جہاز کی کھڑکی سے نظارہ ۔۔۔ منزہ احتشام گوندل
جہاز کی کھڑکی سے نظارہ
(منزہ احتشام گوندل)
وہ انکشاف کا لمحہ تھا جب اسے محسوس ہوا کہ علینا بے ذائقہ،بے رنگ اور بے بو ہوچکی ہے۔ وہ اس کی حسی سطحوں سے گِر گئی ہے۔ اور اب
گھر میں اس کی موجودگی، گھر کی دیوار پہ مدت سے آویزاں تقویموں، چوکٹھوں، تصویروں اور دیوار سے لگے صوفے جتنی رہ گئی ہے جس
کا فوم باہر نکل آیا ہے اور جس پہ اب پالتو بلی کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھتا۔ یہ آدمی جس کی کنپٹیوں میں سفید بال آگئے ہیں اور پیٹ ڈھیلا ہو
کے آگے کو نکل آیا ہے آخر سوچتا کیا ہے؟ کیا اپنے بدن میں آچکی تبدیلیوں سے واقف نہیں۔ واقف نہیں تبھی ایسا ہے۔ یہ آدمی ان لوگوں
میں سے ہے جو تضادات کے اندر جیتے ہیں، سب اچھا اپنے لیے بچا کے رکھتے ہیں اور سب بُرا دوستوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ اور پھر دوستوں
سے یہ خواہش کرتے ہیں کہ وہ اپنے اچھے کرم اس کو لوٹائیں۔
کتنی کامیاب چال ہے۔ اور یہ کامیاب چال اِس نے اس چالیس سالہ نوکر شاہی سے سیکھی ہے جس سے ابھی حال ہی میں اس نے ریٹائرمنٹ لی ہے۔ یہ اخبار نہیں پڑھنا چاہتا کہ حالات اِس کی مرضی کے مطابق نہیں رہے، نہ ہی ٹی وی دیکھتا ہے کہ وہاں بھی ایسے ہی ہنگامے ہیں۔ شاید انسانی دماغ پہ براہ راست ضرب لگانے والے صدموں سے بچنے کا یہ طریقہ بھی اِس نے اپنی نوکر شاہی کی تربیت سے لیا ہے۔
میں اِن دونوں میاں بیوی کے جدید طرز کے بنگلے کے سامنے رہتا ہوں۔ میرا گھر سادہ ہے اور یہ سادگی مجھ پہ بھی ایک انکشافی لمحے میں وارد ہوئی تھی جب میں نے زمین کو جہاز کی کھڑکی سے دیکھنا شروع کیا تھا، یہ بالکل اچانک تھا، ایسے کام اچانک ہی ہوتے ہیں۔ آٹھ گھنٹے کی پرواز میں مجھے لگا کہ زمیں کو بلندی سے دیکھنے کا زاویہ کس قدر الگ ہے۔سبھی گندگیاں،غلاظتیں،ابلتے گٹر اور کھولتے دماغ بلندی سے غائب ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ ایک رومان پرور سبزہ لے لیتا ہے۔ سبزہ جس کی کیاریاں بٹی ہوئی ہیں، اور ان بٹی ہوئی کیاریوں کو جو لکیریں الگ الگ کرتی ہیں ان لکیروں میں بھی ایک رومان ہے۔ جہاز کی کھڑکی سے نیچے سب کچھ حسین ہے، کیا فطرت اس طرح سے اپنا ورود کرتی ہے۔
اور جب میں اس مشاہداتی سفر سے پھر زمین پہ اُترا تو میرے اندر ایسی ہی بے چینی اور اضطراب تھا جیسا آدم نے زمیں پہ پہلا قدم رکھتے وقت محسوس کیا ہوگا، شاید اس کی وجہ وہ لڑکی بھی ہو جسے میں اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ وہ لڑکی مجھے بے حد چاہتی ہے اور میں جانتا تھا کہ میں اس کی چاہت کے لیے اُداس تھا۔
جہاز کی کھڑکی سے زمین کو دیکھنے کے بعد زمین پر پہلا قدم رکھتے ہی مجھ پر جو انکشاف ہوا وہ یہی تھا کہ جذبہ وجود سے نکل کر کیسے اپنا رنگ دکھاتا اور روح کے نہاں خانوں کو جکڑتا ہے اور بلندی سے زمین کیسے اپنی گندگیاں اور ہولناکیاں چھپا کر اپنا حسن اُچھالتی ہے، یہ بچوں جیسی سوچ تھی جسے میں اپنی عمر کے بیالیسویں برس میں سوچ رہا تھا کہ اچھا اس لیے اللہ کو زمین کے دکھ نظر نہیں آتے کہ وہ بہت بلندی پہ بیٹھا ہے اور بلندی سے تو کچھ بھی غلط دکھائی نہیں دیتا۔
ہمیں خوف کی ریہرسل کرائی گئی ہے مگر صدمے سے نکلنے کا طریقہ نہیں بتایا گیا۔ مگر میں پھر بھی اس سنڈروم سے بچا ہوا ہوں جو اس ڈھلتی عمر کے ریٹائرڈ آدمی کو لاحق ہے۔
علینا چائے کا کپ لے کے صحن میں آگئی۔ وہ اب اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتی اس کی موجودگی سے اکثر بے نیاز بنی رہتی ہے۔ علینا کے بدن اور ریٹائرڈ آدمی کے حواس کے درمیان کوئی رابطہ نہیں۔ اس کا خیال ہے کہ علینا بے ذائقہ ہوگئی ہے، جبکہ علینا جانتی ہے کہ اس سفید کنپٹیوں والے آدمی کے ہاتھوں کی باریک شریانوں میں اب طلب کی لہر نہیں دوڑتی۔
دراصل یہ سب چاہتے کیا ہیں۔ کیا علینا کی افادیت بس یہیں تک تھی، اور کیا ریٹائرڈ آدمی اپنی فعالیت کھو چکا ہے۔ یہ سب ایک خسارے اور ایک عدم وابستگی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ اس دائرے سے نکل آئے ہیں جس دائرے میں علینا نے اپنے شوہر کی بااختیار ملازمت کے سماجی اور معاشی ثمرات سے بھرپور حظ اٹھایا اور جہاں علینا کے شوہر نے اونچے طبقے کی ذہنی تربیت یافتہ بیوی کے فوائد سے استفادہ کیا۔
اب یہ دونوں اپنے متنوع تجربات کے کچرے سے وہی رس کشیدنا چاہتے ہیں، میں اس ناسٹیلجیا کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ جسمانی طور پہ آسودہ یہ وہ نفسیاتی ناآسودگی کا شکار طبقہ ہے عام لوگ جن کے جیسا بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔
میں اپنے گھر کے ٹیرس کے فولادی جنگلے پہ کہنیاں ٹکائے بہت آسودگی سے ان کو دیکھتا ہوں۔ وہ میری طرف دیکھ کے ہاتھ ہلا دیتے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے ہمارا رابطہ بصری سطح سے نکل کر سمعی سطح پہ جا پہنچا ہے۔ میں اکثر ان کے ساتھ جا کے بیٹھ جاتا ہوں۔ ہم باتیں بہت کم کرتے ہیں۔ ان کے پاس اپنی شاندار زندگی کے احوال کے علاوہ کچھ بھی نہیں، اور ڈھلتی عمر کی عورت ابھی بھی اپنے بدن سے باہر نہیں آئی، وہ کبھی ان دائروں سے باہر نکل سکتے ہی نہیں یہ بات طے شدہ ہے۔
میں بھی چپ رہتا ہوں، میرا اورا( aura) ایسا ہے کہ لوگ مجھ سے کبھی اُکتاتے نہیں، اور اب جب کہ زمین ہر لمحہ ایک نئے خلا میں دوڑ رہی ہے،ایسا خلا جس میں سوالات ہی سوالات ہیں تو میں یہ سوچنے لگا ہوں کہ اِس دور کے انسان کی اصل ضروریات کیا ہیں؟
کیا روٹی،کپڑے اور مکان کی تکون پھاندنے کے بعد ہم ایک نفسیاتی تشدد کے پھندے میں نہیں پھنس چکے ہیں؟ ہم نے محبت کو، اچھی قدروں کو،اخلاقیات کو پیچھے دھکیل کر اپنے آج کو اور سرمایے کو ترجیح دی ہے اور اب سرمایہ گلے میں پھنسی چھچھوندر بن گیا ہے۔ میں اِس بے کیف اور بے زارجوڑی کی معیت میں بھی بہت بامعنی اور بامقصد زندگی جی رہا ہوں… رکیے… میں بتاتا ہوں ….
جی ہاں یہ وہی لڑکی ہے جو مجھے چاہتی ہے، میری زندگی میں رنگ بھرنے کی وجہ ہے۔اس نے مجھ میں کیا دیکھا ہے؟ میری زمین سوالات کے خلا میں تیر رہی ہے۔ میرے پاس کاروبار نہ ہوتا تو پھر بھی مجھے ایسے ہی چاہتی؟ گھر نہ ہوتا پھر بھی میری ایسی ہی فکر کرتی؟
یہ سوال کتنے بے معنی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی ہمیشہ سے اس کی تلاش میں رہا ہوں۔ کیا جو عورت کوئی مطالبہ نہیں کرتی وہی مخلص ہوتی ہے؟
کسی کو محبت میں آسائش سے بھر پور زندگی دینا بھی ایک مہیج ہے جو زندگی کی رفتار کو بڑھاتی ہے۔ وہ لڑکی خوش نصیب ہے کہ اُس کے پُرآسائش زندگی کے خوابوں نے ٹوٹ کے اُسے محبت کا تحفہ عطا کیا ہے۔ میں دو ایسے شکست خوردہ لوگوں کے درمیان بیٹھ کے اُس کے بارے میں سوچ رہا ہوں جنہوں نے دوحیوانی جسموں کے اندر باہر اپنے اپنے مفادات اور دلچسپیوں سے محبت کی ہے اور اپنے ہی گھر میں رکھی ان متعدد چیزوں کی طرح بے کار ہوچکے ہیں جو کونوں کھدروں میں سالوں سے پڑی ہیں ۔اور وقت جن پہ سالوں اور برسوں کی تہہ چڑھاتا جارہا ہے۔
میں دیر تک محبت کی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ محبت سے محبت کرنا کسے کہتے ہیں یہ میں نے اس لڑکی سے سیکھا ہے۔ وہ اِس کیفیت کے اِدراک میں بہت آگے ہے۔ وہ چیزوں کو چھپاتی نہیں بلکہ ہر لمحے ان کا انکشاف کرتی جاتی ہے۔ شاید یہ اسی لیے ہے کہ وہ خالص ہے، جھوٹ تو مال بیچنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ جہاں تعلق کی نوعیت ہی عام فہم نہ ہو وہاں کیسا پردہ اور کیسا جھوٹ… جبکہ میں جانتا ہوں میں اس کے لہو کے خلیوں میں آمیز ہو گیا ہوں، جہاں ایسا معاملہ ہو وہاں ایسی زمینی باتوں کی منطق ہی کیا ہے۔
علینا اور اس کا شوہر میرے اچھے دوست بن گئے ہیں۔ بنگلے کے وسیع صحن میں اُگے جامن کے چھتنار درختوں کے نیچے ہم اکثر خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ ان دونوں کی خاموشی اس مایوسی کے بعد کی خاموشی ہے جو گفتگو کو کوئی منطقی انجام نہیں دے پاتی۔ جبکہ میرے پاس نئے زمانوں کی بشارت ہے۔
مجھے ابھی پینتالیس سال اور اس لڑکی کے ساتھ گزارنے ہیں… ہاں کم از کم … میرا اس کے ساتھ اتنے سال جینے کا وعدہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ عرصہ کتنا ہوسکتا ہے؟ اگر اُس سے پوچھوں تو کہے گی شمسی تقویم سے آگے نکل کے سوچو…
یہ نظامِ شمسی تو کچھ بھی نہیں محض ایک دو پھونکوں کی تو بات ہے… جہاز جو زمین سے کئی ہزار فٹ اوپر خلا میں بادلوں کے اوپر تیر رہا ہے۔ میری روح نے اس منظر کو ثبات دے دیا ہے۔ آج کے انسان کو تاریخ کے قصوں، ہولناک جنگوں کی داستانوں کی نہیں بلکہ ایک ایسےبیانیے کی ضرورت ہے جو محبت کے خمیر سے گندھا ہو۔ آج کے انسان کا دکھ جسمانی اور معاشی نہیں بلکہ اخلاقی اور نفسیاتی ہے۔
اُسے ایسے لفظوں کی ضرورت ہے جو اس کی دریدہ روح کی رفوگری کریں، نہ کہ ماضی میں گزر چکے واقعات کی ہولناکی کو بار بار دہرانے کی، پہلی جنگِ عظیم، دوسری جنگِ عظیم، ہیرو شیما، ناگا ساکی، ہولوکاسٹ،1947, 1965 ,1971 ,9/11 جیسے ہندسوں اور لفظوں کو لغت سے نکال کے جینے کی ضرورت ہے۔
میں جہاز کی کھڑکی سے نیچے دیکھتا ہوں جہاں سے فطرت اپنا سبز حُسن اُچھال رہی ہے۔