آخری جلسہ ۔۔۔ آندرے گروشینکو
آخری جلسہ
آندرے گروشینکو
مترجم: ستار طاہر
بڈھے باشکوف نے اپنی بہو سے کہا:
“جانتی ہو، آج کیا دن ہے۔ دیکھو، دھوپ نکل آئی،
میرے باہر بیٹھنے کا انتظام کر دیا؟”
بہو مسکرائی، وہ اچھے نین نقش کی تھی، لیکن اس کا وزن
بڑھتا جارہا تھا اور وہ خاصی بے ڈول ہورہی تھی، بڈھے باشکوف نے اپنے آپ سے کہا:
“مرد بڑا ظالم ہے، عورت کی خوبصورتی چھین لیتا ہے۔”
“ہاں! باہر کرسی بچھا دی ہے، کوئلے دہکا کر انگیٹھی
گرم کردی ہے۔۔۔ اور کیا چاہیئے بابا۔۔۔۔۔۔۔۔”
“بس تو پھر مجھےسہارا دے کر باہر لے چلو، آہ، یہ
گنٹھیا۔۔۔۔ ششکا! تیرا گھر والا تو چلا گیا ہوگا؟”
“ہاں بابا! بچے بھی اس کے ساتھ ہی گئے ہیں۔”
بہو نے بڈھے کو سہارا دے کر بستر سے اُٹھایا، پھر اسے
سہارا دیتی مکان کے باہر لے آئی، جہاں ایک بڑی کرسی بچھی تھی اور اس کے سامنے ایک
انگیٹھی میں کوئلے دہک رہے تھے۔
” بابا بہت بوڑھا، لیکن بہت بھاری ہوگیا تھا۔”
بہو نے دل میں کہا اور پھر مسکراتی ہوئی گھر کے اندر چلی
گئی۔
باشکوف نے سامنے کھلے میدان کی طرف دیکھا۔ چند سو گز کے
فاصلے پر لوگ جمع ہورہے تھے۔ یومِ مئی کا جلسہ ہونے والا تھا۔ اس جلسے میں شریک
ہونے والے بہت سے مزدور اس کے جاننے والے تھے۔ چار سال پہلے تک وہ بھی اس جلسے میں
شریک ہوا کرتا تھا، حالانکہ اسے فیکٹری سے ریٹائر ہوئے نو برس ہوچکے تھے۔ جوڑوں کے
درد نے اسے کسی کام کا نہ چھوڑا تھا۔ وہی ہڈیاں اور جوڑ جو کبھی اس کی بے پناہ
طاقت کے ضامن تھے، اب اس کا روگ بن چکے تھے۔ سارا دن وہ بستر پر لیٹا ادھراُدھر کی
ہر طرح کی کتابیں پڑھتا رہتا، بیٹا فیکٹری چلا جاتا، پوتے اسکول، گھر میں وہ اور
بہو رہ جاتے۔ بہو بہت خدمت گزار تھی۔ اس نے بڈھے باشکوف کو اپنی بیوی کی خدمت بھلا
دی تھی۔ باہر نکلنا ختم ہوچکا تھا، ہاں، ہر یومِ مئی کا جلسہ سننے کے لیے وہ باہر
آکر بیٹھ جاتا۔ وہ جانتا تھا کہ یوں وہ اپنے ساتھیوں کی خوشیوں اور دکھوں میں شریک
ہوجاتا ہے، پھر جلسے کے اختتام پر جلسہ کرنے والوں کو اس کی ضرورت بھی تو پڑ جاتی
تھی۔
وہ مسکرانے لگا۔
اس نے ہاتھ کی حرکت دی، اپنے بوسیدہ اوورکوٹ کی جیب میں
ہاتھ ڈالا، جیب کے اندر یہ ‘کوپک’ گننے لگا۔۔۔۔ گیارہ کوپک ۔۔۔۔۔۔ اس نے گنتی ختم
کی۔
“ہاں”
اس نے اپنے آپ سے کہا:
“اس سے زیادہ انہیں کیا ضرورت پڑے گی۔”
وہ مسکرانے لگا، ہر سال ایسا ہی ہوتا تھا، جب جلسہ ختم
ہو جاتا تو جلسے کا انتظام کرنے والی کمیٹی کو پتا چلتا کہ فرنیچر اور دریوں کے
کرائے کے لیے ان کے پاس کچھ پیسے کم پڑگئے ہیں، پھر وہ ایک دوسرے سے پیسے مانگتے،
چندہ کرتے اور یوں ادائیگی کرتے تھے۔ آٹھ نو برس پہلے جب بڈھا باشکوف ریٹائر ہوچکا
تھا، یہی بات ہوئی تو اس نے سب کو روک کر کہا تھا:
“میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں، ملازمت سے بھی چھٹی
ہوچکی، اپنے ساتھیوں کی جدوجہد میں عملی حصہ نہیں لے سکتا، اس لیے اب میں اس
جدوجہد میں اسی طرح حصہ لے سکتا ہوں کہ یومِ مئی کے جلسے کے انتظامات تم کرو، جو
رقم کم پڑے اس کی ادائیگی میں کیا کروں گا۔”
تب سے وہ پانچ، ساتھ، آٹھ، دس کوپک دے کر یومِ مئی کے
جلسے کے انعقاد میں عملی حصہ لیا کرتا تھا۔
جلسہ شروع ہوچکا تھا۔ سینکڑوں مزدور وہاں بیٹھے تھے۔
طرح طرح کی ٹوپیوں اور گنجے سروں کا ایک انسانی سمندر
دکھائی دے رہا تھا۔
بڈھا باشکوف مسکرایا، اس کی مسکراہٹ میں کچھ تلخی بھی
تھی۔
“جنہوں نے ٹوپیاں پہن رکھی ہیں، ان میں سے بھی بیش
تر کے سر گنجے ہیں، ہم مزدور اتنی جلدی گنجے کیوں ہو جاتے ہیں؟”
مزدور ترانہ گارہے تھے۔ وہ توجہ سے سنتے ہوئے دل ہی دل
میں ترانہ گنگنانے لگا۔۔۔۔۔۔ وہ جذباتی سا ہورہاتھا۔ ترانے کے بعد ایک نوجوان
مزدور تقریر کرنے لگا۔
“بڑا جوش ہے بھئی اس کی باتوں میں”
بڈھے نے دل میں کہا۔
“کون ہے یہ نیا لیڈر۔۔۔۔۔۔ چلو۔۔۔ یہ فیکٹری بھی تو
دنیا کی طرح ہے۔ کوئی آتا ہے، کوئی جاتا ہے، لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی باتوں میں جوش ہی ہے، اس طرح تو مسئلے حل نہیں
ہوتے۔ خیر، جوانی کا جوش ہے۔۔۔۔۔ اس بھٹی سے تپ کر نکلے گا تو کندن بن جائے گا۔
معقولیت ۔۔۔۔۔ وہ ہنسا تو اس کی سفید مونچھیں پھڑ پھڑائیں۔ معقولیت۔۔۔۔۔ کہاں ہے
دنیا میں؟ جہاں بھوک ہو، غربت ہو۔۔۔۔ وہاں معقولیت کا گزر کیسے ہوسکتا ہے۔”
اسٹیج پر آخری مقرر آگیا، یہ اناطولی تھا، سرخ لمبی ناک،
جسے وہ بار بار چھونے اور سہلانے کا عادی تھا۔
اناطولی ہے مزدوروں کا لیڈر، بوڑھے نے اسے داد دی، کیا
منجھا ہوا آدمی ہے، کبھی سمجھوتا نہیں کرتا، لچک تو ہے ہی نہیں فولاد ہے فولاد
بڈھے باشکوف نے آنکھیں میچ لیں۔
“کیا حسین عورت تھی اناطولی کی بیوی۔۔۔۔۔ مر گئی بے
چاری۔۔۔۔۔ کتنی چک پھیریاں میں نے اسے راغب کرنے کے لیے لی تھیں، مگر کیسی باوفا
تھی، واہ۔۔۔۔ کیا حسینہ تھی۔۔۔۔۔ کیا وفا شعاری تھی۔”
بڈھا پرانی یادوں کے نشے میں اونگھنے لگا۔
تالیوں اور نعرون کا شور سن کر وہ چونکا۔
جلسہ ختم ہوگیا، لوگ جانے لگے تھے، نعرہ لگاتے، ناچتے،
گاتے۔۔۔۔
بہت سے لوگ اس کے پاس آئے، اسے سلام کیا، اس کا بھاری
بھدا ہاتھ لے کر اپنے گرم ہاتھوں سے سہلایا۔ کسی نے اس کے گھٹنے چھوئے اور کوئی
زمین پر پاس بیٹھ گیا۔ وہ مسکراتا رہا۔ حال احوال پوچھتا رہا اور انتظار کرتا
رہا۔۔۔۔۔
وہ جانتا تھا، اب جلسہ کمیٹی والے حساب کتاب کر رہے ہوں
گے، پھر ان میں سے کوئی ایک حسبِ روایت اس کے پاس آئے گا۔
“بابا باشکوف صاحب ۔۔۔۔ چھے کوپک کم ہوگئے
ہیں۔۔۔۔۔۔ سات روبل ۔۔۔۔ آٹھ روبل۔۔۔ دس روبل کم پڑھ گئے ہیں۔”
وہ جیب میں ہاتھ ڈالے گا، کوپک نکال کر اسے گن کر دے دے
گا۔ وہ شکریہ ادا کرکے سلام کرکے چلا جائے گا۔
بڈھے باشکوف نے اوورکوٹ کی جیب سے سارے کوپک نکال کر
اپنی مٹھی میں لے لیے۔۔۔
جلسے کا میدان خالی ہوچکا تھا۔ اپنی بوڑھی آنکھیں میچ کے
وہ ان چند لوگوں کو دیکھنے لگا جو اسٹیج کے نیچے سر جوڑے کھڑے تھے، وہ ان کی آواز
سن نہیں سکتا تھا، اگر آواز اس تک پہنچ سکتی تو وہ سنتا کہ ایک کہہ رہا تھا:
“پیسے تو پورے ہیں بلکہ دو کوپک بچ گئے ہیں۔”
“چلو اچھا ہوا۔”
دوسرا مزدور بولا:
“ہرسال ہم بابا باشکوف کو تکلیف دیتے تھے۔”
“مجھے اس سے پیسے لینے میں بہت ندامت محسوس ہوتی
تھی، بے کار ہے، بوڑھا ہے، بیمار ہے۔۔۔۔۔ ہم اس کی مدد کرنے کی بجائے الٹا اس
سے۔۔۔۔۔۔۔”
“بھئی وہ خود ایسا چاہتا تھا۔”
دوسرا بولا:
“اپنی خوشی سے دیتا تھا۔”
“اچھا بھئی فارغ کرو فرنیچر اور دریوں والے کو۔۔۔۔”
“ہاں ۔۔ہاں میں ابھی ادائیگی کردیتا ہوں۔”
“بابا باشکوف بیٹھا ہے۔۔۔۔ چلو، اس سے مل آئیں۔”
“نہیں وہ سمجھے گا کہ ہم اس سے پیسے لینے آئے ہیں،
شام کو مل لیں گے۔”
“ہاں ! ٹھیک ہے، شام کو مل لیں گے۔”
بابا باشکوف دیکھتا رہا، وہ ایک ایک کرکے اس کے پاس آئے
بغیر چلے گئے۔ اب اس کی نگاہوں کے سامنے خالی میدان پڑا تھا۔ کرسیاں، میزیں، اسٹیج
کے تختے، دریاں، سب لادی جاچکی تھیں اور اس کے سامنے گھوڑا گاڑی وہاں سے سامان
اٹھا کر چلی گئی۔
اسے یوں لگا جیسے اس کا سارا خون اس کے سر کی طرف تیزی
سے چڑھنے لگا ہے، جیسے وہ الٹا بیٹھا ہے، ٹھٹھر رہا ہے۔۔۔
انگھیٹی کے کوئلے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔
“تو انہیں میری ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ میں اپنے
ساتھیوں کی جدوجہد میں کسی طرح بھی شریک نہیں ہوسکتا۔۔۔۔”
اس کا بیٹا اور پوتے، جلسے کے بعد جلوس کے ساتھ چلے گئے
تھے، جب وہ واپس آئے تو بڈھے کا بھاری سر سینے کی طرف جھکا ہوا تھا، بیٹے نے آواز
دی۔
“بابا چلو، اب اندر چلیں۔”
اس کا ایک پوتا چلایا:
“دیکھو! کوپک زمین پر گرے ہیں۔”
کچھ کوپک اس کی مٹھی میں بھی موجود تھے۔
وہ مرچکا تھا۔۔۔۔۔
بہو، بیٹے اور پوتوں نے اسے مل کر اٹھایا۔ ۔۔۔۔۔۔۔بہو
آنسو بہارہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی:
“بابا۔۔۔۔۔ بہت بوجھل ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”