میں درد کو فوکس نہیں کرتا ۔۔۔ راشد جاوید احمد
نظم
راشد جاوید احمد
میں درد کو فوکس نہیں کرتا
خاص طور پر
جب وہ حد سے گزرنے لگے
میں آییئنے میں دیکھتے ہوئے سیٹی بجاتا ہوں
اور سوچتا ہوں
اسکی آنکھیں کتنی گہری ہیں
اب اگر ان میں کوئی ڈوبا
تو محبت میں گرفتار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا
درد جب حد سے گزنے لگتا ہے
تو میں دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہوں
اور کوئی اچھا سا گیت گنگناتا ہوں
یا پھر کاغذ قلم لے کر افسانہ لکھتا ہوں
پھر سوچتا ہوں درد کی اس تحریر سے
دنیا بھول بھلیوں میں کھو جائے گی
درد جب حد سے گزنے لگتا ہے
تو میں اس درد کو
رنگوں میں منتقل کر کے
فوٹو شاپ کی مدد سے
تجریدی آرٹ کا شاہکار تخلیق کرتا ہوں
جسمیں درد کا جامنی رنگ صاف دکھائی دیتا ہے
درد کا جامنی رنگ کینوس پر بہت بھلا دکھائی دیتا ہے
تم اپنی گہری، کالی آنکھوں پر، ہنسی پر، کومل چہرے پر
افسانے اور گیت اور رنگ فوکس کرنا
لیکن
کینوس پر بکھرے جامنی رنگ پر فوکس مت کرنا
ورنہ یہ رنگ
تمہاری آنکھوں کے گرد پھیل جائے گا