ٹوٹتے رہتے ہیں کچھ خواب ستاروں جیسے ۔۔۔ شہناز پروین سحر
غزل شہناز پروین سحر ایک بلور سی مورت تھی سراپے میں سحر چھن سے ٹوٹی
غزل شہناز پروین سحر ایک بلور سی مورت تھی سراپے میں سحر چھن سے ٹوٹی
نویں ورھے دا پٹہ افضل احسن رندھاوا اَت ترہائی مٹی اتے ڈگن والی اوہ مینہ
تذبذب قائم نقوی سوچ کی گرہیں کھلیں تو رات کی اندھی مسافت جان پایئں ہم
خدا کہاں ہے ؟ صفیہ حیات خدا کہاں ہے ؟ بھوکے بچے نے کوڑے کے
چل چناں شگفتہ گمی لودھی چل چناں کل ورگی جے گل نہیں رہی اج ورگی
انجام پر کھڑا آدمی صفی سرحدی شام ڈھلے مریل سورج سے آنکھیں ملائے اجنبی شہر
نظم نازیہ نگارش دکانوں پر سجی رنگ برنگی آرزویئں سادہ لوح دلوں کی راہ ایسے
جتھے باری نہ بو ہا نہ پوڑھی امرتا پریتم وارنا ، 30 مئی 1983 اج
چور گلی غلام دستگیر ربانی اس و قت وہ جہاں وہ کھڑا تھا،شاہی قلعے کا
کنڈ پیچھے اکھاں فرزند علی روز تالوں زیادا اج طارق دا دھیان گھرول سی۔ کم