میلا کپڑا ۔۔۔ اسد علی

میلا کپڑا

 (اسد علی)

وہ ایک عجیب آدمی تھا۔ دمکتی کاروں کے شہر میں میلا کپڑا لئے گھومتا تھا۔ اور جب کوئی کار ایک لحظہ کو رکتی تو وہ بکھرے بالوں اور گندے ہاتھوں والا شخص کپڑا لئے نمودار ہوتا۔ بالکل اچانک اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سوچتا وہ سکرین پر کپڑا پھیرنے لگتا۔ کار والا باہر منہ نکال کر غصے سے دیکھتا تو بڑی ڈھٹائی سے دانت نکال دیتا۔ یقیناً بڑے بڑے بورڈ لکھوانے والے ڈاکٹروں کو سیکھنا چاہئے کہ وہ کتنی آسانی سے بغیر تکلیف کے دانت نکال دیتا تھا۔ مگر نہیں۔۔۔۔۔ تکلیف تو شاید بہت ہوتی تھی تبھی تو رات اس کی چارپائی سے سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔ بہت ملتی جلتی تھی اس کی تکلیف اس مریض سے جسکا آپریشن تو اینستھیزیا کے زیر اثر ہو گیا ہو اور اب سارے درد گم گشتہ کے قافلے فصیل جسم تک آ پہنچے ہوں۔

میرا اس سے رشتہ کیا تھا؟شاید صرف بھوک کار شتہ۔ میں اس کے ساتھ صرف اس لئے تھا کہ وہ مجھے روٹی دیتا تھا اور اسکول کی فیس کے لئے پیسے بھی۔ ہاں یہ سر چھپانے کی کٹیا اور بستر بھی اسی کا تھا پر میں ان کے بغیر بھی گذارا کر سکتا تھا۔ کہنے کو تو لوگ اسے میرا باپ کہتے تھے مگر مجھے کبھی اس کا یقین نہیں آیا۔ کیونکہ کبھی کسی تنہائی میں اس نے مجھے سینے سے نہیں لگایا، کبھی میرے لئے کوئی خواب نہیں دیکھا۔ وہ تو بس جیسے شیشوں کا باپ تھا۔ جن سے اسے واقعی محبت تھی۔ وہ اسی محبت سے سامنے کے جوہڑ میں اپنے کپڑے کو دھوتا تھا جس سے  کوئی ماں اپنے بچے کے گندے بستر کو صاف کرتی ہے۔ وہ گھنٹوں جوہڑ کے کنارے اکڑوں بیٹھا  اسے دیکھتا رہتا جیسے کسی دن وہ بڑا ہو جائے گا۔ اتنا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے خوابوں کی تکمیل کر سکے۔ اس کے خواب کیا تھے؟ مجھے خبر نہیں۔ شاید اس کے کاندھے سے ٹکا کپڑا کچھ جانتا ہو۔

میٹرک کے بعد کالج کی فیس کے لئے اس سے پیسے مانگے تو اس نے کپڑے کا ا یک چھوٹا ٹکڑا مجھے تھما دیا۔ اس کی آنکھوں میں اس دن بڑی بے اطمینانی تھی۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے فوراً  رخساروں کی لگامیں کھینچ کر دانت نکال دیے۔ میں اس حربے سے کیا پگھلتا۔ اس کے ہاتھ کو جھٹکا دیا اور باہر نکل آیا۔ باہر نکلا تو دنیا بدلی نظر آئی۔ آسمان جو کل تک سائبان لگتا تھا آج بہت اونچا ہو گیا۔۔۔۔۔ ناقابل حصول۔۔۔۔ زمین جسے ماں کے ہاتھوں کی طرح نرم ہونا چاہیے تھا باپ کی لاٹھی کی طرح کھردری تھی۔ خیر مجھے کیا غم۔ پڑھا لکھا تھا۔ میں اپنی دنیا آپ بنا سکتا تھا۔ وہ ایک دن کیسے گذارا، میں کہاں کہاں گیا۔ یہ سب یاد اس لئے نہیں کہ اس شام عہد کر لیا تھا کہ میں اسے بھول جاؤں گا۔ وہ صبح کا اپنی دنیا تراشنے نکلا اس اداس شام کو بھول کر اپنے ہی گھر آ گیا اور میرے گھر سے اب صرف ایک راستہ نکلتا تھا۔ دمکتے شیشوں اور میلے کپڑے کا راستہ۔

اس رات میرے باپ کے گھر میں ایک بچہ مر گیا اور ایک جواں مرد پیدا ہوا۔ جنم ہمیشہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں بھی اس رات بہت تکلیف میں تھا۔ میں ہر اس شئے سے لڑا جس پر میرا ذرا بھی حق تھا۔ اس کٹیا سے، خود سے، اس باپ سے، اپنے مقدر کا احاطہ کئے ہوئے بے پناہ اندھیروں سے۔ کسی نے میرے نوکیلے سوالوں کا جواب نہیں دیا مگر باپ نے پہلی بار ایک سوال ضرور پوچھا۔

’’کیا کر لو گے اگر چار حرف پڑھ بھی لو؟‘‘

’’میں جانور نہیں رہنا چاہتا۔ مجھے سمجھنا ہے دنیا کو‘‘

اس کی آنکھوں میں شدید کرب اترا، کسی بڑے پھل والے چاقو کی طرح۔ مگر آنسو، کوئی قطرہ خون نہیں نکلا۔ کیونکہ لاشیں خواہ کتنی صحت مند نظر آتی ہوں ان میں خون نہیں ہوتا۔ اس کے آنسو بھی بہت پہلے کے خشک ہو چکے تھے۔ اس نے سر کو زور زور سے ہوا میں موجود ان دیکھی دیواروں سے ٹکرایا اور وہی کپڑے کا ٹکڑا میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ جیسے وہ میرے سوال کا جواب ہو۔ اتنے سمجھدار سوال کا ایسا بے معنی جواب۔ مگر دن بھر میں دل کچھ ایسا ٹوٹا تھا کہ یہی بے معنی جواب میں اپنی پوٹلی میں باندھ کر اگلی صبح گھر سے نکل آیا۔

چوک پر پہنچا تو قدم بھاری ہو رہے تھے، بھیگی پیشانی ایک عجیب آگ میں جل رہی تھی، تھوک نگلنا چاہا تو لگا جیسے اس کے سب سوتے ہی خشک ہو گئے ہوں۔ بیسیوں گاڑیاں لمحوں میں میری آنکھوں کے سامنے گذر رہی تھیں۔ ایک سے ایک چمکتی۔ ہر گاڑی میں دھلے دھلے پاکیزہ چہرے تھے۔ ایک نظر ہاتھ میں دبے میلے جوہڑ سے دھلے اس کپڑے پر ڈالی جسکے ایک کونے میں کسی جونک نے پنجے گاڑ رکھے تھے اور دوسرے کونے پر گھاس کے چند تنکے ایک دوسرے سے جکڑے ہوئے تھے۔ اتنی شفاف دنیا میں ایک بے روزگار کیا کرے؟کیوں نہیں بنا دیتا  مالک کیچڑ کی سڑکیں۔ ہزاروں لوگوں کو روزگار تو ملے گا۔ میں واپسی کو مڑا جبھی ایک چمکتی گاڑی قریب آ کر کھڑی ہوئی۔ جس میں سے ایک موٹے سے سفید چہرے والے شخص نے دو روپے کا نوٹ میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔

’’ذرا کپڑا مار دو‘‘

میں نے بڑی حیرانی سے ایک نظر اپنے کپڑے پر ڈالی اور دوسری دو روپوں پر۔ زیادہ سوچا نہیں اور چمکتی ونڈ اسکرین پر کپڑا مارا۔ حیرت کے مارے میری چیخ نکلنے لگی۔ بدبو کا ایک بھبھکا میرے ناک سے ٹکرایا۔ کپڑے پر اتنی میل اس شیشے سے اتری  یا اس چہرے سے جو شیشے کے پیچھے تھا۔ شفاف شیشوں اور دھلے چہروں کی اس دنیا میں مجھے اس وقت سب سے پاکیزہ چیز وہ میلا کپڑا نظر آ رہا تھا یا پھر بکھرے بالوں اور گندے ہاتھوں والا وہ بوڑھا شخص جو اپنی گرد بھری آنکھوں سے بہت دور تک دیکھ سکتا تھا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031