سال 2018 کی آخری غزل ۔۔ فرح خاں
سال 2018 کی آخری غزل
( فرح خاں )
پرایا
ہجر اگتا ہے زمینِ خشک بنجر میں
اداسی تلملاتی ہے سہولت سے جو منظر میں
سنو کردار لازم ہو گا پیڑوں
اور ہواؤں کا
پرندوں
کی اذیت کا کسی شاخِ گلِ تر میں
کسی داسی کے دل میں وصل کی
خواہش اگر جاگے
کرے
اشنان گنگا میں پڑھے اشلوک مندر میں
لرزتے ہاتھ کی دستک مقدر سے
الجھتی ہے
اگرچہ
ربط کچھ باقی نہیں دیوار میں در میں
سسکتا ہے کسی امید کا نوحہ
سرِ صحرا
جہاں
وحشت کی حیرانی امڈ آتی ہے پتھر میں
چراغِ شب اندھیرا پھانکنے
سے پیشتر , صبحیں
مری
خواہش ہے ڈھل جائیں کسی نورانی پیکر میں
ندی سے خواب کے دریا کی
نسبت تھی سو ڈوبی ہے
مری
دیوانگی الجھن ان آنکھوں کے سمندر میں
دسمبر سے انہیں شکوہ شکایت
ہو نہیں سکتی
جنہیں
مارا مئی نے اور جو بچھڑے ہیں نومبر میں
اگر دل ٹوٹتے ہیں دوسرے بھی
سب مہینوں میں
فرح
کوئی یہ بتلائے کہ ایسا کیا دسمبر میں