پنکھڑی ۔۔۔ فیودر سلوگب
پنکھڑی
( فیودور سلوگب )
(ترجمہ: سعادت حسن منٹو )
شہر کے مضافات میں ایک روز علی الصبح ایک سنسان سڑک پر ایک خاتون اوراس کا چار سالہ لڑکا جارہے تھے ۔ لڑکا جو گلاب کے مانند تھا بہت خوش خوش تھا۔ خاتون نہایت عمدہ لباس میں ملبوس تھی۔ مسرت کی وجہ سے اس کے ہونٹ متبسم تھے اور وہ اپنے لڑکے کو بہت خوشی سے دیکھ رہی تھی۔ لڑکا ایک بڑے سے زردرنگ کی پنکھڑی کو گھما رہا تھا۔ وہ اس کے پیچھے بڑی عجیب طفلانہ حرکات کرتا۔ خوشی سے ہنستا۔ اپنے پیر کو زمین پر مارتا۔ وہ چھڑی کو ہوا میں گھماتا اور اپنے ننگے گھٹنوں کی نمائش کرتا بھاگ رہا تھا۔
وہ کس قدر مسرور تھا! اس سے تھوڑا عرصہ قبل اس کے پاس پنکھڑی نہ تھی اور اب وہ اس زرد رنگ کی پنکھڑی کا نہ صرف مالک ہے بلکہ اس کے ساتھ بڑے انہماک سے کھیل رہا ہے!
اب ہر ایک چیز پر از مسرت تھی!
اس سے تھوڑا عرصہ پیشتر لڑکے کی نگاہوں میں کسی چیز کی وقعت نہ تھی مگر اب اسے ہر ایک چیز نئی معلوم ہوتی تھی…. درخشاں سورج، شہر کی گہما گہمی اور صبح کی روشنی سے منور بازار۔ لڑکے کے لئے اب سب چیزیں جدت، مسرت اور پاکیزگی کا پہلو لیےہوئے تھیں۔
ہاں سب کچھ پاکیز ہ ہے۔ بچے تصویر کا غیر پاکیزہ اور تاریک پہلو اس وقت نہیں دیکھتے جب تک ان کے بڑے اس کی وضاحت نہ کریں۔
چوک میں ایک کھردردے ہاتھوں والا آدمی پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ یہ جنگلے کے ایک طرف ہوگیا کہ بچہ اور خاتون گزر جائیں۔ بوڑھے نے اپنی دھندلی نگاہوں سے بچے کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ اس کے گنجے سر میں مبہم خیالات رینگنےلگے۔
‘‘کوئی صاحبزادہ ہے۔’’ اس نے خیال کیا۔ ‘‘اچھا خوبصورت بچہ ہے۔ یہ کس قدر مسرور ہے۔بچہ…..مگر خیال رہے یہ کسی بڑے آدمی کا لڑکا ہے!’’
ایک چیز وہ اچھی طرح نہ سمجھ سکا، جواس کے نزدیک بہت عجیب تھی۔ بچہ…. مگر بچوں کو تو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا ہے۔ تھپکیاں انہیں خراب کردیتی ہیں۔ نرمی ان کو ہمیشہ بدچلن بنادیتیہے۔
اس کی ماں اس کو بالکل دبا نہ رہی تھیں وہ اس کو ڈرانے یا دھمکانے کے لیے بالکل چیخ نہ رہی تھی اس کی ماں کس قدر اچھے کپڑوں میں ملبوس اور کس قدر خوبصورت تھی۔ اسے اور کس چیز کی خواہش ہو سکتی تھی؟ بظاہر وہ نہایت آرام و سکون میں تھی۔
بوڑھے نے اپنا بچپن کتوں کی سی زندگی بسر کرکے گزارا تھا۔ اب بھی اس کی زندگی کوئی خاص اچھی نہ تھی۔ حالانکہ وہ بھوک اور مار پیٹ سے ایک حد تک بچا ہوا تھا۔ وہ گزشتہ ایام سردی، زدوکوب اور فاقوں سے معمور تھے۔اسے امراء کے بچوں ایسی تفریحیں، پنکھڑیاں اور کھولنے نصیب نہ ہوئے۔ اس طرح اس کی تمام زندگی غربت میں گزری تھی۔ اس کے گزشتہ عہد زندگی میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہ تھا جو یاد کیے جانے کے قابل ہو۔
اپنے پوپلے اور بغیر دانتوں کے منہ پر مسکراہٹ لاتے ہوئے اس نے بچے کی طرف دیکھا اور رشک محسوس کیا۔ اس نے خیال کیا۔’’کیا بیہودہ کھیل ہے‘‘….. حسد کے اس احساس نے اسے ماندہ کردیا۔ وہ کارخانے میں اپنے کام پر گیا۔ جہاں اس نے بچپن سے لے کر اس عمر تک اپنی زندگی گزاری تھی۔ سارا دن وہ اس بچے کے متعلق سوچتا رہا۔
خیالات اس کے دماغ میں خود بخود چلے آرے تھے۔ بچے کے ہنسنے، بھاگنے اور پنکھڑی کا تعاقب کرنے کا تصور بہت آسان تھا…..اس کی ٹانگیں کس قدر گوشت سے بھری ہوئی تھیں اور گھٹنے کتنےسپیدتھے!
مشینوں کی گڑگڑاہٹ میں وہ سارا دن اس بچے اور اس کی پنکھڑی کے متعلق سوچتا رہا۔ رات کے وقت بھی وہ اس بچے کو خواب میں دیکھتا رہا۔
دوسرے روز وہی خواب پھراس کے دماغ پر قابض ہوگئے۔ مشینیں بھی ایک شور سے چل رہی تھیں چونکہ کام خود بخود ہورہا تھا اس لیے توجہ کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ بوڑھے کے ہاتھ اپنے روزانہ کے کام میں مشغول تھے لیکن اس کا پوپلا منہ جاذب توجہ خوابوں پر مسکرا رہا تھا۔ کارخانے کی فضا گردو غبار سے دھندلی ہوگئی۔ چھت کے قریب مشینوں کے پٹے پھسل کر شور پیدا کرتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ دور کونوں میں ایک شور آفریں تاریکی پھیلیہوئی تھی۔
لوگ بھوتوں کی طرح ادھر ادھر چل پھر رہے تھے۔ انسان آوازیں مشینوں کے گونجتے ہوئے شور میں غرق ہو جاتی تھیں۔
بوڑھا ایسا محسوس کررہا تھا کہ وہ بچہ ہے اور اس کی ماں ایک امیر خاتون ہے اور وہ چھڑی ہاتھ میں پکڑے پنکھڑی کو گھما رہا ہے۔ وہ سپید لباس پہنے ہوئے تھا اس کی ٹانگیں موٹی تھیں اور گھٹنے ننگے تھے۔
دن گزرتے گئے مگر یہ خواب اور کارخانے کا کام ویسے کا ویسا ہی رہا۔
ایک روز شام کے وقت گھر واپس آتے ہوئے بوڑھے نے کسی پرانے پیپے سے اتری ہوئی پہیہ نما پنکھڑی کو سڑک پر پڑا ہوا دیکھا۔ یہ بہت بھدی اور زنگ آلود تھی مگر بوڑھے کا جسم فرط مسرت سے کانپنے لگا اور آنسو اس کی دھندلی آنکھوں میں مچلنے لگے۔ اس نے اپنا اطمینان کرنے کے لیے چاروں طرف دیکھا۔ جھکا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں اس آہنی پنکھڑی کو اٹھا لیا۔ اور اسے ایک شرمائے ہوئے تبسم کے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔
بوڑھے کو پنکھڑی اٹھاتے وقت کسی نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا۔ مگر کسی کو کیا پڑی تھی کہ بوڑھے سے استفسار کرتا؟ ایک چتھڑے لٹکائے ہوئے بوڑھے کا کسی فضول اور ناکارہ پنکھڑی کو اٹھانا جو کسی کے کام کی نہ ہو ایسا واقعہ نہ تھا کہ لوگ اس کی طرفمتوجہ ہوں!
مگر بوڑھا اس کو چھپا کر اپنے گھر لے گیا۔ گو اسے پکڑے جانے کا خوف دامن گیر تھا مگر پھر بھی اس کے لبوں پر تبسم کھیل رہا تھا اور وہ اس کو اپنے گھر کس غرض کے لیے لے جارہا تھا، یہ بوڑھے کو خود معلوم نہ تھا۔
دیکھنا اور ہاتھوں سے چھونا اس خواب سے زیادہ حقیقت رکھتا ہے جو فیکٹری کی گڑگڑاہٹ سے بھی زیادہ مدھم اور وہاں کی شور آفریں تاریکی سے زیادہ ہیبت ناک تھا۔
کئی دنوں تک لوہے کی پنکھڑی بوڑھے کے بستر میں پڑی رہی۔کبھی کبھی وہ اسے بستر میں سے نکالتا اور اس کو دیکھتا رہتا۔ یہ بھدی چیز اسے بڑی تسکین بخشتی تھی۔ اس طرح وہ خواب جو ہر وقت اس کے دماغ پر مسلط رہتا، زیادہ حقیقت نما ہو جاتا تھا۔
ایک روز شام کے وقت جب پرندے اپنے اپنے آشیانوں میں غیر معمولی خوشی سے چہک رہے تھے۔ بوڑھا اٹھا اور اس پنکھڑی کو لے کر باہر ٹہلنے نکلا۔
وہ درختوں کے جھنڈ میں سے جنگل کو کھانستے ہوئے طے کررہا تھا۔ سنجیدہ صورتحال اور سیاہ چھال والے درختوں کی خاموشی اس کے لئے بالکل ناقابل فہم تھی۔ جنگل کی خوشبویں کچھ عجیب سی تھیں۔ زمین پررینگتے ہوئے کیڑے مکوڑے اسے بہت عجیب و غریب معلوم ہورہے تھے۔ گھاس پر پڑے ہوئے پانی کے قطرے اسے ایسے معلوم ہوتے تھے، گویا وہ پریوں کی د استانوں سے متعلق ہیں۔ فضا میں نہ کارخانے کا شور تھا اور نہ مشینوں کی گڑگڑاہٹ بلکہ درختوں کے پیچھے ایک نہایت عجیب و غریب اور لطیف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ بوڑھے کی سال خوردہ ٹانگیں پتوں کے دبیز قالین پر چل رہی تھیں اور زمین میں گڑی ہوئی پرانی جڑوں سے ٹھوکریں کھا رہی تھیں۔ اس نے ایک خشک ٹہنی اٹھائی اور اسے پنکھڑی میں پھنسا لیا۔
ایک پرسکون اور منور مرغزار اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ اس کی تازہ کٹی ہوئی گھاس کی پتیوں پر شبنم نے رنگارنگ کے بے شمار نگینے جڑےہوئےتھے۔
دفعتاً بوڑھے نے ٹہنی سے پنکھڑی کو گھمایا اور اس کے پیچھے دوڑنا شروع کردیا۔ پنکھڑی مرغزار کی سبز زمین پر بڑی آہستگی سے گھوم رہا تھا۔ خوشی سے بوڑھا بے اختیار مسکرا رہا تھا۔ وہ اس بچے کی طرح اپنی پنکھڑی کے تعاقب میں مصروف تھا۔ پھر اس نے اپنی ٹانگیں پھیلائیں پنکھڑی کو روکا اور چھڑی کو اس بچے کی طرح اوپر اٹھایا۔
اب اس نے محسوس کیا کہ وہ کم سن بچہ ہے۔ مسرور، نہایت مسرور! اور یہ کہ اس کی ماں اس کی طرف پر اشتیاق نظروں سے دیکھ کر مسکراتی ہوئی آرہی ہے۔ ایک بچے کی طرح اس نے پہلے پہل تاریک جنگل میں نرم اور گیلی گھاس پر دوڑتے ہوئے سردی محسوس کی۔
اس کے جھریاں والے چہرے پر داڑھی کے بال ہلے اور پوپلے منہ سے قہقہے کھانسی کے ساتھ مل کر بلند ہوئے۔
اب علی الصبح جنگل میں جا کر پنکھڑی سے کھیلنا بوڑھے کا دستور ہوگیا۔ اس کھیل میں وہ اپنی واحد مسرت پاتا تھا۔
بعض اوقات اسے اندیشہ ہوتا کہ شاید کوئی راہ گزر اس کو دیکھ لے گا اور اس کی احمقانہ حرکت پر ہنسے گا۔ اس خیال کے آتے ہی وہ شرم کا ناقابل برداشت احساس خود پر غالب پاتا۔ یہ احساس شرم اس کے لئے خوف کے مانند تھا۔ اس کی ٹانگیں کمزور اور بے حس سی ہو کرلڑکھڑانے لگیں۔وہ بڑی احتیاط سے اپنا اطمینان کرنے کے لئے چاروں طرف دیکھتا کہ آیا کوئی اس کو دیکھ تو نہیں رہا۔ لیکن کوئی شخص بھی اس کو نہ دیکھ رہا ہوتا اور نہ کوئی اس کے قہقہے سن رہا ہوتا….. وہ جی بھر کر کھیل چکنے کے بعد اپنے گھر کی راہ لیتا۔ واپسی پر اس کے ہونٹ متبسم ہوتے۔
کافی عرصہ گزر گیا۔ بوڑھے کی حرکات کو کسی شخص نے بھی نہ دیکھا۔ چنانچہ کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا۔ وہ بڑے آرام و سکون سے اپنا کھیل کھیلتا رہا۔
ایک صبح جب کہ بہت اوس گری ہوئی تھی۔ بوڑھے کو سردی لگی اور مر گیا۔ کارخانے کے ہسپتال میں اجنبیوں کے درمیان مرتے وقت اس کے لبوں پر ایک پرسکون تبسم کھیل رہا تھا۔
مفلسی کی وجہ سے محرومیوں سے بھری ہوئی زندگی کے اختتام سے پہلے، زندگی بھر کی ایک خواہش کی تکمیل نے اسے بہت خوشی اور تسکین عطا کردی تھی۔ اب اس خیال سے تسکین حاصل ہوگئی تھی کہ وہ بھی بچہ رہ کر اپنی پیاری ماں کے ہمراہ تازہ گھاس پر بڑی مسرت سے کھیل چکا ہے ۔