زندہ در گور ۔۔۔ قیصر نذیر خاور
زندہ درگور قیصر نذیر خاورؔ اُس کی آنکھ بین اورآہ و بکا سے کھل گئی
زندہ درگور قیصر نذیر خاورؔ اُس کی آنکھ بین اورآہ و بکا سے کھل گئی
خود فریبی کے فریب تنویر سجیل خود ساختہ بے بسی کی ایسی وبا پھیلی ہے
ایک تھی جولی مریم عرفان شہر میں سرکس لگ چکا تھا، رنگ برنگی کرسیاں پنڈال
اچھا بچہمُحمد جاوید انور ۔ اُسے بچپن ہی سے جو کچھ پڑھایا اور بتایا گیا
نہ مرنے والا انورسجاد وہ نیچے پان والے کی دکان پر ریڈیو پر پورے اعلانات
عرش منور ملیاں بانگاں مصباح نوید گندھے مٹھی بھر آٹے کو ہتھیلی پر جمایا۔ انگلیوں
شیریں مریم تسلیم کیانی ادھیڑ عمر فرہاد سُرمئ رنگ کا میلا کچیلا کُرتا شلوار پہنے
روح منڈی ممتاز حسین دنیا بدل رہی ہے۔ آنسو بہانے والے گانے کی آواز ٹوٹے
رقیب سے۔ نئیر مصطفیٰ ”ہر شہر کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے پیارے!“ سہیل نقوی
دَلّی سیمیں درانی وہ رات دیر گئے گھر آیا تو اس کی تھکن دیکھ کر