نیلی نوٹ بک قسط 15 ۔۔۔ انور سجاد
نیلی نوٹ بُک قسط 15
عمانویل کزا کیو ایچ
ترجمہ : ڈاکٹر انور سجاد
عمانویل کزا کیویچ 1913 میں یوکرین میں پیدا ہوا ۔1932 میں اسکی نظموں کا پہلا مجموعہ ” ستارہ ” کے نام سے شائع ہوا جس نے اسے پوری دنیا سے متعارف کروایا۔ بعد ازاں اس کی لکھی کتابیں ، اودر کی بہار، دل دوست، اسٹیپ میں، چوک میں ایک گھر، اور دن کی روشنی میں، منظر عام پر آیئں ۔ ” نیلی نوٹ بک ” اسکا آخری ناولٹ تھا۔ عمانویل کے ہم عصر، فیودر دوستووسکی کے مطابق کزا کیو ایچ ایک زبردست سیاح، شکاری، پارٹی کا روح رواں، فطرتا ہنس مکھ لیکن بہت ہی جرات مند سپاھی تھا۔
ڈاکٹر انور سجاد : 1935 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کے بعد انہوں نے ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ کا امتحان لندن سے پاس کیا۔ نور سجاد کی شخصیت پہلو دار ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ نظریاتی وابستگی انہیں سیاست تک لے آئی۔سٹیج اور ٹیلی ویژن کی قوت اظہار سے خوب واقف ہیں اور جدید اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ رقص کے بھی ماہر ہیں۔ انکی شخصیت کے تمام پہلو ان کی افسانہ نگاری میں کسی نہ کسی طور ظاہر ہیں۔ رگ ِ سنگ، آج، استعارے، پہلی کہانیاں، چوراہا، خوشیوں کا باغ ان کی نمایاں تخلیقات ہیں۔
نیلی نوٹ بک قسط 15
لڑکوں کے انتظار مین دروازے پر کھڑی نادہژدا نے اطمینان کا سانس لیا۔اسنے حقارت سے سگریٹ کا ٹکڑا اٹھا کر کوڑے کی بالٹی میں یوں پھینک دیا جیسے وہ فادی کزمچ ہو۔ یمیلیانوف ہنسا۔ اسنے اپنی بیوی کو بڑی محبت سے تھپتھپا کر کہا، ” اخبار خرید لایئں ؟ “
” ہں لڑکے بھی آتے ہی ہوں گے۔ یہاں سب ٹھیک ہے ؟ “
” با لکل ۔ انہیں یہ جگہ بہت پسند ہے۔ کہتے ہیں وہ اس سے بہتر جگہ کی خواہش نہیں کر سکتے تھے۔ “
وہ مسکرائی، ” اگر ان کی کسی چیز کو دھلائی یا مرمت کی ضرورت ہو تو یہاں لے آنا۔ “
” بہت اچھا۔ “
” کولیا کا کیا حال ہے ؟ “
” اچھا لڑکا ہے۔ پہرے پر گیا ہے۔ “
” میں انکے لیے مچھلی لائی ہوں۔ چاہے تو ساتھ لے جانا۔ “
” اچھا۔ اور وہ فرانسیسی کوتئک نہیں لایئں۔ ؟ مارتل ؟ “
دونوں کھکھلا کر ہنس دئے۔وہ پھر اس سے سوال پوچھنے لگی۔ ” وہاں رات سردی تو نہیں بڑھ جاتی ؟ “
” ٹھیک ہی ہے۔ تھوڑی بہت نمی ضرور ہے۔ مچھر بھی بہت ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ وہ گلہ نہیں کرتے۔ “
” تم گرمی سے جھلس گئے ہو۔ نکولائی۔ “
” ہاں آج میں نے گھاس کی بہت کٹائی کی ہے۔ “
” تم تھکے تھکے بھی دکھائی دیتے ہو۔ “
” جانے کیوں ؟”
” فکر مند ہو ؟ “
” ہاں ۔۔۔۔۔۔ ہوں ۔”
” نیند ٹھیک ائی تھی۔ ؟ “
” اتنی ٹھیک نہیں۔ انہیں بھی تو سونے میں دیر لگ گئی تھی۔ “
” بے چین رہے ؟ “
” نہیں خاموشی سےلیٹے رہے۔ مجھے احساس ہوا کہ سو نہیں رہے ہیں۔ “
” خوف سے ؟ “
” نہیں سوچتے رہے۔ پھر نہ جانے کب سوئے۔ صبح جاگے تو پہلا کام یہ کیا کہ لکھنا شروع کر دیا۔ اخبار کا ہمیشہ بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ “
لڑکے جلد ہی اخبار لے کر آ گئے۔ آلو تیار تھے۔ سب نے مل کر ناشتہ کیا۔ نادہژدا ہمیشہ سب سے آخر میں ناشتہ کرتی تھی۔ ان کے ناشتے سے بچا کھچا کھاتی تھی کہ کہیں بچوں کے لیے کم نہ پڑ جائے۔ حال ہی میں اسے ناشتے کے وقت تازہ اخبار پڑھنے کی عادت بھی پڑ گئی تھی۔ یملیانوف اپنے تھیلے میں اخبار اور سامان رسد رکھنے لگا۔
” بدمعاش کتے۔ ۔۔۔ ” اس نے اپنی بیوی کی زبان سے سنا۔ ” کن لوگوں کو کہہ رہی ہو ؟ ” اسنے سر اٹھا کر پوچھا۔ اسنے اپنی بیوی کی زبان سے کبھی کوئی ناشائستہ لفظ نہیں سنا تھا۔
” جو وہ لکھتے ہیں بکواس ہے۔ انتہائی غلاظت۔ ۔۔۔” نادہژدا نے اخبار پکڑاتے ہوئے کہا۔
وہ بہت محظوظ ہوا اور بیوی سے اخبار لیتے ہوئے ہنس دیا۔
اخبار میں ایک مضمون چھپا تھا جس کا عنوان تھا، ” لینن اور میوزک ہال کی لڑکی” اس میں بیان کیا گیا تھا کہ لینن کی ساکھ، بوفے اس ایتے کی گانے والیوں کے مداح کے طور پر کیا تھی اور میوزک ہال کی ایک مغنیہ “ارنا آیئمستی ” کے ساتھ اسکے کتنے قریبی تعلقات تھے۔
” بوکے تھیٹر میں ، شہید لینن کی منظم کردہ عیاشیوں، رنگ رلیوں کی حقیقتوں کو کوئی نہیں جانتا۔ لیکن وہاں کے بیرے ان دنوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے جب لینن ان سے شمپیئن کی ایک بوتل ایک سو دس روبل میں خریدتا تھا اور پچیس روبل ٹپ سے نوازتا تھا۔ وہ ایک اور سانحے کو ہمیشی یاد رکھیں گے جب لینن نے اپنے پرولتاری ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنی محبوبہ ارنا کے ساتھ کمرہ نمبر چار بک کرانے کے بعد بیرے کو کھانے کا آردر دینے کے لیے بلایا۔ گھنٹی کی آواز سن ۔ پھر ایک بھاری بھرکم دیو قامت کزبک نامی بیرا اسکے کمرے میں گیا۔ لینن جو ہمیشہ پرسکون رہتا تھا، اسے دیکھ کر ایک دم طیش میں آ کر فرش پر پیر پٹختا چیخنے لگا ۔۔۔ نکل جاو۔ دفع ہو جاو۔ کم بخت بورژوا۔ کسی اور بیرے کو بھیجو۔ بھاری بھرکزبک گھبرا کے مڑا اور تیزی سے بھاگ اٹھا۔ اس نے لینن کے ہاتھ میں پکڑا بم دیکھ لیا تھا۔ “
۔” کمال ہے۔ ” یمیلینوف بے بڑی سادگی سے کہا پھر اس نے ایک نظر نادہژدا کو دیکھا اور نرمی سے سمجھایا، ” تم کیوں پریشان ہو گیئں۔ بعض اوقات تو وہ اس سے بھی کئی گنا زیادی جھوٹ لکھتے ہیں”
لیکن نادہژدا کی تسلی نہ ہوئی۔ وہ طیش اور نفرت سے لرز رہی تھی۔ عورت ہونے کے حوالے سے وہ سمجھتی تھی کہ لینن کے کردار پر اس سے زیادہ اوچھا، خطرناک اور زہریلا وار نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا، ” یہ اخبار لینن کو نہ دکھانا۔ انہیں پریشان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسے یہیں چھوڑ جاو۔ “
” کیا ؟ “
” یہیں چھوڑ جاو یہ اخبار ۔۔۔” اس نے ضد کی
یمیلینوف کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ لینن کے کردار پر اس سے زیادہ رکیک حملے ہو چکے ہیں۔ تاہم اسنے وہ اخبار وہیں رکھ دیا۔ چنانچہ لینن کو کبھی پتہ نہ چل سکا کہ میوزک ہال کی مغنیہ ارنا آیئمستی کے ساتھ اس کے کتنے قریبی تعلقات تھے۔