محبت مجھے مستعار ملی ۔۔۔ نود خاں
مُجھے مُحبت مستعار ملی
نود خاں
مُجھے مُحبت مستعار ملی
اور اُس کا دُم عُمرِ رفتہ کے
آتشیں قرضوں نے گھونٹ ڈالا
وہ کانچ کے چورے سے بنی تھی
روٹھ جاتی تھی
تو اُسے منانے کے لئے
بوسہ دینا پڑتا تھا
اور اُسے جہاں سے بھی چومتا
میرے لاشعور کے مُنہ سے خون رسنے لگتا
کوزہ گرِ زندگانی نے اُس کے وجود کو
ہر طرف سے نوکیلا کر دیا تھا
ہونٹ رسنے لگے
زبان چھلتی گئی
اک دن تاویلوں اور تدبیروں میں لپٹی
حقیقتِ حال کی قبا اُتار پھینکی
اور ہم جُدا ہوئے
یونہی ساتھ رہتے
اک دوسرے کو کاٹتے رہتے
لہو کے اشک
اک دوسرے کو رُلاتے رہتے
لیکن کُچھ سوال ہیں
جو میں چھوڑے جارہا ہوں
کُچھ عذاب ہیں
جو سنگ اپنے لئے جارہا ہوں
کچُھ وبال ہیں جن سے
اک دوسرے کو بچائے جارہا ہوں
آو ، دور رہیں
اور اک دوسرے کو
یاد رکھنے، چکھنے یا جھٹکنے کا
پھر سے کوئی موقع نہ دیں
اگر ہم مرتے ہوئے زندہ رہ سکتے ہیں
تو زندہ رہتے ہوئے
اک دوسرے کے لئے
مر کیوں نہیں سکتے؟