جمہوریت کی کتیا ۔۔۔ تنویر قاضی
جمہوریت کی کُتیا
تنویر قاضی
جمہوریت کی کُتیا
تراہ نکالتی
یہ
دھوتی پہنے دیہاتیوں پر بھونکتی ہے
ووٹ خرید کر
وہ
جمہوریت کی کُتیا کو کُنویں میں گِرا آتے ہیں
نا ہنجار
حرام خور
خُونخوار
دانت پیستی
سرمایہ داروں اور ہر طرح کی اشرافیہ کے بھڑولے بھرتی
اُفتادگانِ خاک کے پیوند لگے کپڑے بھی اُتار لیتی ہے
قیمے کے نان پر
غریبوں کو دھمال ڈالنے پر اُکساتی ہے
بی ایم ڈبلیو میں بیٹھے غنڈے
وکٹری کا نشان بناتے
وکیل نہیں کرتے
جج خرید لیتے ہیں
پستانوں سے چُلّو چُلّو گِرتا دودھ سوانیوں کی شریانوں میں خُشک ہو جاتا ہے
ہجرو خوف کے میمنے ارد گرد ناچتے چھاتیوں سے چمٹتے ہیں
منجمد لہو رسنے لگتا ہے
فربہ کولہوں والی خرّافہ
اپنی نگرانی میں
منی لانڈرنگ کرواتی
ڈاکوؤں کو
جن کا دل برٹش ایمپائر میں دھڑکتا ہے
چوری کا سامان جہازوں میں لدوانے کا بندوبست کرتی ہے
غریبِ شہر کو ایک روٹی چُراتے دیکھ
چوں چوں چوں چوں آسمان سر پر اُٹھاتی
پاورٹی لائن کے نیچے گرتے
مانسوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے
دلال
اس کے منہ پر منہ رکھے ہَگ کرتے
اکنامک aquilibrium اَپ سیٹ کرتے ہیں
زنجیر بنو
نجی ملکیّت کے خاتمے
اور اشترا کیت میں بھلا ہے
ایسی سماجی و معاشی ناقابلِ برداشت نا ہمواری
جمہوریت کی کُتیا کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے
حیات آباد کی سڑک پر
پانچ سالہ بچہ
رات بارہ بجے
غُبارے بیچتا سو گیا ہے
کاش خدا کو اونگھ آتی ہوتی
جھپکے میں
بالک کا سامان بِک جاتا