عمل ِ دوام ۔۔۔ لیو ٹالسٹائی
Count Lev Nikolayevich Tolstoy, usually referred to in English as Leo Tolstoy, was a Russian writer who is regarded as one of the greatest authors of all time. He is best known for the novels War and Peace and Anna Karenina, often cited as pinnacles of realist fiction.
عملِ دوام
لیو ٹالسٹائی
اردو ترجمہ: نادیہ افتخار حسین
پرانے وقتوں میں ایک مہربان اور اچھا انسان رہتا تھا۔ اُسے خدا نے دنیا کی ساری نعمتوں سے مالا مال کردیا تھا۔ اس کے بہت سارے غلام تھے جو دل سے اس کی خدمت کیا کرتے تھے۔ غلاموں کو اپنے مالک پر فخر تھا اور اکثر آپس میں بیٹھ کر اپنے مالک کے گھن گایا کرتے تھے۔
“اس سورج کے نیچے ہمارے جیسا مالک کسی اور غلام کو نصیب نہیں ہوا۔ وہ ہمیں کھانے اور پینے کے لئے عمدہ غذا دیتا ہے اور ہم سے ہماری سکت کے مطابق کام لیتا ہے۔ کبھی ہم سے سخت زبان میں بات نہیں کرتا، دوسرے مالکوں کے برعکس جو اپنے غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں، ان کو سخت سزائیں دیتے ہیں جن کے وہ مستحق بھی نہیں ہوتے، ہمارا مالک ہم سے دوستانہ اور نرم سلوک کرتا ہے”۔
غلاموں اور ان کے مالک کے بیچ اس محبت اور بھائی چارے کو دیکھ کر شیطان غصے سے سیخ پا ہو گیا۔ اُس نے ایلب نامی غلام کو اپنی جال میں پھنسا کر اس کو حکم دیا کہ تم دوسرے غلاموں کو مالک کے خلاف بھڑکاؤ۔ ایک دن جب سارے غلام بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے مالک کی اچھائیوں کے گُن گا رہے تھے تو ایلب نے آواز بلند کرتے ہوئے کہا
” یہ سراسر حماقت ہے کہ ہم اپنے مالک کی اچھائیوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ خود شیطان بھی ہم پر مہربان ہوجائے اگر ہم اس کی اتنی خدمت کریں۔ ہم اپنے مالک کی بہت خدمت کرتے ہیں ، اپنے کام سے ان کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کا حکم دینے سے پہلے ہم پورا کر لیتے ہیں۔ ایسے میں وہ ہم پر مہربان ہونے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ ان کی اچھائی کا تو تب پتہ چلے اگر ہم اس کو خوش کرنے کے بجائے نقصان پہنچائیں۔ پھر ہم دیکھں گے کہ وہ کیسا سلوک کرتا ہے ہمارے ساتھ۔ یقیناً ہمارا مالک بھی دوسرے بد ترین مالکوں کی طرح ہماری غلطی کا جواب سزا سے دے گا۔ ”
دوسرے غلاموں نے ایلب کی بات سن کر اس کی تردید کر دی۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے کہ ان کا مالک ان کے ساتھ کوئی ظالمانہ سلوک بھی کرسکتا ہے۔ آخر کار اُنہوں نے ایلب کے ساتھ یہ شرط لگائی کہ وہ مالک کو غصہ دلائے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو گیا تو اپنی چھٹی والے دن کے لباس سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو باقی سارے غلام اس کو اپنی چھٹی والے دن کا لباس دے دیں گے اس کے ساتھ ساتھ وہ مالک کے سامنے ایلب کا دفاع بھی کریں گے اگر سزا کے طور پر اس کو قید کیا گیا یا پھر زنجیروں کے ساتھ باندھا گیا۔ شرط کے مطابق ایلب اگلی صبح مالک کو غصہ دلانے پر راضی ہو گیا۔
ایلب ایک گڈریا تھا اپنے مالک کی قیمتی اور نایاب نسل بھیڑوں کی دیکھ بھال کرنا اس کے ذمہ داری تھی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کا مالک ان بھیڑوں کو کتنا عزیز رکھتا ہے۔ اگلی صبح مالک اپنے چند مہمانوں کو ایلب کی جگہ پر لے آیا تاکہ ان مہمانوں کو اپنی بھیڑوں کا نظارہ کروا سکے۔ ایلب نے اپنے ساتھی غلاموں کو آنکھ مارتے ہوئے اشارے سے بتایا کہ دیکھو اب کیسے میں مالک کو غصہ دلاتا ہوں۔ دوسرے غلام یہ صورت حال دیکھتے ہوئے دروازے اور جنگلے کے اردگرد جمع ہو گئے۔ شیطان بھی قریبی درخت پر چڑھ کر اپنے چیلے کی کارکردگی کا جائزہ لینے لگا۔
مالک اپنے مہمانوں کے ہمراہ بھیڑوں کے دلان کے قریب پہنچ کر انہیں نر اور مادہ مختلف نسل کے بھیڑ دیکھاتے ہوئے کہنے لگا۔
“یہ سب بھیڑ قیمتی اور نایاب ہیں لیکن میرے پاس ایک ایسا بھیڑ بھی ہے جس کی دونوں سنگیں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوبصورتی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جس کی کوئی بھی قیمت نہیں لگائی جاسکتی سوائے اس قیمت کے کہ وہ میری آنکھوں کا تارا ہے۔”
اجنبی لوگوں کو دیکھ کر بھیڑ دلان کے اندر بھاگ گئے۔مہمان اس خاص بھیڑ کو نہیں دیکھ سکے۔ جیسے ہی بھیڑیں آرام سے کھڑی ہوگئی ایلب نے پھر قصداً انہوں ایسے طریقے سے بھگایا جیسے سب کچھ غلطی سے ہو گیا ہو۔ سارے بھیڑ ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ ہو گئے۔ مالک اس سارے جھمیلے سے تھک سا گیا اور ایلب کو آواز دیتے ہوئے کہا:
“ایلب میرے اچھے دوست !
تم میرے لئے میرا بہترین بھیڑ پکڑ کر یہاں لے آؤ ، جس کے سینگ مضبوطی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اُسے آرام سے پکڑنا اور چند لمحوں کے لئے پکڑے رہنا تاکہ مہمان اچھی طرح اسے دیکھ سکے۔”
ابھی مالک نے یہ کہا ہی تھا کہ ایلب بھیڑوں کے بیچ شیر کی طرح کود پڑا۔ اُس نے اپنے مالک کے پسندیدہ ریشمی بھیڑ کو نہایت سختی کے ساتھ دبوچ لیا۔ اپنے مالک کی آنکھوں کے سامنے اس نے اپنے ایک ہاتھ سے بھیڑ کے بالوں کو سختی کے ساتھ سے پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے پچھلے حصے کی دائیں ٹانگ کو پکڑ کر طاقت کے ساتھ اس کو توڑ دیا۔ بھیڑ گھٹنوں کے بل، تکلیف کی وجہ سے ممیانے لگا۔ اس کے بعد ایلب نے بھیڑ کو اگلے حصے کی دائیں ٹانگ سے پکڑ کر ہوا میں معلق کیا۔
مہمان مایوسی ، دکھ اور حیرت سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ ادھر درخت کی ٹہنی پر بیٹھا شیطان ایلب کو چالاکی کے ساتھ اپنا کام نبھاتے ہوئے دیکھ کر مسرور ہو رہا تھا۔
مالک کے چہرے پر بادلوں جیسی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اُس نے غصے کی شدت سے سر جھکا لیا اور ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا۔ مہمان اور سارے غلام دم بخود کھڑے تھے کہ اب آگے کیا ہوگا۔ چند گھڑی کی خاموشی کے بعد مالک نے اپنے جسم کو یوں حرکت دی جیسے کہ کسی وزنی شے سے خود کو آزاد کر رہا ہو۔ پھر اس نے اپنا سر اوپر اٹھایا آنکھیں آسمان کی طرف کرتے ہوئے چند لمحے ساکت کھڑا رہا۔ اس کے چہرے پر چند لکیریں نمودار ہوئیں، سر کو جھکا کر نیچے ایلب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :
“اے ایلب تمہارے آقا نے تمہیں حکم دیا کہ تم مجھے غصہ دلاؤ لیکن میرا “آقا” تمہارے آقا سے ذیادہ طاقتور ہے۔ میں نے تم پر غصہ نہیں کیا لیکن میں تمہارے آقا کو غصہ ضرور دلاؤ گا۔”
تم خوفزدہ ہو کے میں تمہیں سزا دوں گا اور تمہاری خواہش ہے کہ میں تمہیں آزاد کروں، تو جان لو ایلب میں تمہیں سزا نہیں دوں گا۔ یہاں ، اسی وقت ، اپنے مہمانوں کے سامنے ، میں تمہیں آزاد کرتا ہوں۔ جاؤ جہاں تم جانا چاہتے ہو اور اپنی چھٹی کے دن والا لباس بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔
یہ کہتے ہوئے ایلب کا مہربان مالک اپنے مہمانوں سمیت اپنے گھر واپس چلا گیا لیکن دور درخت کی ٹہنی پر بیٹھا شیطان غصے سے اپنے دانت پیستے ہوئے نیچےگر کر زمین میں دفن ہو گیا۔