غزل ۔۔۔ رفیع رضا
غزل
رفیع رضا
دُعائیں پڑھتے ہُوئے اس بَدن سے نکلوں گا
پھر اس زمین کے بھُورے کفن سے نکلوں گا
اُتار پھینکوں گا خاکستری لبادے کو
مَیں ایک عُمر کی لمبی تھکن سے نکلوں گا
مُجھے نکلنا ہے آگے اور اس سے آگے بھی
زمیں کے بعد مَیں نیلے گگن سے نکلوں گا
نہ روک پائے مُجھے کوئی روکنے والا
ستارہ تھام کے اس بانکپن سے نکلوں گا
حروف کشف سے آگے کی بات لائیں گے
ضرور مَیں کسی شیریں دَہَن سے نکلوں گا
مُجھے اُتار لیا تُو نے اپنے شیشے میں
مَیں جان ہوں ترے شیشے کی، چَھن سے نکلوں گا
پھر اس کے بعد مَیں روشن رہوں کہ بجھ جاؤں
پر ایک بار تو پُوری اگن سے نکلوں گا
یہ بیکرانی مُجھے روکنے لگی ہے مگر
مَیں اس کے پار رضا اپنے فن سے نکلوں گا
Facebook Comments Box