اچھے لوگوں کے نقصانات ۔۔۔ برٹرینڈ رسل

اچھے لوگوں کے نقصانات

برٹرینڈرسل

سو سال پہلے جیر یمی بینتھم (Jeremy Bentham) نامی ایک فلسفی تھا جو بہت ہی عیار اور فاسق مشہور تھا۔ جب پہلی مرتبہ میں نے اس کے بارے میں سنا تو میں لڑکا تھا اور وہ دن مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ پادری سڈ نی اسمتھ نے ایک بیان دیا تھا کہ بینتھم کا خیال تھا کہ لوگوں کو اپنی دادیوں کا شور بہ بنا کر پینا چاہئے ۔ مجھے یہ بات ذائقے اور اخلاقی دونوں اعتبار سے بری لگی تھی۔ لہذا میں نے بینتھم کے بارے میں بہت ہی بری رائے قائم کرلی۔ کافی عرصے کے بعد پتہ چلا کہ پادری سڈنی کا یہ بیان اس جھوٹ کا حصہ تھا جو عزت دار لوگ نیکی کی خاطر بولنے کے عادی ہوتے ہیں۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ ان کا اصل قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اچھے آدمی کی تعریف یہ کرتے تھے کہ اچھا آدمی وہ ہے جو اچھا کام کرتا ہے۔ جیسا کہ ایک صحیح الدماغ قاری فوراً سمجھ جائے گا یہ تعریف تمام سچی اخلاقیات کے لئے تخریبی ہے ، سِم قاتل ہے۔ کانٹ کا رویہ کتنا عالی مرتبت ہے جو یہ کہتا ہے کہ وہ نیکی نیکی نہیں ہوتی جو کسی سے ہمدردی کے طور پر کی جائے ۔ نیکی صرف اس وقت نیکی ہوتی ہے جب وہ اخلاقی قوانین کی پاسداری کے لئے کی جائے جو ہو سکتا ہے کہ غیر ہمدردانہ عمل کی تلقین کریں۔ ہمیں پتہ ہے کہ نیکی کا بدلہ خود نیکی کا عمل ہے اور اس لحاظ سے نیکی نہ کرنے کی سزا خود نیکی نہ کرنا ہونا چاہئے ۔ لہذا کانٹ بینتھم کے مقابلے میں زیادہ ارفع اخلاقیات کا حامل ہے اور وہ سب لوگ جو نیکی سے اس لئے محبت کرتے ہیں کہ وہ نیکی ہے، کانٹ کے ساتھ ہیں۔

یہ سچ ہے کہ بینتھم نے جو تعریف “اچھے” آدمی کی کی تھی اسکے لحاظ سے وہ اپنی تعریف پر پورا اترا۔ اس نے کافی کچھ اچھا کیا ۔ 19 ویں صدی کے درمیانی ۴۰ سالوں میں انگلستان میں مادی، فکری، اور اخلاقی شعبوں میں تیز رفتار ترقی ہوئی۔ اس دور کا آغاز اصلاحات کے ایکٹ سے ہوتا ہے جس نے پارلیمان میں متوسط طبقے کے لوگوں کو جگہ دی جو پہلے صرف اشرافیہ کے پاس تھی ۔ یہ قانون جمہوریت کی طرف سب سے مشکل قدم تھا اور اسکے فورا ًبعد اور بہت سے اہم اقدامات کیے گئے جیسے جمیکا سے غلامی کا خاتمہ کیا گیا۔ شروع میں صرف ان لوگوں کے لئے جو قتل اور غداری کے جرائم کے مرتکب ہوتے تھے معمولی چوری کی سزا بھی پھانسی مخصوص کر دی گئی۔ کوردن قوانین (Corn Laws) کا ۶ ۱۸۴ مین خاتمہ کر دیا گیا جن کی وجہ سے خوراک اتنی مہنگی ہوگئی تھی کہ غربت انتہا کو پہنچ چکی تھی۔

۱۸۷۰ میں تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا۔ وکٹورین زمانے کی مذمت کرنا ایک فیشن بن گیا ہے مگر کاش کہ ہم اس زمانے سے آدھے اچھے ہو سکتے تو بھی بڑی بات ہوتی ۔ بہر حال یہ تو ایک دوسری بات ہے۔ میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان ۴۰ سالوں کی آدھی ترقی کا سہرا بینتھم کی تعلیمات کے سر جاتا ہے۔ اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر بینتھم پیدا نہ ہوتا تو 19 ویں صدی کی آخری دہائیوں میں انگلستان کے ۹۰ فیصد لوگ کبھی بھی اتنے خوش نہ ہوتے۔ بینتھم کا فلسفہ اسقدر سطحی تھا کہ وہ اس خوشحالی کو اپنی حرکتوں کا نتیجہ سمجھتا۔ ہم آج کے روشن خیال دور میں اسطرح کے نظریے کو بالکل بیہودہ سمجھتے ہیں۔ مگر ہو سکتا ہے کہ ہم بینتھم کی اس گری ہوئی اور نیچ افادیت پسندی کو رد کرنے کی بنیادوں کو ایک مرتبہ پھر سے جانچیں تو ہمیں کچھ فائدہ نظر آجائے۔

ہم جانتے ہیں کہ” اچھے” آدمی سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے۔ ایک مثالی اچھا آدمی شراب اور سگریٹ نوشی سے پر ہیز کرتا ہے، بری زبان استعمال نہیں کرتا ، مردوں کے سامنے بالکل ایسے اخلاق سے گفتگو کرتا ہے جیسے خواتین کے سامنے کرتا ہے ، باقاعدگی سے چرچ جاتا ہے، اور ہر مسئلہ پر صحیح آراء رکھتا ہے۔ وہ ہر وقت برائی سے ڈرتا ہے اور اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ گناہ کو ختم کرنا اسکی ذمہ داری ہے۔ غلط سوچ سے وہ اس سے بھی زیادہ ڈرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ارباب اختیار نو جوانوں کو ان لوگوں سے بچائیں جو ان باتوں کو چیلنج کرتے ہیں جن کو اڈھیر عمر کے کامیاب شہری پسند کرتے ہیں۔ علاوہ ان پیشہ ورانہ فرائض کے جن کو بڑی تندہی سے انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں پر اپنے وقت کا خاصا بڑا حصہ صرف کرتا ہے ۔ وہ حب الوطنی اور فوجی تربیت پر وقت لگا سکتا ہے۔ وہ صنعت یا مزدوروں اور انکے بچوں کے درمیان سنجیدگی اور نیکی کو اسطرح فروغ دے سکتا ہے کہ جو لوگ بھی ایسا نہ کریں انہیں اسکی سزا ملے۔ وہ کسی یونیورسٹی کا ٹرسٹی ہو سکتا ہے جہاں وہ ایسے اساتذہ کے تقرر کو روکے جو تخریبی خیالات کے حامل ہوں اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ انکا اخلاق اور کردار بالکل بے داغ ہو۔

II

یہ بات کہ کیا اس اوپر دی ہوئی تعریف پر پورا اترنے والا آدمی ایک برے آدمی سے زیادہ اچھا ہوتا ہے کافی مشکوک ہے۔ یہاں برے آدمی سے میری مراد وہ شخص ہے جو اوپر دی ہوئی باتوں کا الٹ کرتا ہے۔ یعنی برا آدمی وہ ہے جو کبھی کبھار شراب بھی پی لیتا ہے اور سگریٹ بھی اور اگر کوئی اسے پریشان کرے تو وہ ایک آدھ برا لفظ بھی استعمال کر لیتا ہے۔ اس کی گفتگو ہمیشہ ایسی نہیں ہوتی جسکی اشاعت کی جاسکے اور وہ کبھی کبھی اتوار کے دن چرچ کے بجائے سیر سپاٹے کو بھی نکل جاتا ہے۔ اسکے کچھ خیالات تخریبی بھی ہوتے ہیں مثلاً اس کا خیال ہو سکتا ہے کہ اگر ہم امن چاہتے ہیں تو ہمیں جنگ کے بجائے امن کی تیاری کرنا چاہئے ۔ برائیوں اور خرابیوں کی طرف اس کا رویہ سائنسی ہوتا ہے، بالکل ایسا ہی جیسا کہ اگر اسکی کار خراب ہو جائے تو اسکی طرف ہوگا۔ اس کا استدلال ہوتا ہے کہ وعظ اور جیلوں کے ذریعے برائی کو اسی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے جس حد تک ایک پھٹے ہوئے پائپ کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ بری سوچ کے بارے میں تو وہ اور بھی منحرف ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس کو بری سوچ کہا جاتا ہے صرف سوچ ہے اور جس کو اچھی سوچ کہا جاتا ہے وہ صرف طوطے کی رٹ ہے۔ ان خیالات کی وجہ سے وہ تمام خبطیوں میں ہر دل عزیز ہوتا ہے۔ کام کے بعد وہ یا تو اپنا وقت زندگی سے لطف اندوز ہونے میں گزارتا ہے یا پھر اس سے بھی بدتر یہ کہ وہ ان قابل تدارک برائیوں کے خلاف باتیں کرتا ہے جن سے صاحب اقتدار طبقے کو کسی قسم کے نقصان کا خدشہ نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ کہتا ہو کہ بجائے منافقت کے سچ بولنا زیادہ اچھا ہے اور اسی لیے اپنے کردار کی برائیوں کی حفاظت اتنی احتیاط سے نہ کرتا ہو جتنی احتیاط سے اچھے لوگ کرتے ہیں۔ ایسے آدمی یا اس حلیئے میں سے چند چیزوں کے حامل آدمی کو بھی ایک عام عزت دار شہری اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور اسے کسی بھی ایسی جگہ کے لئے پسند نہیں کیا جائے گا جہاں اسے کسی قسم کا اختیار حاصل ہو، جیسے حج ، مجسٹریٹ، یا اسکول ٹیچر ، کیونکہ یہ تمام عہدے صرف اچھے لوگوں کے لئے مختص ہیں۔

یہ صورتحال تقریباً جدید زمانے کی پیداوار ہے۔ انگلستان میں یہ پیورٹینز (Puritians) کے عہد میں کرومویل کے زمانے میں آئی اور یہاں سے امریکہ منتقل ہوئی۔ انگلستان میں یہ فرانسیسی انقلاب کے بعد دوبارہ آئی اور جیکینزم (Jacobism)، جسے ہم آج بالشوکزم کہیں گے، کے خلاف ہتھیار کے طور پر اپنائی گئی ۔ ولیم ورڈزورتھ کی زندگی اس تبدیلی کی غمازی کرتی ہے۔ اپنی جوانی میں وہ فرانسیسی انقلاب کے حامی تھے اور فرانس جا کر انہوں نے بہت اچھی شاعری کی اور انکے ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی ۔ اس وقت وہ ایک برے آدمی تھے۔ پھر وہ اچھے آدمی بن گئے ۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو چھوڑ دیا صحیح اصولوں کو اپنایا اور بڑی شاعری کی ۔ کولرج بھی اسی طرح کی تبدیلی سے گزرے۔ جب وہ برے تھے تو انہوں نے کبلا خان لکھی اور جب وہ اچھے ہو گئے تو انہیں نے دینیات کی کتابیں لکھیں۔

ایسے شاعر کا ڈھونڈ نا مشکل ہوگا جس نے اس وقت اچھی شاعری کی ہو جب وہ اوپر دی ہوئی تعریف کے مطابق اچھا آدمی بھی تھا۔ دانتے کو تخریبی پرو پیگنڈہ کر کے جلا وطن کیا گیا۔ شیکسپیئر کو اگر اسکے سائیٹ (Sonnet) سے جانچا جائے تو اسے امریکہ جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔ اچھے آدمی کی ایک بہت اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ حکومت (Establishment) کی حمایت کرتا ہے۔ لہٰذا ملٹن کرومول کے دور میں اچھا تھا اور اس سے قبل اور بعد برا تھا مگر اس نے جو شاعری لکھی وہ کرومول کے دور سے پہلے اور بعد ہی لکھی بلکہ یہ کہ اسمیں سے زیادہ تر شاعری اس وقت لکھی گئی جب اسے اشتراکی ہونے کے جرم میں پھانسی ہوتے ہوتے بچی تھی۔ ڈونے سینٹ پال ڈین بننے کے بعد نیک ہو گئے تھے، مگر ان کی ساری نظمیں اس سے پہلے لکھی گئیں اور ان نظموں کی وجہ سے ان کی تقرری میں مشکلات پیش آئیں۔ سونبرن اپنی جوانی میں بہت برے تھے جب انہوں نے آزادی کی جنگ لڑنے والوں کی شان میں طلوع صبح سے قبل کے گیت لکھے۔ بڑھاپے میں وہ نیک ہو گئے تھے جب انہوں نے آزادی کے دفاع کیلئے لڑنے والے بوارز کے خلاف خوب خوب لکھا۔ اب اور مزید کیا مثالیں دی جائیں ۔ غرض یہ کہ آج کے اچھے آدمی کی تعریف اچھی شاعری سے میل نہیں کھاتی۔

دوسرے شعبوں میں بھی یہی حال ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گیلیلیو اور ڈارون برےلوگ تھے۔ اسپینوزا کو ان کی موت کے سو سال بعد تک خطرناک حد تک برا سمجھا جاتا تھا۔ ڈیکارٹے (Decartes) کو موت کے ڈر سے ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ نشاۃ ثانیہ کے دور کے تقریباً سبھی آرٹسٹ برے لوگ تھے ۔ ذرا آسان مثالوں کی طرف آئیں تو آج قابل تدارک اموات (مثلاً جنگ کی اموات ) کو برا سمجھنے والے لوگ برے سمجھے جاتے ہیں۔ میں لندن کے اس حصے میں رہتا تھا جس کا ایک حصہ بہت مالدار ہے اور ایک حصہ بہت غریب ۔ بچوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے اور امیر لوگ بے ایمانی اور دھونس دھاندلی سے مقامی سرکار پر قابض ہیں۔ وہ اپنی طاقت کےبل پر بچوں کی اموات کی روک تھام اور صحت عامہ پر خرچ کرنا نہیں چاہتے ۔ وہ ایسے ڈاکٹر بھرتی کرتے ہیں جو صرف اپنا آدھا وقت اسپتال میں خدمات انجام دیں تا کہ ان کی تنخواہ کی مد میں خرچ کم سے کم ہو۔ کوئی بھی شخص اہم مقامی شخصیات کا دل اسوقت تک نہیں جیت سکتا جب تک اس کا خیال یہ نہ ہو کہ انکی دعوتیں غریب آدمی کے بچوں کی صحت سے زیادہ اہم ہیں اور جتنی دنیا کو میں جانتا ہوں اس پوری دنیا کا یہی حال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اچھے آدمی کی تعریف کو اور بھی سادہ کر لینا چاہیے، یعنی اچھا آدمی وہ ہے جس کی مصروفیات اور جس کی آراء ارباب حل و عقد خوشگوار ہیں۔

پرانے زمانے کے مشہور برے لوگوں کا تذکرہ کر کے تو کافی دل دکھا ہے۔ چلئے ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی وجہ شہرت ، نیکی، اور اچھائی تھی۔ ایک مثالی نیک آدمی جارج سوئم تھے۔ جب پٹ نے ان سے کیتھولک فرقے کے لوگوں کو آزاد کرنے کے لئے کہا ( جن کو اس وقت تک ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں تھا تو وہ اس لئے نہیں مانے کیونکہ ایسا کرنے سے اس قسم اور اس حلف کی خلاف ورزی ہو جائے گی جو انہوں نے تاج پوشی کے وقت اٹھایا تھا۔ ایک اچھے انسان کی طرح وہ اس استدلال سے نہیں پہلے کہ ایسا کرنا ایک اچھا عمل ہوگا۔ ان کے پیش نظر سوال یہ نہیں تھا کہ ایسا کرنے سے کیا اچھائی ہوگی بلکہ یہ کہ کیا ایسا کرنا اصولی طور پر صحیح ہوگا یا نہیں۔ سیاست میں ان کی دخل اندازی کے نتیجے میں وہ حکومت برسراقتدار آئی جو امریکہ کی آزادی کا سبب بنی ، مگر ان کی دخل اندازی کی وجہ ہمیشہ بہت ہی اعلی وارفع اصول ہوتا تھا۔ یہی بات پچھلے قیصر کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے جو ایک نہایت مذہبی آدمی تھے اور جنکو اقتدار کھونے سے قبل اس بات کا مکمل یقین تھا کہ خدا ان کے ساتھ ہے اور جہاں تک مجھے علم ہے ان کا کردار بالکل بے داغ تھا۔ اس سب کے باوجود ہمارے زمانے کے کم لوگ ایسے ہونگے جو انسانی مصیبتوں اور تکلیفوں میں اضافہ کرنے کے معاملے میں ان کا مقابلہ کر سکیں۔

سیاست میں اچھے لوگوں کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ وہ ایسا پردہ بننے کے ماہر ہوتے ہیں جس کی آڑ میں تمام برے کام بہ آسانی کیسے جا سکتے ہیں۔ ایک اچھا آدمی بھی اپنے دوستوں پر شبہ نہیں کرتا ۔ یہ اس کے اچھے ہونے کا حصہ ہوتا ہے۔ ایک اچھے آدمی پر کبھی یہ شبہ نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنی اچھائی کے پیچھے چوروں اور لٹیروں کو پناہ دے گا۔ یہ اس کے بہت سے فائدوں میں سے ایک فائدہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ان اوصاف کا ملاپ اچھے آدمی کو نہایت پسندیدہ شخصیت بنا دیتا ہے، خاص طور سے ان جگہوں پر جہاں لوگ امیروں کے ہاتھوں قومی دولت کی لوٹ پر اعتراض کر رہے ہوں ۔ میں نے سنا ہے ، حالانکہ میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتا، کہ حالیہ تاریخ میں ایک امریکی صدر نے ، جو اچھے آدمی تھے، ایسی خدمات انجام دی ہیں۔ انگلستان میں وہیکر وہائٹ (Whittaker Wright)نے اپنی شہرت کے عروج کے زمانے میں ایسے نیک لوگوں کو جمع کر لیا تھا جنکی نیکی ان کو حساب کتاب سمجھنے سے روکتی تھی اور انہیں یہ بات سمجھنے سے بھی روکتی تھی کہ وہ حساب کتاب سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں۔

اچھے لوگوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے نا پسندیدہ عناصر کو رسوائی کے ڈر سے سیاست سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔ دنیا کے ۹۹ فیصد لوگوں نے کوئی نہ کوئی ایسی غلطی ضرور کی ہوتی ہے جسے وہ چھپانا چاہتے ہیں اور عام طور پر عوام الناس کو اس کی خبر نہیں ہوتی ہے۔ ان ۹۹ میں سے جب کوئی ایک آدمی پکڑا جاتا ہے تو وہ ایک آدمی جوان ۹۹ کے علاوہ تھا بہت شور مچاتا ہے اور باقی ۹۸ بھی اسکا ساتھ دینے پر مجبور ہوتے ہیں مبادہ لوگ ان پر بھی شبہ کرنے لگیں ۔ لہذا جیسے ہی کوئی نا پسندیدہ آراء رکھنے والا شخص سیاست میں داخل ہوتا ہے تو یہ لوگ اپنے قدیم اداروں کی اقدار کو قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری محسوس کرتے ہیں کہ اس شخص کی نجی زندگی پر گہری نظر رکھیں تا کہ جلد ہی کسی ایسی بات کا پتہ چلے جس سے وہ اس کے سیاسی کاروبار کو بند کر سکیں یا پھر اس کو اپنا ہمنوا بنا سکیں ۔ اس کے بعد تین طرح کی صورتحال ہو سکتی ہے: پہلی یہ کہ وہ اس راز کو فاش کر دیں اور وہ شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیاست کے میدان سے غائب ہو جائے ۔ دوسری یہ کہ دھمکیاں دے کر اسے سیاست سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیں اور تیسری یہ کہ اس کو بلیک میل کر کے اس سے رقم ہتھیاتے رہیں۔ پہلی دو صورتوں میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے عوام کو بچالیا۔

آئیے اب کچھ اور مسئلے لیتے ہیں ، مثلاً جنسی بیماریاں۔ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اگر احتیاط کی جائے تو ان بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر اچھے لوگوں کی کوششوں کی وجہ سے یہ بات زیادہ لوگ نہیں جان پاتے جو ان طریقوں کو اپنانے کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ گناہ کرنے والے اپنی قدرتی سزا پاتے ہیں اور بچوں کو انجیل کے اصولوں کے مطابق اپنے والدین کی سزا ملتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کتنا برا ہو کیونکہ اگر گناہگار کو سزانہ ملے تو آوارگی عام ہو جائے اور بہت سے لوگ تو یہ کہنے لگیں کہ یہ تو گناہ ہے ہی نہیں اور پھر یہ کہ اگرسزا معصوموں کو نہ ملے تو پھر اس سزا سے کوئی کیوں ڈرے۔ لہٰذا ہمیں ان اچھے لوگوں کا کتنا شکر گزار ہونا چاہیے جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں قدرت کی بنائی ہوئی سخت سزائیں آج بھی دے سکیں باوجود اس ناپاک علم کے جو سائنسدانوں نے ان سے نجات کیلئے حاصل کر لیا ہے۔ تمام راست باز لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایک برا عمل براہی ہوتا ہے قطع نظر اس بات کے کہ اس سے کوئی نقصان ہوتا ہے یا نہیں ۔ مگر کیونکہ تمام لوگ اخلاق کے اصولوں سے سبق حاصل نہیں کر سکتے اس لئے ضروری ہے کہ گناہ کی سزا ضرور ملے تا کہ نیکی پھل پھول سکے۔ یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو ان تمام طریقوں سے نا واقف رکھا جائے جن سے وہ ان سزاؤں سے بچ سکتے ہیں جو سائنسی دور سے قبل گناہ کے بعد ملتی تھیں۔ میں یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں کہ اگر یہ ا چھے لوگ اس علم کو چھپانے کی کاوشیں نہ کریں تو ہم ذہنی اور جسمانی صحت کے بارے میں کتنا کچھ جان جائیں۔ اچھے لوگ خود کو قتل کروا کر بھی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ جرمنی نے چین کے شانتنگ علاقے پر دو مشنریوں کو قتل کروا کے قبضہ کیا تھا۔ آسٹریا کی سلطنت کے شاہی خاندان کا وہ شہزادہ بھی ایک اچھا آدمی تھا جسکو سارایو و (Sarajevo) میں قتل کیا گیا ۔ اور ہمیں اس کا کتنا شکر گزار ہونا چاہئے ۔ اگر وہ اس طرح نہ مرتا جس طرح مرا تو پہلی جنگ عظیم نہ ہوتی اور پھر دنیا جمہوریت کے لئے تیار نہ ہوتی اور نا ہی فوج گردی ختم ہو پاتی اور نہ ہم اب ہسپانیہ، اٹلی ، ہنگری، بلغرایہ، اور روس میں فوجی آمریت کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔

سنجیدگی سے بات کی جائے تو اچھائی کا جو معیار عام طور پر مقبول ہے وہ دنیا کو ایک خوشحال اور ہنستی بستی جگہ بنانے کے لئے وضع نہیں کیا گیا ہے۔ یہ کئی وجوہات کی بنا پر ہے جس میں سے سب سے بڑی وجہ ہے روایت اور دوسری بڑی وجہ ہے غالب اور مقتدر طبقوں کی بے جا طاقت۔ ابتدائی اخلاقیات نے سماجی دباؤ میں جنم لیا تھا یعنی یہ کہ ابتدا میں وہ اوہام پر مبنی تھی اور بالش بے ضرر چیزوں کی بھی ممانعت کرتی تھی (جیسے قبیلے کے سردار کی پلیٹ میں سے کھانا کھا لینا ) اور ان کی مخالفت کی بنیاد یہ تھی کہ ان کے کرنے سے مصیبت آسکتی تھی ۔ اسطرح سے چیزیں ممنوع یا۔ اور حرام ہوتی چلی گئیں اور وہ آج بھی لوگوں کے احساسات پر اختیار رکھتی ہیں جبکہ ان کے ممنوع ہونے کی مفروضہ وجوہات بھلائی جا چکی ہیں ۔ موجودہ اخلاقیات کا بڑا حصہ انہیں چیزوں پر مشتمل ہے۔ چند چیزیں یا عمل ایسے ہیں جن سے خوف پیدا ہوتا ہے قطع نظر اس بات کے کہ ان سے کوئی نقصان ہوتا ہے یا نہیں۔ بہت سی چیزیں واقعی ایسی ہیں کہ ان سے خوف بھی آتا ہے اور ان سے نقصان بھی ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زیادہ تر لوگ اس بات پر راضی ہوتے کہ ہمیں موجودہ اخلاقی اقدار پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ظاہر ہے کہ ایک مذہبی معاشرے میں قتل کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن قتل کی ممانعت کی جو اصل وجہ تھی وہ صرف واہمے پر مبنی تھی۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مرنے والے کا خون ( اور پھر اسکے بعد اسکا بھوت ) بدلا لینا چاہتا ہے اور وہ نہ صرف قاتل کو قتل کر دے گا بلکہ اس کو بھی جو اس سے ہمدردی جتائے گا۔ قاتل اپنے الزام یا گناہ سے اس طرح مکتی حاصل کرتا تھا کہ اپنا حلیہ بدل لیتا تھا تا کہ مقتول کی روح اسے پہچان نہ سکے۔ کم از کم سر جے جی فریزر کی تو یہی تھیوری یا تصور ہے۔ جب ہم پچھتاوے کو ‘گناہ دھل جانے’ سے تشبیہ دیتے ہیں تو اس کے پیچھے دراصل یہ حقیقت کار فرما ہے کہ ابتدا میں قاتل کے جسم سے باقاعدہ خون کے دھبے دھوئے جاتے تھے۔ گناہ اور ندامت کے تصور کا پس منظر جذباتی ہے جس کی جڑیں بہت پرانے زمانوں سے جاملتی ہیں۔ وہ اخلاقیات جو عقل پر بنی ہو قتل کو بالکل مختلف نظر سے دیکھے گی۔ وہ قتل کو روکنے اور اس کا سد باب کرنے کے بارے میں ایسے سوچے گی جیسے کہ بیماری کے بارے میں سوچتے ہیں نہ کہ ندامت، پچھتاوے سزا، اور کفارے کے بارے میں ۔

ہماری موجودہ اخلاقیات واہموں اور معقولیت کا عجیب و غریب ملغم ہے۔ قتل ایک بہت پرانا جرم ہے اور ہم اس کو قدیم خوف و ہراس کی دھند میں دیکھتے ہیں ۔ جعل سازی ایک نیا جرم ہے لہٰذا اس کو ہم عقلی طریقوں پر پر کھتے ہیں۔ ہم جعل سازوں کو سزا دیتے ہیں مگر ہم ان کو قاتلوں کی طرح عجیب و غریب مخلوق نہیں سمجھتے اور ہم اصولی طور پر چاہے کچھ بھی کہیں لیکن آج بھی سماجی عمل میں ہم اس بات کو سچ مانتے ہیں کہ نیکی کچھ نہ کرنے میں ہے، نہ کہ کچھ کرنے میں۔ جو شخص ان چیزوں سے پر ہیز کرتا ہے جن کو ہم گناہ کہتے ہیں وہ اچھا آدمی سمجھا جاتا ہے چاہے وہ دوسروں کی بھلائی کے لئے کچھ کرے یا نہ کرے۔ ویسے یہ رویہ آسمانی کتابوں میں نظر نہیں آتا۔ اپنے پڑوسی سے اتنی ہی محبت کر جتنی اپنے سے کرتے ہو۔ یہ مثبت قدر ہے۔ مگر عیسائی سماج میں جو شخص اس بات پر عمل کرتا ہے اسے تنگ کیا جاتا ہے اور وہ اس جرم کی پاداش میں کم از کم غربت ، اکثر جیل ، اور کبھی کبھار موت کا منہ بھی دیکھتا ہے۔ دنیا نا انصافی سے بھری پڑی ہے اور اس نا انصافی سے جن کو فائدہ پہنچتا ہے وہی جزا اور سزا دینے کا اختیار رکھتے ہیں ۔ جزا ان کو ملتی ہے جو عدم مساوات کی نت نئی تاویلیں ڈھونڈتے ہیں، اور سزا ان کو جو اس عدم مساوات کا تدارک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں کسی ایسے ملک کو نہیں جانتا جہاں وہ آدمی جو واقعی اپنے پڑوسی سے محبت کرتا ہو ملامت اور لعن طعن کا شکار نہ ہو۔ دوسری جنگ عظیم چھڑنے سے ذرا پہلے پیرس میں فرانس کے بہترین شہری جین جاریز کا قتل ہو گیا ۔ قاتل کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ اس نے ایک اصلاح عامہ کا کام کیا ہے۔ یہ کیس بہت ہی ڈرامائی تھا مگر اس طرح کے قصے ہر جگہ ہوتے رہتے ہیں۔ جو لوگ روایتی اخلاقیات کا دفاع کرتے رہتے ہیں کبھی کبھی یہ مان جاتے ہیں کہ یہ کامل اور بے عیب نہیں ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ مان لیا گیا تو تمام اخلاقی قدریں دھڑام سے نیچے آن گریں گی۔ لیکن اگر تنقید مثبت اور تعمیری ہو اور تفریح طبع کے لئے نہ ہو تو اخلاقی قدروں کو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بینتھم اخلاقیات کی بنیاد کے لئے جس چیز کی وکالت کرتا تھا وہ یہ تھی کہ اخلاق یا نیکی یا اچھائی وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خوش کر سکے ۔ اب جو آدمی بینتھم کی بات پر عمل کرے اسکی زندگی کہیں مشکل ہوگی بہ نسبت اس آدمی کے جو روایتی اخلاقی اصولوں کی پابندی کرتا ہے۔ وہ یقیناً اپنے کو مظلوموں کا ہمدرد تو بنا لے گا مگر ساتھ ہی بڑوں کی دشمنی بھی مول لے گا۔ وہ ان حقیقتوں کو طشت از بام کرے گا جن کو ارباب حل و عقد چھپانا چاہتے ہیں ۔ وہ اس تمام جھوٹ کو رد کر دے گا جو ہمدردی کو ان لوگوں تک پہنچنے سے روکتا ہے جو اس کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس طرح کی زندگی حقیقی اخلاقیات کا خاتمہ قطعاً نہیں کرتی بلکہ اس کو فروغ دیتی ہے۔ سرکاری اخلاقیات ہمیشہ سے منفی اور جابرانہ رہی ہیں۔ اس کا نعرہ ہے تم نہیں کرو گے، مگر اسے یہ نہیں پتہ کہ جن چیزوں کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا ان کا کیا اثر ہو رہا ہے۔ اس قسم کی اخلاقیات کے خلاف تمام صوفیوں اور مذہبی استادوں نے لا حاصل احتجاج کیا ہے، مگر ان کے مقلدین نے ان کے سب سے واضح اور سریع الاثر اصولوں سے حرف نظر کیا ہے۔ الغرض یہ کہ ہمارے مروجہ اخلاقی اصولوں اور ان کے نافذ کیے جانے کے طریقوں سے کوئی بڑی تبدیلی پیدا ہوتی نظر نہیں آتی۔

عقل اور سائنس کی ترقی سے اس سے کہیں زیادہ امید لگائی جاسکتی ہے۔ لوگ آخر کار یہ سمجھ جائیں گے کہ جس دنیا کے اداروں کی بنیاد نفرت اور نا انصافی پر رکھی گئی ہو وہ خوشی نہیں دے سکتی۔ بہت سے لوگوں نے حالیہ جنگ سے یہ بات سیکھ لی ہے اور اس سے بھی بہت زیادہ لوگ سیکھ جاتے اگر یہ جنگ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہو جاتی ، یعنی یہ کہ اس میں کوئی فاتح نہ ہوتا ۔

ہمیں جس اخلاقیات کی ضرورت ہے اس کی بنیاد زندگی سے محبت اور ترقی اور مثبت کارناموں پر ہونی چاہیے، نہ کہ تسخیر ، تشدد، اور ممانعت۔ اگر ایک آدمی خوش ہے، پر جوش ہے بھی ہے اور دوسروں کی خوشی میں خوش ہے تو اسے اچھا آدمی سمجھنا چاہئے اور اس کی چھوٹی موٹی غلطیاں معاف کردینی چاہئیں ۔ مگر وہ شخص جو ظلم اور استحصال کے ذریعے دولت کماتا ہے اسے بدمعاش اور بد چلن سمجھنا چاہیے، چاہے وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا ہو اور اپنی حرام کی کمائی میں سے کچھ رفاح عامہ پر کیوں نہ خرچ کرتا ہو۔

یہ تبدیلی پیدا کرنے کے لئے صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اخلاقی معاملات میں بجائے واہموں اور استبداد کے جنہیں آج بھی کچھ حضرات نیکی سمجھتے ہیں معقول (Rational) اور استدلال پر مبنی رویہ اختیار کیا جائے ۔ استدلال معقولیت اور شعور کی طاقت کو آجکل کم اہمیت دی جاتی ہے مگر میں پھر بھی معقول آدمی ہوں اور مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ استدلال اور معقولیت کی طاقت کم ہو مگر یہ مستقل اور غیر متغیر ہے اور اس کی سمت بھی تبدیل نہیں ہوتی ، جبکہ اس کی مخالف قوتیں خود ہی لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کر دیتی ہیں۔ لہٰذا ان کی ہر بدمستی بالآخر معقولیت ہی کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ یہی لوگ انسانیت کے اصل دوست ہیں۔

نوٹ:

یہ مضمون THE HARM THAT GOOD MEN DO کا اردو ترجمہ ہے۔ جسے حسین بن خامس نے ا

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2025
M T W T F S S
 12
3456789
10111213141516
17181920212223
24252627282930
31