ستم تو یہ ہے ۔۔۔ حسن عباس رضا
ستم تو یہ ہے
( حسن عباس رضا )
ستم تو یہ ہے
کہ دست کوزہ گراں میں کوئی ہنر نہیں تھا
وگرنہ
جوہر بلا کے
چاکوں پہ گھومتی
اور خاک اڑاتی سفال میں تھے
وہ اسمِ اعظم
جو زیر ِ سنگ آمدہ دکھی ہاتھ کی رہائی کا گیت ُبنتا
کسی کو از بر کہاں
کہ ورد ِ زبان ہوتا
سو ہم نے دیکھا
کہ شہر ِ حاتم میں
عُشر درعُشر کرچی ہوئی انایئں
بوسیدہ آرزویئں
لباس ِ دریوزہ گر میں سمٹی
زکواۃ زادوں کی خاک ِ دہلیز چاٹتی تھیں
یہ ہم نے دیکھا !
یہ حشر لمحہ بھی ہم نے دیکھا
کہ توشہ دانوں میں لفظ لاشے اٹھائے
سینے پہ بےحسی کے نشاں سجائے
غرور ِ اہلِ قلم
صفِ جاہلاں میں خم گردنیں کئے
مطمئن کھڑے تھے
ستم تو یہ ہے
Facebook Comments Box