غزل ۔۔۔ شہناز پروین سحر


غزل

( شہناز پروین سحر )

آنسو گرا تو کانچ کا موتی بکھر گیا 
پھر صبح تک دوپٹا ستاروں سے بھر گیا

میں چنری ڈھونڈھتی رہی اور اتنی دیر میں 
دروازے پر کھڑا ہوا اک خواب مر گیا

سرما کی چاندنی تھی جوانی گزر گئی 
جھلسا رہی ہے دھوپ بڑھاپا ٹھہر گیا

میں رفتگاں کی بات پہ بے ساختہ ہنسی 
انجام اس ہنسی کا بھی افسردہ کر گیا

تم کہہ رہے ہو ہجر میں مرتا نہیں کوئی 
پھر کیوں غم جدائی میں وہ ہنس مر گیا

خالی گلی میں سارے مکاں سوچتے رہے 
اس سمت جس کو آنا تھا وہ کس نگر گیا

ان پانیوں کو تشنہ لبوں سے گریز تھا 
چڑھتی ندی کا مست بہاؤ اتر گیا

تھوڑی سی دیر مل کے بہت دیر رو لیے 
پھر اپنے گھر کو میں گئی وہ اپنے گھر گیا

سودا تھا سر میں دور بہت دور جا بسیں 
عزم سفر کیا تو مرا ہم سفر گیا

پتھر کی مورتی بنی میں دیکھتی رہی 
گھر پیچھے رہ گیا تھا وہ آگے گزر گیا

شہناز پروین سحر

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930