نیلی نوٹ بک 14 ۔۔۔ انور سجاد
نیلی نوٹ بُک
( عمانویل کزا کیویچ ) مترجم: ڈاکٹر انور سجاد
عمانویل کزا کیویچ 1913 میں یوکرین میں پیدا ہوا ۔1932 میں اسکی نظموں کا پہلا مجموعہ ” ستارہ ” کے نام سے شائع ہوا جس نے اسے پوری دنیا سے متعارف کروایا۔ بعد ازاں اس کی لکھی کتابیں ، اودر کی بہار، دل دوست، اسٹیپ میں، چوک میں ایک گھر، اور دن کی روشنی میں، منظر عام پر آیئں ۔ ” نیلی نوٹ بک ” اسکا آخری ناولٹ تھا۔ عمانویل کے ہم عصر، فیودر دوستووسکی کے مطابق کزا کیو ایچ ایک زبردست سیاح، شکاری، پارٹی کا روح رواں، فطرتا ہنس مکھ لیکن بہت ہی جرات مند سپاھی تھا۔
ڈاکٹر انور سجاد : 1935 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کے بعد انہوں نے ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ کا امتحان لندن سے پاس کیا۔ نور سجاد کی شخصیت پہلو دار ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ نظریاتی وابستگی انہیں سیاست تک لے آئی۔سٹیج اور ٹیلی ویژن کی قوت اظہار سے خوب واقف ہیں اور جدید اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ رقص کے بھی ماہر ہیں۔ انکی شخصیت کے تمام پہلو ان کی افسانہ نگاری میں کسی نہ کسی طور ظاہر ہیں۔ رگ ِ سنگ، آج، استعارے، پہلی کہانیاں، چوراہا، خوشیوں کا باغ ان کی نمایاں تخلیقات ہیں۔
نیلی نوٹ بک 14
نادہژدا نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ اپنے رستے پر ہو لی پر وہ جیسے اسکے ساتھ چپک گیا۔ وہ اسکے پیچھے پیچھے بغیر رکے بولتا چلا گیا۔ وہ اس دوران حیرت میں ڈوبی سوچتی رہی کہ پندرہ روز پیشتر وہ اسے ایک ذہین اور دلچسپ شخص سمجھتی تھی۔ اب اسے احساس ہوا کہ وہ ایک انتہائی بکواسی، شیخی خوردہ، لاف زن، احمق اور مکروہ شخص ہے۔ در حقیقت وہ اسکی بک بک سن ہی نہیں رہی تھی۔ وہ اپنے خیالوں میں گم تھی۔ اس نے تصور میں ہمیشہ کی طرح خود کو جھیل کی طرف پیٹھ کئے بانہیں پھیلائے تالاب کے کنارے کھڑا دیکھا۔ وہ چاہتی تھی کہ ٖادی کزمچ جلد از جلد اس کا پیچھا چھوڑ کر دفع ہو جائے تا کہ وہ اپنے گھر پہنچ سکے۔ جیسے اسکی غیر موجودگی میں جنگل کی جھونپڑی والے شخص کی حفاظت میں کوئی کسر رہ جائے گی۔ وہ کسی غیر کی موجودگی میں اپنے دل میں بھی لینن کا نام نہیں لیتی تھی۔ بلکہ اسے جھونپڑی والے شخص کے طورپر اپنے ذہن میں لاتی تھی۔ وہ لینن کے نام کو اپنے ذہن سے حذف کر دینا چاہتی تھی مبادا کوئی اسکے چہرے سے یہ نام اچک لے۔ جب کزمچ کی زبان پر لینن کا نام آیا تو وہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔
” سنا تم نے، لینن کے بارے میں ؟ پتہ چل گیا ہے وہ کہاں ہے۔ پکڑا گیا ہے شریف آدمی ۔۔۔۔”
وہ لمحہ بھر کے لیے رک گئی۔ کزمچ اسکے ساتھ آملا اور اپنی بے ہودہ مونچھوں والا چہرہ اسکے سامنے کر دیا۔
” سویڈن میں ۔۔۔” اسے چٹخارہ لیتے ہوئے کہا
وہ تیزی سے آگے برح گئی اور وہ پیچھے رہ گیا۔
جونہی وہ اپنے گھر کے سوکھی لکڑیوں سے بنے دروازے کے قریب پہنچی، اسکی رفتار مدھم ہو گئی کہ شاید اب وہ اسکا پیچھا چھوڑ دے ، پر نہیں، شاید اسے امید تھی کہ شراب کا ایک گلاس تو پیش کر ہی دیا جائے گا۔ یا پھر وہ باتیں کرنے کے لیے کسی کا ساتھ چاہتا تھا۔ وہ احاطے میں آگئے۔ اس دوران اس نے اپنی تشویش پر قابو پا لیا تھا۔ اس نے نحیف آواز میں پوچھا، ” وہ سویڈن میں ۔۔۔۔؟ تمہیں کیسے پتہ ۔۔۔؟؟
” سب جانتے ہیں ، وہ آبدوز کشتی میں سوار ہو رہا تھا۔ “
وہ گھر کی ڈیوڑھی میں دھرنا مار کے بیٹھ گیا۔ اس نے جیب سے سگریٹون کی خوشنما رنگوں والی ڈبی سے پتلا سا سگریٹ جو ڈبی سے لمبائی میں چھوٹا تھا، نکال کے ہونٹوں میں لگا لیا۔ نادہژدا نے محسوس کیا کہ اس سے پہلے اس میں اتنی تفصیل سے مشاہدہ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔
کزمش کی ادھر ادھر کی بکواس ے دوران وہ گھر کے اندر چلی گئی۔ ہیٹ اتار کر ، آلووں سے بھرا پیالہ لے کر باہر آگئی اور چولہے کے پاس بیٹھ کر چھیلنے لگی۔ چھوٹے لڑکے شاید ہمسایوں کے ہاں چلے گئے تھے۔ آلو چھیلتے ہوئے وہ یہ سوچ رہی تھی کہ بڑے لڑکوں کو خبردار کرنا پڑے گا کہ ادھر نہ آیئں۔ اتنے اخبار اور وہ بھی مختلف مکاتیب فکر کے ! کہیں فادی کزمچ کو شبہ نہ ہو جائے۔ وہ اٹھ کر آہستہ آہستی چلتی ہوئی دروازے تک گئی۔ جھانک کر سٹیشن کو جاتی سڑک پر نظریں دوڑایئن۔ سڑک ویران تھی۔ وہ پلٹ آئی۔
” نکولائی کہاں ہے ؟ فیکٹری گیا ہے ؟” کزمچ نے پوچھا۔
” چھٹی پر ہے، اس نے گھاس کاٹنے کی ایک الاٹمنٹ ٹھیکے پر لے رکھی ہے۔ “
” واقعی ؟ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد اسے یہی گھاس کھانے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ جرمن جاسوس، روس کو اس حالت پر پہنچا کردم لیں گے۔۔۔۔”
” ہم گائے خرید رہے ہیں ۔۔۔ “
واہ واہ۔ بہت اچھی بات ہے۔ یہ ہوئی ناکام کی بات ! اور تم یہ گھر بند کر کے چھپر میں کیوں رہ رہی ہو ؟ اس مرتبہ لوگ چھٹیاں گزارنے یہاں نہیں آئے ؟ “
ہم جگہ ٹھیک کر رہے ہیں ۔۔۔”
” خود کر رہے ہو یا مزدور لگا رکھے ہیں۔۔۔”
” ہم خود کر رہے ہیں۔۔۔۔” پھر وہ دروازے تک جا کے پلٹ آئی، ” تم جھیل پر جا کر نکولائی سے کیوں نہیں مل لیتے۔ ہم نے اپنی کشتی بھی بنا رکھی ہے۔ “
وہ جانتی تھی کہ جھیل کے ذکر سے کزمچ کی حالت مرنے والی ہو جاتی تھی۔ اس نے کسی جھیل کے کنارے پر نہانے کا کبھی خطرہ مول نہیں لیا تھا، ۔۔۔” کشتی میں چپو بھی نہیں ہیں۔۔۔”
” نہیں۔ نہیں۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں۔۔۔”
وہ بڑے کاروباری انداز میں اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ مطمئن سی ہو گئی کہ اب اس سے پیچھا ثھوٹ جائے گا۔ عین اسی لمحے یمیلیانووف آتا دکھائی دیا۔ وہ اپنے کندھے پر آلووں کی بوری ڈالے تالاب کی جانب سے آ رہا تھا۔ وہ ڈیوڑھی میں کسی کو بیٹھا دیکھ کر ٹھٹھک گیا، الٹے پاوں لوٹنے ہی والا تھا کہ کزمچ کی نظر پڑ گئی۔
” آہ۔ ایک مدت سے تمہارے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی ” اس نے بلند آواز سے کہا، ” سنا ہے گھاس کاٹ رہے ہو۔۔۔”
” ہاں۔ کچھ ایسا ہی ہے۔۔”
” خوب خوب۔ تو جناب لینن پکڑا گیا ہے ۔۔۔”
یمیلینووف گم سم ہو کر رہ گیا،اس نے بوری زمین پر رکھتے ہوئے کہا، ” کان لینن ؟ “
” کون لینن۔۔۔ بھئی وہی تمہارے والا ۔۔۔۔ سویڈن میں دھر لیا گیا۔۔۔”
” نادا ۔۔۔ منہ ہاتھ دھونے کے لیے پانی لانا۔۔۔”
” وہاں ریستورانوں میں کسی کو مدعو کر لیتا تھا۔ ژیخی باز۔ آگ دکھانے کے لیے اسکے پاس کافی نوٹ تھے۔۔۔”
” نادا ۔۔۔ تولیہ دینا۔۔۔” تو وہ بہت امیر آدمی ہے۔۔۔؟؟
” تم کیا جانو۔ وہ تو پیٹروگراڈ میں گلچھرے اڑاتا تھا۔۔”
” نادا۔۔۔ یہ کھیرے کافی بڑے ہو گئے ہیں۔ انہیں اب توڑ لو۔۔۔۔۔۔ تو وہ سویڈن میں ہے۔ ہے نا ؟ میں نے تو سنا ہے وہ جہاز میں سوئٹزرلینڈ فرار ہو گیا ہے۔۔۔”
” نہیں جی۔ آپ کیا بات کر رہے ہیں جناب۔ وہ آبدوز کشتی میں سویڈن گیا تھا۔ یہ حقیقت ہے۔ سٹاک ہوم کے بازاروں میں چاندی کی مٹھی والی چھڑی لیے گھومتا تھا۔ اس چھڑی کے اندر تلوار چھپا رکھی تھی اس نے۔ فرانسی کویئک مارتل کے علاوہ کسی شراب کو ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا۔۔۔”
” حیرت ہے ۔۔۔۔ نادا۔۔۔ ایک صاف قمیض تو مجھے دو۔۔۔”
“۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ صرف مہنگے سگریٹ پیتا ہے۔ سات روبل کے سو والے، بوگ رانوف سگریٹ، جو صرف گاہک کے کہنے پر بنائے جاتے ہیں۔ ۔۔۔ “
” صرف بوگرانوف سگریت ؟ “
” ہاں۔ ۔۔۔۔ پر تم اسکے ساتھیوں میں سے نہیں تھے ؟ تو تم نے اسے چھوڑ دینا ہی بہتر سمجھا۔ “
” تم کیسی باتیں کرتے ہو۔ میں تو صرف اپنے لیے ہوں۔۔۔۔”
” چھوڑو۔ میں سب جانتا ہوں ۔۔۔”
” میری اور بھی پریشانیاں ہیں بھائی صاحب۔۔۔ میں گائے خریدنے جا رہا ہوں۔۔۔”
” میں بھی چلوں تمہارے ساتھ۔ میں بہت اچھا سودا کر لیتا ہوں۔ تم سے بہتر۔ آخر میں کاروباری آدمی ہوں۔ تمہارے ۔۔۔۔ دنیا بھر کے مزدورو ایک ہو جاو ۔۔۔۔ والوں میں سے نہیں ہوں۔ میں اس سے پچاس فیصد تو چھڑا ہی لوں گا۔ اور بیچنے والا ہمیں گھر کی بنی شراب بھی پلائے گا۔۔۔۔”
” نہیں میں معذرت چاہتا ہوں۔ آو چلو ندا ۔”
” جیسی تمہاری مرضی۔۔۔”
کزمچ نے مایوسی سے اپنا سگریٹ کا ٹکرا پھینک دیا اور آکر کار چلا ہی گیا۔