زور ِ جنون ِ دل ۔۔۔ محمود احمد قاضی
زور جنون دل
( محمود احمد قاضی )
ہر روز فجر کے وقت دو بندے گلی میں سے ایک ساتھ گزرتے ہو ئے کہتے چلے جاتے تھے:
” میٹھی نیند کے مزے لوٹنے والے میٹھے لوگو ! اٹھو کہ یہ بیداری کا وقت ہے۔”
تب سوئی گل جاگنے لگتی لیکن ابھی تک کی روایت کے مطابق گلی میں سب سے پہلے جاگنے والی شخصیت شادی بیگم کی ہی ہوتی تھی- بیگم اٹھتی، واش روم جاتی وضو کرتی اور نماز پڑھنے لگتی- نمازی جب فجر کی نماز پڑھ کر مسجدوں سے واپسی کے سفر پر ہوتے تو وہ اپنی بیٹھک کا دروازہ کھول دیتی- یہ بیٹھک بھی تھی اور اس کی روزی کا ذریعہ بھی تھی- لوگوں کی ضرورت کے لئے دودھ، دہی، مکھن، انڈے، ڈبل روٹی کے علاوہ یہاں پر دوسری چیزیں بھی دستیاب تھیں یہاں سے بچوں کو بھی ان کے من پسند کھلونے ملتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ ان کو ان کی پسند کے بسکٹ، ٹافیاں اور غبارے بھی ملتے تھے- نئی نویلی ماؤں کو ان کے بچوں کے لئے پیمپرز اور فیلڈرز بھی دستیاب ہو جاتے تھے۔-
یہ دکان اس کے گھر کا خرچہ چلاتی تھی, گھر کی دال، لون، تیل سب اسی طرح میسر ہوتا تھا۔ کسی کے پوچھنے پر کہ کیسی گزر رہی ہے ؟ وہ جواب دیتی
بس ڈبل روٹی چل رہی ہے اور یہی بہت ہے۔”-“
کھچڑی بالوں والی شادی بیگم کا اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن سب اس کو شادی بیگم ہی کہہ کر پکارتے تھے اور ایسا کہلوانے پر خود اس کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ شادی بیگم اصل میں ایک خاندانی لقب تھا جو اس خاندان کی ایسی لڑکی کو اختیار کرنا پڑتا تھا جو کہ ان میں سے کسی ایک ماں باپ کی آخری اولاد ہوتی تھی۔ اس خاندان میں ایک موروثی مرض شاید جنیٹک پرابلم چلا آرہا تھا اور وہ یہ تھا کہ ان میں سے ہر قبیلے کے لڑکے جب جوان ہو جاتے تھے تو وہ بظاہر بغیر کسی خاص وجہ کے مر جاتے تھے—کچھ بھی کرلیا جاتا ان کے مرنے کے عمل کو کسی بھی صورت میں روکا نہیں جاسکتا تھا وہ ایک ایک کرکے مرتے جاتے تھے۔
ایک بار ایک فقیر نے شرط رکھی تھی اور اس شرط کے عوض ان بچوں میں سے ایک لڑکی کو اپنی امنگوں کی قربانی دے کر باقی کے پریوار کو بچانا ہوتا تھا۔ تب سے اس بات پر سختی سے عمل ہورہا تھا۔
کنبے کی ہر آخری لڑکی چاہے اس کا نام گھر میں کچھ بھی رکھا گیا ہوتا اسے ” شادی بیگم “کا نام اختیار کرکے شادی کے بغیر گھر پر بیٹھنا پڑتا تھا۔
پہلے پہل تو ایسی لڑکیاں گھر کے ایک کونے میں پڑے ہپرے ہی اگلے جہان کو سدھار جاتی تھیں لیکن پھر ایسا ہوا کہ ان لڑکیوں میں سے ایک نے یعنی گلی کی شادی بیگم نےگھر میں ہی دکانداری کا کام شروع کر لیا- اس طرح اس کو ایک مصروفیت مل گئی تھی اور اس کی ایک معقول آمدنی کا ذریعہ بھی بن گیا تھا لیکن یہ کوئی آسان کام نہ تھا – مشکل کام تھا۔ ایسے میں اسے ہر طرح کے آدمی سےواسطہ پرتا تھا۔ ان میں دلیر، بزدل، غنڈے اور نیک دل سبھی شامل ہوتے تھے- شرارتی بچے اور گھنی عورتیں بھی اس کی گاہک ہوتی تھیں۔ مشٹنڈے اس پر فقرے بھی چست کرتے تھے- اسے چھیڑتے بھی تھے۔ اس کے دشمن بھی تھے- اس کے دوست بھی تھے۔ بہر حال جو کچھ بھی تھا وہ اپنا سر نیچے کیے اپنا کام کئے جاتی تھی– شام کو تھک کر جب وہ دکان سمیٹتی
تھی تو تب بھی اسے کمر سیدھی کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا- اس وقت وہ روٹی ہانڈی کرتی اور رات کا کھانا کھا کر جب اپنی چارپائی پر لیٹتی تو اپنے رب کا شکر ادا کرتی۔ تب وہ ماضی کو یاد کرتی۔ اس منحوس روایت کو کوستی کہ جس کی بنا پر اسے یہ سب جھیلنا پڑ رہا تھا- وہ اس فقیر کو گالیاں دیتی کہ جس نے اس کے لیے یہ عذاب خانہ کھولا تھا- نہ وہ ایسا اذن دیتا اور نہ ہی اس کی قسمت خراب ہوتی۔
وہ چارپائی پر پڑے پڑے سوچتی کہ اس سے صرف ایک ہاتھ کے فاصلے پر زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ دھڑکتی،ہمکتی اور لہکتی ہوئی موجود تھی- لیکن اسکے لئے حکم تھا کہ وہ مجرد زندگی گزارے اور ایک دن مر جائے۔
وہ اپنے خاندان والوں کو برا بھلا کہتی لیکن کچھ کر نہ پاتی- وہ صرف کڑھ سکتی تھی۔ کچھ کر نہیں سکتی تھی کہ اس کے لیے ایسا ہی کہا گیا تھا,- لکھا گیا تھا- اس کے تو خواب تک بنجر ہوتے تھے۔ لق و دق صحرا ہوتا تھا۔ وہاں خشک جھاڑیاں ہوتیں، پیاس ہوتی اور سراب ہوتا- اسے رات بھر کروٹیں بدلتے دیکھ کر شاید آسمان کا کلیجہ بھی پھٹتتا ہوگا لیکن زمینی خداؤں کے ساتھ آسمان پر بیٹھا خدا بھی اب اس سے مایوس ہی ہو چکا تھا کہ اس کی توجہ بھی حاصل کرنے سے قاصر ہو چکی تھی- کبھی کبھار بادل کا کوئی ٹکڑا بھیگے ہوئے ابر کی چادر، بارش سے لدی پھندی گیلی ہوا اس کے جلتے بدن کے توے سے ٹکرا کر خشک ہو کر اپنی موت آپ مرنے کے لیے آجاتی تھی- گلی میں جب کوئی بچہ ہنستا، کسی گھر کی کیاری میں لگا کوئی نیا پھول مسکراتا، کوئی بزرگ محبت بھری کھانسی کھانستا ، کوئی بڑھیا اپنے کسی لال کو میں صدقے وار جاوں کہتی، کوئی بہن اپنے بھائی کو راکھی باندھتی ، کوئی گبھرو اپنی بیوی کی کلائی کو کس کر پکڑ تے ہوئے جب کہتا،” اب چھڑا کے دکھاؤ” تو اس کو یہ سارے نظارے, ساری آوازیں خوفناک پٹاخے بن کر اس کے پاؤں کے قریب پھٹے ہوئے محسوس ہوتے تھے- اسے اپنا سراپا بھسم ہوتا ہوا لگتا- وہ رواج کی باندی تھی– رسم کی کنواری تھی- اس کے ارمانوں کی ارتھی ہر روز گلی میں سے نکلتی ہوئی شمشان گھاٹ جاتی تھی-پر کوئی دیکھتا بھی نہیں تھا آخر میں ایک کالا بھوت سا بندہ آکر اس کی چتا کو آگ دکھاتا اور وہ خاکستر ہونے لگتی۔
کیا اس کے لئے یہی سب کچھ تھا ؟ یہ کیوں تھا، کس نے ایسا سوچا تھا ؟- وہ انسان تھا یا شیطان۔ ابھی یہ طے ہونا باقی تھا- حقیقت تھی کہ اس کی زندگی بہرحال عذاب میں تھی ۔ایک گلا گھونٹنے والا گرد باد اس کی ذات کے گرداگرد رقص کرتا تھا- پابندی کا گولا اس سے ڈرا تاھمکاتا تھا۔ وہ بے بس گٹھری سی بنی ادھر ادھرلڑھکتی تھی۔
یہ سارا عمل, ایک منفی عمل کئی پشتون سے جاری و ساری تھا- اس گلی کی آج کل کی شادی بیگم پتہ نہیں کون سی ویں شادی بیگم تھی- خودا سے بھی معلوم نہ تھا جب پوچھا جاتاتو جواب آتا کہ نہیں جانتی کہ میرا کون سا نمبر ہے- شادی بیگم خاصی بڑی عمر کی ہو چلی تھی بال سفید ہونے لگے تھے لیکن اس کا جسمابھی خاصا مضبوط، صحت مند اور خوبصورت تھا– کئی منچلے اس دوران اس سے راہ و رسم بڑھانے کی آس میں ادھ موئے ہو رہے تھے اور کئی ایک مایوس ہوکر شادی کی سولی پر بھی چڑھ چکے تھے۔
وہ ایسی خبروں اور وقوعوں میں کوئی خاس دلچسپی نہیں لیتی تھی- وہ دوسروں کو یہ احساس دلاتی تھی کہ اس کے آس پاس کچھ بھی ہو جائے اس پر ان باتوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ زندگی کی یہ ڈگر اسے پسند نہ ہوتے ہوئے بھی پسند تھیکہ اس کا مقدر اس کو ہی ٹھہرایا گیا تھا- تبھی وہ بندہ اچانک ایک شام کو اس کے لیے چاند بن کر چمکا- وہ عجیب آدمی تھا- وہ اسکے پاس آیا اور چائے کی پتی وغیرہ جیسی کوئی چیز خریدنے کے بجائے اپنے کاندھوں پر رکھی لوئی کو بیچنے کا خواہشمند ہوا- شادی بیگم نے اسی کی طرف دلچسپ نگاہوں سے دیکھا- وہ لمبے قد کا ایک معنی خیز سوچ کی حامل آنکھوں والا بندہ تھا۔وہ اس کی طرف پوری طرح سے دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔
شادی بیگم بولی
” اگر تم میری طرف یا کم ازکم دکان کی طرف ہی پوری یکسوئی اور دھیان سے دیکھ پاتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ یہاں اس قسم کی چیزیں خریدی نہیں جاتیں۔”
لیکن نمیں کیا کروں- میرے پاس تو یہی اثاثہ ہے اور میں دو دن سے بھوکا ہوں۔ کام مل نہیں رہا
اور بھیک میں مانگ نہیں سکتا تو اس مجبوری کی حالت میں کیا تم اپنے کام کی نوعیت کو ذراکی ذرا بدل نہیں سکتیں ؟ “
شادی بیگم کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگی
“ایسا کرو تم یہ چادر نہ بیچو تم اسے بھیج دو گے تو پھر اتنی ٹھنڈ میں اپنے اوپر کیا اوڑھ کر چلو پھرو گے- میں ایسا کرتی ہوں کہ میں یہ چادر ابھی تمہارے کندھوں پر ہی رہنے دیتی ہوں اور تمھیں اسکے عوض تین وقت کی روٹی بھر رقم دے دیتی ہوں۔تم کل قسمت آزمائی کرنا-کام مل گیا تو رقم واپس کردینا- لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ تب تک یہ گرم چادر جوتم اوڑھے رہوگے میری ہی ملکیت کہلائے گی۔ بولو منظور ؟”
اس آدمی نے کچھ دیر تک سوچا پھر کہا- ” چلو یوں ہی سہی- یہ ایک منفرد سودا ہے لیکن برا نہیں۔ “
تو یو ں انکے درمیان یہ لین دین خوش اسلوبی سے طے پا گیا- اگلے دن اس شخص کو کام پھر نہ مل سکا- شام کو وہ آیا تو اس نے اپنی وہ گرم چادر شادی بیگم کی طرف بڑھائی۔ شادی بیگم یہ چادر لینے سے پھر انکاری ہوئی، بولی– تم ایسا کرو کہ کل مزید ایک اور دن کے لیے اپنی قسمت آزماو۔ کل بھی تمہیں کام نہ مل سکا تو میں نے چادر لے لوں گی اور میں جو بھی اس کی قیمت قرار پائے گی پیسے دے کر اپنی دی ہوئی رقم منہا کر لوں گی۔-
ایسا کہہ کر شادی بیگم نے اس کو اگلے دن کی تین وقت کی روٹی کے برابر پیسے ادا کر دیے- وہ شخص چلا گیا- اور اگلے کئی دن تک واپس نہ آیا۔ شادی بیگم نے سوچا ، چلوچھٹی ہوئی– اس فراڈیے سے جان چھوٹی لیکن تین چار دن گزرنے پر اس نے جو” چلو چھٹی ہوئی” وہ نہ کہہ سکی-اس کا من اسی میں اٹکا رہا- وہ خود کو اس کا خیال سے پرے ہٹ آتی رہی لیکن ناکام ہوتی رہی۔ وہ جتنا اسے بھلاتی تھی اس کا دل اتنا ہی اس میں،اس کی ذات میں، اس کی یاد میں بھڑکتا تھا- وہ یہ کیا کر رہی تھی- اس کا یہ فعل رسم کے منافی تھا- لیکن وہ کیا کرتی اس کا ذہن بغاوت پر آمادہ تھا- وہ اس بندے کی یادوں کی برسات کی رم جھم میں مسلسل بھیگتی جا رہی تھی۔
گیارھویں دن وہ آگیا- وہ آ کے اس کے قریب خاموش کھڑا ہوگیا- کچھ کمزور اور زرد سا لگتا تھا۔ مہیں سی آواز میں بولا:
“میرے ساتھ اچھا تو ہوا لیکن ساتھ ہی اتنا ہی برا بھی ہوگیا۔ کام تو مل گیا- یہ لکڑی چیرنے کا کام تھا– میرا اس کام میں جی بھی لگ گیا تھا کہ یہ میراجدی پشتی کام تھا- ایک لکڑ ہارے کو اس کام کے سوا اور کیا چاہیے تھا بھلا لیکن چوتھے دن مجھے بخار کی بدبختی نے آ لیا- آج اس نے پیچھا چھوڑا تو تمہاری عدالت میں حاضر ہوا ہوں- تم یہ اپنے دو دن کے پیسے لے لو- اب مجھے چادر بیچنے کی ضرورت نہیں رہی۔”
وہ سوچ رہی تھی ۔۔۔۔ “ہاں شکل سے ہی آج خودکفیل لگ رہے ہو تمہاری معاشی احتیاج تو پوری ہو گئی لیکن ادھر میرا تو سب کچھ ہی جاتا رہا۔”
وہ جانے لگا- شادی بیگم بولی
“تم ادھر ہی کیوں نہیں رک جاتے؟ یہ میرے والا کام کیوں نہیں سنبھال لیتے۔ تمہیں
مستقل روزگار مل جائے گا اور اس طرح تمہیں پکی ہوئی روٹی بھی ملنے لگے گی۔ “
اس بندے نے اپنی دو تین دنوں کی بڑھی ہوئی داڑھی میں اپنا ہاتھ گھسایا۔
” لیکن۔۔۔۔”ا
“لیکن کومارو گولی اور ادھر گدی پر بیٹھو- “شادی بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔
شادی بیگم اندر اپنے گھر کی طرف مڑتے ہوئےبولی، ” آج تمہیں اپنا ہاتھ کا پکا ہوا پالک گوشت کھلا دوں گی تو اپنی انگلیاں چاٹتے رہ جاو گے۔ “
وہ آدمی خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا ۔ گہری شام کو دکان سمیٹ کر جب وہ شخڈ اندر داخل ہوا تو شادی بیگم نے کہا
” ہاتھ منہ دھو لو۔ کھانا تیار ہے ۔”
تھوڑی دیر بعد جب وہ کھانا کھا رہا تھا تو اسے احساس ہوا کہ کھانا واقعی بہت مزے دار تھا- لوئی والا اپنے قریب بیٹھی شادی بیگم کو تعریفی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مسکرانے لگا۔
Read more from Mahmood Ahmad Qazi
Read more Urdu Stories