غروب ۔۔۔ شہناز پروین سحر

غروب
شہناز پروین سحر

گھڑی میں ایک بج کر بیس منٹ ہو جانا کافی نہیں ہوتا ۔۔ اگر یہ پتہ نہ چل رہا ہو کہ یہ دن ہے یا رات ۔۔ یہ تنہائی کی ہی تاثیر ہے کہ وقت بھی آپ کو آپ کے حال پرچھوڑ دیتا ہے ۔۔ 
پتہ نہیں وقت نے اُسے چھوڑ دیا کہ وہ خود اِس کے دائرے سے باہرچلی آئی تھی
کسی سے پوچھ لیتی ہوں ۔۔۔ اگر یہ دن ہے تو میسج کا جواب آ ہی جائے گا ۔۔ اُس نے سوچا اور اپنی دوست کو میسج پر پوچھا
“یہ دن ہے کہ رات ۔۔ ؟ “
“میں ہوں رات کا ڈیڑھ بجا ہے” ۔کھٹ سے اُس کا جواب آ گیا ۔
اچھا ۔۔۔۔ رات ہے یہ تو ۔۔۔ 
شاید کسی ہزیمت کے احساس سے تھک کر روتے روتے سو گئی تھی ۔
یہ چہرہ تو ہزیمتوں کا اعلان نظر آتا ہے اس لیئے میں آئینہ نہیں دیکھوں گی ۔۔ اُس نے سوچا
کیا بڑھا پا بھی ہزیمت ہے ؟۔۔۔ ایسا ہے کہ توقیر اور تحقیرمیں ہمیشہ سے ہی ٹھنی رہی ہے ۔۔۔ کیا انسان صرف اپنی نظر میں معزز ہے ۔۔۔ ؟ معزز جیسے لفظ پر ۔۔ اُسے ہنسی آ گئی لیکن اِس معزز لفظ کا مطلب ہی کیا ہے ۔۔ پیدا ہوتے ہی تو ڈاکٹر دونوں پاؤں پکڑ کر اِس بیچارے سر ِ پُرغرور کو نیچے کا راستہ دکھا دیتے ہیں ۔۔۔ کج کلاہیوں کے مزید جھمیلے تو بعد میں مسئلہ بنتے ہیں ۔
وہ ایک محنت کش لڑکی رہی تھی ، زندگی کی عمارت اُس دیوارکی طرح تھی جس کی ایک ایک اینٹ اُس نے خود کمائی تھی ۔اس دیوار کی بلندی سے ہی اُس کا قد تعمیر ہوا تھا سواُس کے لیئے یہ دیوار کسی معبد کی دیوار سے کم نہ تھی ۔ کیوں کہ زندگی کو رب کی عطا اور اپنی عبادت مانتی رہی تھی ۔
” میرے یہ دو ہاتھ میرے ساتھی بنے رہے ہیں میں کبھی ہاری نہیں”
اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلا کر اُس نے سوچا
” یہ ساری لکیریں میری محنت کی لکیریں ہیں ۔۔۔”
اُس روز اُس کی بات سن کر وہ بہت ہنسی 
” تمہارے یہ دو ہاتھ دو ننھے ننھے سفید کبوتر لگتے ہیں ۔ “
” کیا کبوتراتنے محنتی ہوتے ہیں ۔ “
وقت کی بیگار کاٹتے ایک عمر بیت گئی ۔ وہ اور وقت وِِکرم اور بے تال تھے جیسے ۔
“وقت نہیں ہے میرے پاس “
آج کسی نے کہا تو اُس نے اچنبھے سے مُڑ کر دیکھا ، 
کو ن ہے یہ — جس کے پاس وقت نہیں ہے ،
” وقت ہی وقت ہے ہمارے پاس “
” وقت تو سرہانے تلے پڑا رہتا ہے “
” دوپٹے کے پلو میں بندھا رکھا ہے “
” آئینے میں رہتا ہے وقت “
” وقت ، جو اپنا ہی عکس ہے “
کیا چہرہ وقت کا احساس نہیں دلا تا ، یوں جیسے کوئی پرانی بوسیدہ کتاب ۔
اس کتاب میں عمر کے کچھ سوکھے پھول پڑے رہتے ہیں ۔ ورق پلٹو ، اور بس پلٹتے جاؤ۔۔۔ 
بھولا بچپن تتلی کی طرح ہاتھ سے نکلا اور اُڑ گیا ۔۔۔ جوانی ۔۔۔ وہ جوانی جس کے نہ آنے کا کچھ پتہ چلا نہ جانے کی کچھ خبر ۔۔۔ اور بڑھاپا وہ تو گھٹنوں میں جم کر بیٹھا ہے
بس — دو وقت ٹھہر گئے تھے اُس میں ، 
اُس کا بچپن اور بڑھاپا ۔ غروب کا عالم ہو جیسے
اور وقت ، جو بہت زیادہ تھا اُس کے پاس — 
کتنی تصویریں ہیں ، اُن میں پڑا ہوا ہے وقت ، 
گھر کی چھت سے چھپکلی بن کر چمٹا ہوا ، گھورتا رہتا ہے ، دیواروں میں ، کھڑکیوں میں ، کواڑوں میں فرش پر ، گھر کے برتنوں میں ، الماریوں کی درازوں میں ، صندوقوں میں ، کپڑوں کی تہوں میں جوتوں میں ، فرنیچر میں ۔۔۔ وقت ہی وقت ہے ۔۔۔ ابا کی قبر میں جا کر سوگیا ہے وقت ، اور— ماں ۔۔۔ ماں کی قبر میں تو میں تو وہ خود جا کر لیٹ گئی تھی — آج تک وہیں لیٹی ہوئی تھی 
بس آنسو ہی ہیں جن کے بیچ کبھی نہیں آ سکا یہ وقت ،
اُس وقت بھی نہیں — جب اُس کی بیٹی نے اُس کی قسمت کو اپنا کھلونا سمجھ لیا ۔ یہ کھلونا وہ چھپا چھپا کر تھک گئی تھی — لیکن بچی اسے ڈھونڈ ہی لیتی ہےاور 
وہ دکھ کی صلیب پر گڑی سانسیں روکے ہراساں و پریشان بے بسی سے بچی کو کواس کھلونے کے ساتھ کھیلتے دیکھتی رہ جاتی –
” کیا یہ بچی میری تاریخ ہے ؟
اور کیا یہ ہے میرا وقت ، اتنا بے خبر۔۔۔ درختوں کے پتوں میں تالیاں بجا رہا ہے 
جھولا جھولتا ہوا ، رسی کودتا ، اُٹھتا ، گِرتا ، ہنستا روتا ، جیتا مرتا ہوا وقت
دن رات وہ دیکھ رہی ، اس بدصورت وقت کی اداکاریاں اور بے تکی فنکاریاں ۔۔۔ 
اور پھر وقت بیمار پڑ گیا ۔۔
” اگر میں تمہیں وقتی طور پر طلاق دے دوں تو تمہیں برا نہیں لگنا چاہیئے ۔۔ بس کسی کو یہ کاغذ دکھا کر مطمئن کرنا ہے ، یہ طلاق میں واپس لے لوں گا ۔۔ تین مہینے کے اندر اندر، میچور نہیں ہو گی ۔۔ اتنی سی تو بات ہے ۔ کوئی فرق ہی نہیں پڑے گا تمہیں “
سفید کبوتر جھپاک سے اُڑ گئے
ہاہاہاہا ، وقت کی مکاریاں
اُس ٹھہرے ہوئے بدبو دیتے وقت سے وہ آگے بڑھ گئی ۔۔ وقت  نےبھی اُس کے کبوتر ہاتھ جھٹک دیئے ، کہیں اور مُڑ گیا ، 
لیکن اپنا بدصورت چہرہ لیئے ہوئے ایک دن پھرسے آن دھمکا ،
” میں اور تمہارے بغیر جی لوں گا یہ سوچا بھی کیسے تم نے” 
ہاہاہا ۔۔ وقت کی عیاریاں
” میں تمہارے ساتھ رہ نہیں پاؤں گا لیکن آتا رہوں گا تمہارے پاس “
وقت کی سفاکیاں ۔
ارے ۔۔۔ گود میں پھول کھل گئے ، وقت کی دلداریاں ۔ْْ
” ماں — اس ملک میں نہیں رہنا ، یہاں پر کوئی مستقبل نہیں ہے ، یہاں ہے کیا ۔ تم بھی چلو یہاں سے ” ۔
کوئی کیسے چلے اگر وہ چل ہی نہ سکتا ہو
وجود کا ٹکڑا ٹکڑا الگ ہوگیا بچے چلے گئے ۔۔
وقت کے چنگل میں ، اکیلی اور ادھوری زندگی –
سوال آخر اپنا جواب پا ہی لیتے ہیں ،
” میرے بیٹو —- میں جان گئی ہوں
تم بھی وقت کی مجبوریاں ڈھو رہے ہو ۔۔ ” اُس نے کرب سے سوچا
کچھ منظر جو صرف اُس کے تھے ، اُس سے دور — مُلک ، شہر ، اِس کی گلی اور اس کے گھر سے دور سات سمندر پار رخصت ہوگئے —
اُس نے وقت کا ہاتھ پوری طرح سے چھوڑ دیا — 
جانے کون اُس کے دل کو در بدر کر رہا تھا — کسی اور دیس میں ،
اُن راستوں اور سڑکوں کووہ نہیں جانتی تھی – کسی ان دیکھی گلی کے ان دیکھے مکان میں ۔۔۔ سال ہا سال کے فاصلوں پر۔۔ اُس کی گود کتنی دور تک بکھر گئی تھی –
انجانے دیس میں کسی انجانے گھر تک — جو اُس نے کبھی نہیں دیکھا تھا — کبھی سوچا ہی نہیں تھا – 
” وقت کے بھی کتنے ہی نام ہیں ۔۔۔ ” 
یہاں اپنے دیس میں ، اپنے شہر میں ، اُس کے اپنے گھر میں
وقت کا نام تنہائی ہے —-
بیماری ہے 
خاموشی ہے 
بہت سارا وقت بیماریوں اور ڈاکٹروں کے نسخوں میں سمٹ کر ایک مہیب سناٹا بن گیا –ْ
ایک طویل سناٹا ۔۔۔
لیکن اب اس اجاڑ سناٹے میں ایک اجنبی سایہ آ ن دھمکا ہے ۔۔۔ وہ اُس کے آس پاس منڈلاتا رہتا ہے ۔۔ 
کہتا ہے میں وقت کا پڑاؤ ہوں ۔۔ 
پڑاؤ —- تو وقت کی موت ہے 
جہاں عمریں تھم جاتی ہیں ، 
جہاں گھڑیاں رُک جاتی ہیں ، 
تاریخیں ٹھہر جاتی ہے
بہت سارا وقت اپنا منہہ چھپا کر کہیں بھاگ گیا ۔
کچھ سوالوں کے انتہائی سرد جواب اُس کے اندرخاموش پڑے تھے ۔۔ ْ
کچھ ہجرت کا سا سماں ہے –
صدیوں کے برفاب میں غرق ہوتے ہوئے آخری واقعات — 
رکتی دھڑکنیں ،
زندگی سے منکر— 
رفتہ رفتہ متعارف ہوتی ہوئی افقی لکیرکی اختتامی نمود —
کوئی رہائی لایا تھا ، اِس دُکھتے ہوئے جسم کے لیئے – 
پنکھ لایا تھا کسی ان دیکھی پرواز کے لیئے — 
ایک آزاد ، کھُلی فضا — وسیع ، سرمئی ، نیلگوں خلاء میں – 
ایک وشال گود کی آسودگی ۔۔۔ اور بے انت سکون — 
بدن کے درد ، بوجھ ، اورعمروں کی تھکن سے دور،
مسرت اور سرور کی دنیا ،
جہاں حبس نہیں ہے
قفس بھی نہیں ہے ۔۔۔ 
اطراف اورسرحدوں کی بندشوں سے پاک
غروب کا وقت ہو چلا ہے
غروب جو وقت کا اختتام ہے
لا مکاں کی وسعتوں سے کسی بہت اپنے کا بلاوا ہے ۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031