کیوں دیکھ رہی ہو؟ کیا تم مجھے پسند نہیں کرتی ہو؟” تن مئنیت نے پوچھا۔

“تم یہ اشارے نہیں سمجھتے ، میرے کوکو! ہم اسی طرح تو دکھائی دیتے ہیں بیشک ہم ایک دوسرے سے محبت ہی کرتے ہوں ، کیا تم نہیں جانتے؟”

تب تن مئنیت اپنی جگہ سے اٹھا اور اسے گلے سے لگا کر اس کے ہونٹوں پر انگلی پھیرنے لگا۔

ہلا ہلا نے اس کا ہاتھ پرے جھٹک دیا،” پہلے کہو کہ تم خدا کی طرف سے مجھے دی گئی اس کی برکتوں کو قبول کرتے ہو!”

“ٹھہرو، ایک منٹ! ڈارلنگ اب جب موقع ملا ہے تو میں پہلے تم سے باتیں تو کرلوں۔”

اسی دوران ہلا ہلا کی ماں کی آواز سنائی دی،” ہلا ہلا ، تم کہاں ہو؟ اوہ! اہن پی ، ہلا ہلا ٹائلٹ میں بھی نہیں ، مجھے تعجب ہے کہ آخر وہ گئی کہاں؟”

“میرے کو کو ، مجھے اوپر جانے دو، اگر میں نہ گئی تو وہ مجھے پیٹیں گے۔” ہلا ہلا نے تن مئنیت سے کہا۔

“نہیں تم اب اوپر نہ جاؤ۔ مجھے ان کے سامنے کوئ آزادی نہیں ہوگی۔

یہ کہتے ہوئے تن مئنیت نے دروازہ بند کردیا۔

“تم ہرگز اوپر نہ جاؤ۔ یہ تھوڑی سی آزادی جو ہمیں اب میسر ہوئ ہے اسے مت ضائع کرو۔”

“ہلا ہلا تم کہاں ہو؟” ماں کی آواز آئی۔

“ماں میں یہاں ہوں۔ “ہلا ہلا بولی۔ تن مئنیت یہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ وہ اس کا منہ بند کرے یا دروازہ کھول دے۔ ہلا ہلا کی ماں نے بڑی کھلی آنکھوں سے دروازے کو بند دیکھا اور اپنے شوہر کو آواز دی، “کو اہن پی ، یہاں آؤ!”

“در)ّنوازہ کھولو”، ماں نے زور دیا۔ “زیادہ شور مت مچاؤ تم نہیں چاہتی ہو کہ ساری دنیا سنے ، ہے نا؟ ” باپ بولا۔ “میرے خیال میں اچھا ہوگا کہ اگر ہم انہیں شادی کر لینے دیں۔

تنمنیئت نے دروازہ کھولا اور بولا،” ہلا ہلا۔ بالآخر ہمیں آزادی ملنے ہی والی ہے۔”

( نصر ملک کی وال سے)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.