انتظار ۔۔۔ سلمان حیدر
انتظار
( سلمان حیدر)
بدن بستروں کو طلاق دے دیتے ہیں
انگلیاں تصویروں کے فریم تھامے لکڑی ہو جاتی ہیں
کلینڈر تاریخوں سے بهرے رہتے ہیں
لیکن دن خالی ہو جاتے ہیں
پیروں کو عدالت کا رستہ یاد ہو جاتا ہے
ہونٹوں کو دعائیں بڑبڑانے کی عادت پڑ جاتی ہے
مائیں ہر آنے والے کو یوں تکتی ہیں
جیسے وہ ڈاکیا ہو
راتوں کو رونے والے باپ
سورج نکلتے ہی بہادر بن جاتے ہیں
انتظار ہیرے جیسی آنکھوں سے
نمک کا پانی تاوان لیتا ہے
کچه لوگ کبهی واپس نہیں آتے۔۔۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments Box