کترن ۔۔۔ ثمین بلوچ
کترن ثمین بلوچ کترن ماضی کی سلین زده دیواروں پر یادوں کا پیر پھسلا تو
کترن ثمین بلوچ کترن ماضی کی سلین زده دیواروں پر یادوں کا پیر پھسلا تو
غزل غلام محمد قاصر شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے گِھستے گِھستے
آسمان سے گرنے کے بعد سرمد سروش یہی اک کمی رہ گئی تھی سو یہ
قطار ختم نہیں ہوتی عاصم جی حسین قطار ختم نہیں ہوتی آوازیں ایک دوسرے کی
نیلا ملبہ ثمین بلوچ میں ایک بار اس کی محبت کے ساون میں نہائی تھی
غزل احمد مشتاق کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے کہ تھرتھری سی عجب
پیٹ میں جلتا ایندھن انجلا ء ہمیش بھوک کے عدم توازن نظام کی وجہ سے
لا نظم ۔۔۔ مال روڈ سے آگے نجم الحسنین حیدر 1۔۔۔۔ بے خبری نے دروازے
باب ِ خمیازہ عبیرہ احمد مرا چوبی محل تو ٹوٹ جاتا زمیں میں دھنس چکی
سورج کے فلیٹ سے سلمان حیدر سورج نے تمہیں دیکھنے کے لیے سمندر کے اس