غزل ۔۔۔ سبط علی صبا
غزل
سبط علی صبا
دلوں میں دوریاں اب تک پرانی تلخیوں کی ہیں
مرے پاوں میں زنجیریں مری مجبوریوں کی ہیں
کسی پتھر کے تکیئے ہی پہ رکھ کر سر کو سو جاوں
لہو کی ڈوریاں آنکھوں میں شب بیداریوں کی ہیں
کہیں چہروں کی رعنائی کو فاقے چاٹ جاتے ہیں
کہیں فرمائشیں گھر میں کھنکتی چوڑیوں کی ہیں
بناوں کون سی تصویر کاغذ پر، کہ آنکھوں میں
ابھی تک صورتیں رقصاں مرے ہم جولیوں کی ہیں
کمر خم کھا گئی جن سے،حریصان جہاں دیکھو
لکیریں پشت پر قائم ابھی اُن بوریوں کی ہیں
صبا اُن انگلیوں سے پوچھ لذت سوئی چبھنے کی
خریداروں میں تعریفیں کشیدہ کاریوں کی ہیں
Facebook Comments Box