نظم ۔۔۔ عبیرہ احمد
نظم عبیرہ احمد بس دو اک رات اداسی کی کچھ لمبے دن، بھاری شامیں پھر
نظم عبیرہ احمد بس دو اک رات اداسی کی کچھ لمبے دن، بھاری شامیں پھر
نظم منتظر گولو میں قبلِ مسیح میں اس وقت پیدا ہوا تھا جس وقت پرومیتھیوس
کوہ سلیمان کی بستیاں عبد القیوم انسانوں سے ویران ہوچلے ہیں ہرطرف کچی کوٹھیوں کےنشان
نظم عذرا عباس ایک آواز گرتی ہے زمین پر پھر پُرسا دیتی ہیں عورتیں پُرسا
پھوڑا انجلاء ہمیش آسیب سے ڈرتے ہو آسیب تو اپنے آپ سے خوف زدہ ہے
امپاسیبل مشن” طیب پاک تمہارے جسم کے بہت سے جزیرے ابھی دریافت نہیں ہوئے آنکھیں
آدمی خود کو تلاش کرتا ہے نودان ناصر آدمی خود کو تلاش کرتا ہے صحرا
دوہے کبیر داس جاکو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی بال نہ بانکا کر سکے
غزل سبط علی صبا زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں شہر کی گلیوں میں
کھونٹی پر لٹکا ہوا بدن جاوید شاھین شام ہوتے ہی میں پسینے میں بھیگا ہوا