غزل ۔۔۔ شہناز پروین سحر

غزل

 شہناز پروین سحر

ہوا میں ریت اُڑی رقصِ آب تھا ہی نہیں
نظر کا وہم تھا دریا سراب تھا ہی نہیں

وہ دیکھتا تو تمازت سے جاں پگھلتی تھی
نظر میں دھوپ تھی اور آفتاب تھا ہی نہیں

وہ میرے سامنے لہروں میں ہو گیا تحلیل
میں ڈوبتی گئی وہ زیر ِ آب تھا ہی نہیں

سفید موتیئے کے پھول ، رات کی رانی
جو دل میں کھلنا تھا تازہ گلاب تھا ہی نہیں

ذرا سے ہجر میں آنکھیں سلگنے لگتی تھیں
جدا ہو ئے تو کوئی اضطراب تھا ہی نہیں

اٹھائے ہاتھ تو ساری دعا ئیں بھول گئیں
کوئی بھی حرف ِ دعا مستجاب تھا ہی نہیں

وہ میرا سایہ مری عمر ِ رائیگاں کا رفیق
پلٹ کے دیکھا تو خانہ خراب تھا ہی نہیں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

May 2024
M T W T F S S
 12345
6789101112
13141516171819
20212223242526
2728293031