موسم ِبے نور میں ایک دستک
موسم ِ بے نور میں ایک دستک
( قمر جاوید )
وہی موسم کہ جس میں لوگ گدلے پانیوں مین اپنے چہرے بھول جایئں
ناشنا سائی کی بارش پربتوں کی برف آنکھوں میں سکوت مرگ کے جنگل اگا دے گا
اور خواب آلود شہروں کی فصیلوں پر ہمیشہ رات کا پرچم رہے
اس موسم ِ بے نور میں
سورج بساط گرد میں لپٹا ہوا
پلکوں کے روزن سے
دلوں کے زرد افق پر اک شفق امید کا منظر سجاتا ہے
جہاں سے منعکس ہو کر
ہری صبحوں کی کرنیں بے نشاں چہروں کو خدوخال دیتی ہیں
اسی بے نور موسم میں ہم اپنے نقش کھو بیٹھے ہیں
اور سورج بساط گرد میں لپٹا ہوا
پلکوں پہ دستک دے رہا ہے۔
Facebook Comments Box