افضل احسن رندھاوا: Author in Review
افضل احسن رندھاوا
تبصرہ کار: راشد جاوید احمد
افضل احسن رندھاوا ایک ہفتہ قبل انتقال کرگئے انکی عمر 80 برس تھی۔ افضل احسن رندھاوا نے ایک بھرپور ادبی و سیاسی زندگی گُزاری ہے۔
اُن کے نام کے بغیر پنجابی ادبی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔
انھوں نے بطور پنجابی شاعر، کہانی کار، ڈرامہ نگار، مترجم اور ناول نگار خوب نام کمایا اور اپنی زندگی میں 20 سے زائد کتابیں لکھیں۔
آپ نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 50ء کی دہائی میں اردو زبان میں کہانیاں لکھنے سے کیا۔
اُن کی یہ کہانیاں لاہور سے نکلنے والے رسالوں ’اقدام‘ اور ’قندیل‘ میں شائع ہوتی تھیں۔
اپنی پہلی اردو کہانی کا بعد میں پنجابی ترجمہ کیا جو ’رن، تلوار تے گھوڑا‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
اس کہانی کو آصف خان صاحب نے اپنے رسالے پنجابی ادب میں انڈیا اور پاکستان کے کہانی کاروں کے انتخاب ’اجوکی کہانی‘ میں بھی شائع کیا۔ 1958 سے آپ نے باقاعدہ طور پر پنجابی میں لکھنا شروع کر دیا۔
آپ نے 1967ء میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی ملازمت سے استعفیٰ دے کر وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور 1970ء میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، لائل پور کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 1972ء میں فیصل آباد سے بھاری اکثریت سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پاکستان کے پہلے متفقہ جمہوری آئین کی تشکیل میں سرگرم حصہ لیا۔
آپ کو پاکستان میں افرو ایشیا کے ادیبوں کی انجمن کا پہلا سیکرٹری جنرل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس تنظیم کے صدر فیض احمد فیض تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے
آپ کا پہلا ناول ’دیوا تے دریا‘ 1961ء میں شائع ہوا جس میں آپ نے قیام پاکستان سے قبل پنجاب اور اس کی قدروں کو اپنا موضوع بنایا۔
1977ء میں ضیا مارشل لاء کے وقت آپ پر سات سال کے لیے کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی۔
1981ء میں آپ کو فیصل آباد میں نظر بندی برداشت کرنا پڑی۔ اس کے علاوہ آپ کے ریڈیو اور ٹی وی پر بات چیت کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ آپ کا دوسرا ناول ’’دو آبہ‘‘ 1981 میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول میں آپ نے پنجاب میں خاندانی دشمنی کے آئندہ نسلوں پر بُرے اثرات اور قاتل و مقتول کے خاندانوں کی ذلت و رسوائی کو اپنا موضوع بناتے ہوئے آخر میں اسے سیاسی رخ دیا۔
مارشل لاء دور میں اس ناول کو شائع کرنے پر کوئی راضی نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے انہیں اس کے دیباچے میں لکھنا پڑا کہ اس ناول کے سارے کردار سِکھ ہیں۔
ناول کے آخر میں ہیرو نے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ یا تو وہ اپنے دوستوں (جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے) جو قانون کے باغی اور ڈاکو ہیں کے ساتھ جا کر مل جائے یا پھر سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنائے، تو وہ دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے۔
آپ کا تیسرا ناول ’سورج گرھن‘ 1986ء میں شائع ہوا جس کا بنیادی موضوع انسانی آزادی تھا۔
واضح رہے کہ مارشل لاء کے دور میں آپ کی کل آٹھ کتابیں شائع ہوئیں۔
آپ کا چوتھا ناول ’پندھ‘ 2001ء میں شائع ہوا۔
ادب میں زبان کے حوالے سے ان کا مؤقف تھا کہ سب سے اچھا اظہار آدمی کی مادری زبان میں ہوتا ہے اور اس کی سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ جتنی بھی مذہبی کتابیں اتری ہیں وہ لوگوں کی مادری زبانوں میں تھیں۔
آپ نے انگریزی سے پنجابی میں تراجم بھی کئے ہیں جن میں تین ناول ’ٹٹ بھج‘ (افریقی ناول 1986ء)، ’پہلوں دس دتی گئی موت‘ (ہسپانوی ناول، گیبرئیل گارسیا مارکیز 1992ء) اور ’بڈھا جو عشقیہ کہانیاں پڑھدا‘ (چلی ناول 1999ء ) شامل ہیں۔
‘ٹٹ بھج’ پہلا غیر ملکی ناول ہے جو پاکستان میں انگریزی سے پنجابی میں ترجمہ کیا گیا۔
شاعری میں پنجابی نظموں کی پانچ کتابیں ’شیشہ اک لشکارے دو (1965)، رُت دے چار سفر (1975)، پنجاب دی وار (1979)، مٹی دی مہک(1983) ‘ اور ’چھیواں دریا‘ (1997) شامل ہیں جبکہ آپ کی پنجابی غزلوں کی ایک کتاب ’پیالی وچ اسمان‘ (1983) میں شائع ہوئی۔
آپ نے پنجابی ادب کی خدمت کر کے اپنی زندگی میں کئی ایوارڈ اپنے نام کیے
آپ نے شاعری میں روایتی اور جدید دونوں طرح کے موضوعات پر لکھا ہے۔
شاعری پر بات کرتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے کہ ‘شاعری میں روایت کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ جو اچھی روایات ہیں ان کو چھوڑا نہیں جا سکتا، جدیدیت کے نام پر ان کو یک قلم مسترد نہیں کیا جا سکتا۔’
اُن کی ایک کافی کچھ یوں ہے۔
مان نیں ساہنوں
مان حیاتیے! مان نی ساہنوں
دن دھکے، راتیں جگراتے
اندر لانبو، باہر مواتے
دھر روح وچ اجاڑ دے کھاتے
ایہہ ہے تیرا دان نی ساہنوں
مان نی ساہنوں
مان حیاتیے، مان نی ساہنوں
میں دے بَھر بَھر ٹبّے ٹوئے
پدھرے کردے کردے موئے
واہن وگے، نہ رکڑ ہوئے
نیڑے ہو پچھان نی ساہنوں
مان نی ساہنوں
مان حیاتیے ، مان نی ساہنوں
اس کے علاوہ آپ کی ایک سو سے زائد افریقی نظموں کا ترجمہ ’کالا پینڈا‘ 1988ء اور اٹلی کی صحافی اوریانا فالاچی کی کتاب Interview with History کا ترجمہ ’تاریخ نال انٹرویو‘ 1986ء میں شائع ہوا۔
آپ نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی ڈرامے لکھے جو ’سپ شینہہ تے فقیر‘ کے نام سے 1997ء میں شائع ہوئے۔
1973ء میں شائع ہونے والی ‘رن گھوڑا تے تلوار’، 1989ء میں چھپنے والی ‘منا کوہ لہور’ اور 2010ء میں شائع ہونے والی ’الہی مہر‘ آپ کی کہانیوں کی کتابیں ہیں۔
۔ آپ کی کہانیوں کے زیادہ تر پس منظر اور کردار دیہی پنجاب سے ہیں۔
اپنی کہانیوں اور ناولوں کے پس منظر اور کرداروں کے حوالے سے وہ کہا کرتے تھے کہ ‘میری کہانیوں اور ناولوں کے کردار و واقعات پنجاب کی روزمرہ زندگی سے ہیں جو سانجھے پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں قیام پاکستان سے قبل کے پنجاب کو ہی پورا پنجاب مانتا ہوں۔’
آپ کو اپنی ادبی خدمات کی وجہ سے حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ برائے حسن کارکردگی، پنجابی ادب 1995-96ء بھی ملا۔
پاکستان، انڈیا، کینیڈا اور برطانیہ کی مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے بھی آپ کو 20 کے قریب ایوارڈز سے نوازا گیا۔
افضل احسن رندھاوا کی پنجابی زبان و ادب کے لیے اُن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔