چور ۔۔۔ دستو فسکی
چور
فیودور دوستو وسکی
دو سال کی بات ہے۔ اس وقت میں
ایک نواب کے ہاں ملازم تھا۔ سارے گھر کی دیکھ بھال میرے ذمے تھی۔ نواب صاحب چند
روز بعد اپنی املاک دیکھنے باہر جانے والے تھے۔ میں جانتا تھا کہ ادھر نواب صاحب
روانہ ہوئے اور ادھر مجھے ملازمت سے جواب ملا۔ اللہ ہی جانے پھر کیسے گزارہ ہو گا؟
قریب کے ایک شراب خانہ میں انہی دنوں مجھے ایک شخص عاملین ملا۔ وہ بہت غریب اور بے
یار و مددگار تھا۔ کبھی وہ بھی کسی جگہ ملازم تھا مگر پینے پلانے کی وجہ سے نکال
دیا گیا تھا۔ ان حرکتوں کی وجہ سے اسے یاد رکھتا بھی کون؟ جو مل گیا پہن لیا۔ کبھی
کبھی تو مجھے بھی شبہ ہوتا کہ اس کے بوسیدہ لبادے کے نیچے قمیص ہے بھی یا نہیں۔ جو
چیز بھی اس کے ہاتھ میں آ جاتی اسے بیچ کر شراب پی جاتا۔ مگر شراب پینے کے بعد وہ
اودھم نہیں مچاتا تھا۔ بالکل نہیں، وہ بڑی اچھی اور شریف طبیعت کا آدمی تھا۔ ہر
ایک سے اچھی طرح اور محبت سے پیش آتا تھا۔ کبھی کسی سے کچھ نہ مانگتا تھا۔ اس
معاملے میں وہ بڑا حساس تھا بغیر اس کے کچھ مانگے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ اب
بیچارہ پینے کے لئے مرا جا رہا ہے۔ اس کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی اور کوئی نہ
کوئی اسے پلا دیتا تھا۔ خیر تو ہم دونوں دوست بن گئے اور ایک چھوٹے کتے کی طرح وہ
میرے ساتھ لگ گیا۔ اب جدھر جاؤ ساتھ ہے۔ پہلی ہی ملاقات کے بعد یہ کیفیت ہو گئی۔
اس رات کو بھی وہ میرے ساتھ ہی
رہا۔ اس کے پاسپورٹ میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں تھی اور وہ خود بھی ٹھیک ہی
تھا۔ دوسری رات بھی ساتھ ہی گزری۔ تیسری رات کو بھی اس نے میرا گھر نہ چھوڑا۔ اگلے
دن برآمدے کی کھڑکی میں سارا دن بیٹھا رہا اور وہیں رات بھی گزار دی۔ میں نے دل
میں کہا “دیکھا! ہتھیا دی ہے اس نے۔ اب تمہیں اسے کھلانا پڑے گا اور رہنے کی
جگہ دینی ہو گی۔ غریب آدمی کو تو بس یہ چاہیے کہ کوئی نہ کوئی اس کی دیکھ بھال
کرتا رہے۔
تھوڑے ہی دنوں میں مجھے معلوم
ہو گیا کہ ایک دفعہ پہلے بھی وہ کسی اور سے اسی طرح وابستہ ہو گیا تھا جس طرح اب
مجھ سے ہوا ہے۔ دونوں ساتھ پیتے تھے مگر وہ کسی غم کی وجہ سے گھل گھل کر جلدی مر
گیا۔ میں سوچتا رہا۔ اس کا کیا علاج کروں؟ نکال دوں گھر سے باہر؟ میرا دل نہیں
مانتاا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر مجھے بڑا افسوس ہوتا تھا۔ اس قدر زبوں حال اور
دھتکارا ہوا کہ میں اسے دیکھ کر کانپ جاتا تھا۔ اور پھر ایسا بے زبان کہ اپنے منہ
سے کچھ نہ مانگتا تھا۔ خاموش بیٹھا بس میری آنکھوں کو تکے جاتا جیسے کوئی بڑا ہی
وفادار کتا ہو۔ شراب سے انسان اس حد تک برباد ہو جاتا ہے! پھر میں نے اپنے جی میں
کہا۔ فرض کرو میں اگر اس سے کہوں “یہاں سے نکل جاؤ عاملین! یہاں تمہارا کوئی
کام نہیں ہے۔ تم نے میرے پاس آنے میں غلطی کی ہے۔ میرے پاس تو خود کھانے کو نہیں
ہے، بھلا تم یہ کیسے توقع رکھتے ہو کہ میں تمہیں بھی کھلاتا رہوں گا؟” پھر
میں نے سوچنا شروع کیا کہ میرے اس کہنے کے بعد وہ کیا کرے گا۔ اور میں سمجھ سکتا
تھا کہ میری بات سننے کے بعد وہ دیر تک مجھے تکتا رہے گا اور اس کی سمجھ میں میرا
ایک لفظ بھی نہیں آئے گا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کی سمجھ میں آ جائے گا کہ میں کیا کہہ
رہا ہوں۔ اور کھڑکی میں سے اٹھ کر اپنا چھوٹا سا پلندا اٹھائے گا۔ جھپر جھپر لال
کپڑے میں لپٹا ہوا۔ نہ جانے اس میں کیا کیا لپٹا ہوا تھا، جہاں بھی جاتا اسے اپنے
ساتھ لے جاتا۔ اپنے گلے ہوئے لبادے کو جھاڑ پونچھ کر اس طرح پہنے گا کہ اس کے
سوراخ اور پیوند کم سے کم دکھائی دیں۔ آدمی وہ نازک احساسات کا تھا۔ پھر وہ آنکھوں
میں آنسو بھر کر دروازہ کھولے گا اور چلا جائے گا۔
تو پھر کیا ایک آدمی کو بالکل
ہی مر جانے دیا جائے؟ مجھے ایک دم سے اس پر بہت ہی ترس آیا۔ مگر اس کے ساتھ دل میں
یہ خیال بھی آیا کہ آخر میں کیا کروں گا؟ کیا میری حالت اس سے بہتر ہے؟ پھر دل ہی
دل میں کہا “اچھا عاملین! تم زیادہ عرصے تک تو میرا سر نہیں کھا سکو گے۔ مجھے
خود یہاں سے عنقریب نکلنا ہے۔ اس کے بعد تمہیں میرا پتہ بھی نہیں چلے گا۔
“نواب صاحب اپنی املاک کے معائنہ کے لئے تھوڑے دنوں بعد ہی چلے گئے اور جاتے
وقت مجھ سے کہہ گئے کہ “ہم تمہارے کام سے بہت خوش ہیں۔ جب ہم یہاں واپس آئیں
گے تو تمہیں رکھ لیں گے۔” نواب صاحب بہت اچھے آدمی تھے مگر اسی سال ان کا
انتقال ہو گیا۔
نواب صاحب اور ان کے خاندان
والوں کو چھوڑنے میں تھوڑی دور تک ساتھ گیا۔ انہیں رخصت کر کے واپسی پر اپنا سامان
سمیٹا۔ جو کچھ پس انداز کیا تھا اسے لے کر وہاں سے چلا اور ایک بڑی بی نے اپنے
کمرے کا ایک گوشہ کرایہ پر دے دیا تھا، اس میں رہنے لگا۔ یہ بڑی بی کسی اونچے
گھرانے میں دایہ تھیں۔ جب بہت ضعیف ہو گئیں تو انہیں وظیفہ دے کر علیحدہ کر دیا
گیا تھا۔ میں نے دل میں کہا “لو دوست
عاملین، تم سے رخصت ہونے کا وقت آ پہنچا۔ اب تم مجھے نہیں پاؤ گے۔”
اور صاحب پھر کیا ہوا؟ جب میں
شام کو گھر واپس آیا تو دیکھتا ہوں کہ میرے ٹرنک پر اپنی لال گھٹھڑی لئے عاملین
بیٹھے ہیں۔ وہ اپنے بوسیدہ لبادے میں لپٹے لپٹائے میرے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔
اس نے بڑی تنہائی محسوس کی ہو گی جبھی تو بڑی بی سے اس نے دعاؤں کی کتاب مانگی
تھی۔ مگر کتاب الٹی پکڑ رکھی تھی۔ اس نے آخر میرا پتہ چلا ہی لیا تھا۔ میرے ہاتھ
بے جان ہو کر لٹک گئے۔ لو بھئی، اب اس کا کوئی علاج نہیں۔ میں نے اسے پہلے ہی کیوں
نہ نکال دیا؟ میں نے اس سے پوچھا بھی تو کیا۔ “عاملین، تم نے اپنا پاسپورٹ لے
لیا تھا؟” اس کے بعد میں بیٹھ گیا اور اس معاملہ پر غور کرتا رہا۔ یہ ایک
گھومنے پھرنے والا آدمی ہے کیا یہ میرے کاموں میں حائل ہو گا؟ جب میں اس پہلو پر
خوب غور کر چکا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ حائل نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ مجھ پر
کچھ ایسا زیادہ بار بھی نہیں ہو گا۔ اس میں شک نہیں کہ اسے کھلانا پڑے گا۔ لیکن یہ
ایسا کون سا بڑا خرچ تھا! صبح کو ذرا سی روٹی اور پیاز کی آدھی ڈلی۔ دوپہر کو پھر
روٹی اور پیاز اور رات کے لئے پھر روٹی اور پیاز اور رائی کا ٹھرا۔ اور اگر مل گیا
تو بند گوبھی کا شوربہ، چلو دونوں کا پیٹ ناکوں ناک بھر جائے گا۔ میں کم خوراک
ہوں۔ عاملین پینے پلانے والا آدمی ہے، وہ کھاتا ہی کتنا ہو گیا؟ اسے تو صرف سستی
شراب ملنی چاہیے۔ اس کا پینا میرا کام تمام کر دے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایک عجیب طرح
کا احساس مجھ پر طاری ہونے لگا کہ اگر عاملین چلا گیا تو میری زندگی میرے لئے وبال
ہو جائے گی۔ اس لئے میں نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اس کا محسن بن جاؤں۔
میں اسے اس کے پیروں پر کھڑا کر دوں گا۔ اسے برباد ہونے سے بچاؤں گا اور رفتہ رفتہ
شراب بھی چھڑا دوں گا۔ دل میں میں نے کہا۔ “رہ جاؤ بیٹا ذرا تم میرے پاس،
عاملین! جو کچھ میں کہوں گا اسے سنو۔ میرا حکم مانو۔”
میں نے سوچا کہ پہلے اسے کوئی
کام سکھاؤں گا۔ مگر فوراً ہی نہیں۔ ذرا وہ غریب پہلے آرام کر لے۔ اس عرصے میں میں
تلاش کروں گا اور معلوم کروں گا کہ اس کے لئے آسان سے آسان کام کیا ہو سکتا ہے۔
کام بھی ایسا ہو جسے وہ کر سکے کیوں کہ ہر کام کرنے کے لئے آدمی میں اس کے کرنے کی
صلاحیت ہونی چاہیے۔ اور میں نے چپکے چپکے اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ عاملین
تو بڑا عجیب نکلا۔ میں نے پہلے چاہا کہ میٹھی میٹھی باتیں کر کے اس کے دل کا
بھید لوں، مثلاً میں نے اس سے کہا “دیکھنا عاملین! تم ذرا اپنا خیال رکھا کرو
اور وقت گزارنے کے لئے تھوڑا بہت کام کیا کرو۔”
“پینا چھوڑ دو۔ ارے
بھئی ذرا اپنا حلیہ تو دیکھو۔ چیتھڑے لٹک رہے ہیں۔ تمہارا لبادہ چھلنی ہو رہا ہے۔
یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ اب تمہیں ہوش میں آنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ پانی
سر سے اونچا ہو رہا ہے۔”
عاملین سر جھکائے میری باتیں
سنتا رہا۔ وہ اس حالت کو پہنچ چکا تھا جب شراب کا اثر زبان پر ہو جاتا ہے اور منہ
سے کوئی معقول بات نہیں نکلتی۔ آپ کھیت کی کہئے تو وہ کھلیان کی سنتا ہے۔ وہ سنتا
رہا۔ دیر تک چپکا سنتا رہا اور پھر اس نے ایک لمبا ٹھنڈا سانس بھرا۔ میں نے اس سے
پوچھا۔ “ٹھنڈا سانس کس بات پر لے رہے ہو؟”
“کچھ نہیں اصطفی۔
تم گھبراؤ نہیں۔ آج کا ایک واقعہ یاد آ گیا تھا اصطفی! دو عورتیں لڑ رہی تھیں۔
اتفاق کی بات کہ ایک سے دوسری کا ٹوکرا الٹ گیا۔ اور جنگلی بیر بکھر گئے۔”
“اچھا تو پھر؟”
“اور اس عورت نے جس
کے بیر گر گئے تھے دوسری عورت کے ہاتھ سے اس کا ٹوکرا چھین کر سارے بیر زمین پر
گرا دئے اور پھر یہ کیا کہ ان سب بیروں کو کچل ڈالا۔”
“اچھا تو پھر
عاملین، پھر اس سے کیا؟”
میں نے دل میں کہا
“عاملین! اس لعنتی شراب نے تمہارے حواس خراب کر دئے کہیں۔”
اس کے بعد عاملین نے پھر کہا۔
“اور یہ ہوا کہ ایک نواب نے گوروبازار میں دیکھا کہ اس کی جیب میں جو نوٹ
رکھے تھے وہ کہیں گر گئے ہیں۔ ایک اور شخص نے جیب میں سے گرتے انہیں دیکھ لیا تھا
“یاقسمت” کہہ کر اس نے گدی اٹھانی چاہی کہ ایک آدمی اس سے بھڑ گیا اور
بولا “نہیں، یہ میری قسمت کے ہیں۔ میں نے انہیں پہلے دیکھا ہے۔۔۔۔۔”
“پھر عاملین؟”
“اور ان دونوں
آدمیوں نے لڑنا شروع کر دیا۔ اصطفی! اس پر طرہ یہ ہوا کہ ایک پولیس والا آیا اور
اس نے گڈی اٹھا کر نواب کے حوالے کر دی اور ان کو دھمکایا کہ اگر زیادہ شور مچاؤ
گے تو ابھی تم دونوں کو حوالات میں بند کر دوں گا۔”
“اچھا تو پھر اس سے
کیا ہوا؟ عاملین! آخر اس میں ایسی کون سی عجوبہ یا حیرت ناک ہے؟”
“بات تو خیر کوئی
نہیں لیکن لوگ ہنسنے لگ، اصطفی!”
میں نے کہا۔ “عاملین!
لوگوں کو اس سے کیا غرض؟ تم نے اپنی لافانی روح کو ٹکے میں بیچ ڈالا۔ مگر کیا
تمہیں معلوم ہے میں تم سے کیا کہنے والا ہوں؟”
کیا اصطفی؟”
“بہتر یہی ہے کہ تم
کوئی کام کرو۔ تمہیں کچھ نہ کچھ کرنا ہی چاہیے۔ میں تم سے سینکڑوں بار کہہ چکا ہوں
کہ تمہیں اپنے اوپر رحم کرنا چاہیے۔”
“مگر اصطفی! میں
آخر کروں تو کیا کروں؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کام کہاں سے شروع کروں۔ اور
اصطفی! مجھے کوئی نوکر نہیں رکھے گا۔”
“عاملین! تمہیں اسی
وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا۔ یہ سب پینے پلانے کی بدولت ہے۔”
عاملین نے کہا۔ “اور آج
انہوں نے مے فروش کو دفتر میں بلایا تھا۔”
میں نے پوچھا۔ “اسے کیوں
بلایا تھا عاملین؟”
“مجھے معلوم نہیں
کیوں بلایا اصطفی! شاید اس کی ضرورت ہو گی، اس لئے بلایا ہو گا۔”
میں نے اپنے دل میں کہا۔
“کچھ نہیں جی! ہم دونوں کسی اچھے نتیجے پر پہنچیں گے۔ یہ تو ہمارے گناہوں کی
وجہ سے اللہ ہمیں سزا دے رہا ہے۔”
بھلا ایسے آدمی کے ساتھ کوئی
کیا کر سکتا ہے!
مگر صاحب! وہ تھا بڑا چالاک،
وہ میری باتیں سنتا رہا، سنتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ معلوم ہونے لگا کہ وہ میری باتوں
سے اکتا رہا ہے۔ جیسے ہی اس نے بھانپا کہ مجھے تاؤ آنے والا ہے اس نے چپکے سے اپنا
لبادا سنبھالا اور کھسک گیا۔ اس کے بعد وہ سارا دن دکھائی نہیں دیا۔ شام کو پھر
واپس آ گیا۔ نشے میں دھت، نوابوں کی طرح مست۔ اسے شراب کس نے پلائی؟ پینے کے لئے
اس کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ میں نے تو اسے ایک کوڑی بھی
دی۔
میں نے اس سے کہا “سنتے
ہو عاملین؟ تمہیں شراب ضرور چھوڑنی پڑے گی۔ اب کے اگر تم پی کے آئے تو مہیں زینے
میں سونا پڑے گا۔ میں تمہیں اندر نہیں آنے دوں گا۔”
اس کے بعد دو دن تک عاملین گھر
ہی رہا۔ تیسرے دن وہ پھر چپکے سے کھسک گیا۔ میں اس کی راہ تک رہا ہوں، مگر وہ ہے
کہ آتا ہی نہیں۔ سچی بات ہے، میں تو ڈر گیا۔ اس کے علاوہ مجھے بڑا رنج ہو رہا تھا
کہ نہ جانے اس پر کیا گزری؟ میں اس غریب کے سر خوامخواہ کیوں ہو گیا! ضرور وہ مجھ
سے ڈر کر بھاگ گیا۔ نہ جانے وہ بدنصیب کہاں ہو گا؟ یا اللہ! کہیں وہ مر جائے! رات
گزر گئی اور وہ نہیں آیا۔ صبح کو میں نے بڑے کمرے میں جا کر دیکھا وہ نیچے سیڑھی
پر سر رکھے پڑا اور سردی سے اکڑا ہوا ہے۔
“کیا ہو گیا تمہیں
عاملین؟ اللہ تم پر رحم کرے۔ یہاں کیوں پڑے ہو تم؟”
اس نے کہا “مگر تم تو
جانتے ہو اصطفی! کہ اگلے دن مجھ سے ناراض ہو گئے تھے۔ میں نے تمہیں غصہ دلا دیا۔
تم نے کہا تھا، میں تمہیں اندر نہیں آنے دوں گا۔ اس لئے مجھ میں ۔۔۔۔۔ میجھ میں
ہمت نہیں تھی کہ اندر آ جاؤں۔ اور یہیں پڑ رہا۔”
مجھے اس پر غصہ بھی آ رہا تھا
اور ترس بھی۔ میں نے کہا ۔ “تمہارے لئے یہ بہتر ہو گا عاملین! کہ تم کوئی بہتر
کام تلاش کرو۔ بجائے اس کے کہ پڑے سیڑھیوں کو بے ضرورت تکتے رہو۔”
مگر کام آخر کیا کروں؟ اصطفی!”
مجھے ایک دم سے غصہ آ گیا۔
“کم بخت درزی کا کام سیکھ لے۔ ذرا اپنے لبادے کو تو دیکھ، لنجارے پڑے ہوئے
ہیں اس میں اور بیریاں لگ رہی ہیں۔ اتنا تو تم کر سکتے ہو کہ سوئی لے کر اسے ٹھیک
کرلو۔ ذرا تو اس کی شکل بن جائے۔ بس شراب میں دھت ہونا آتا ہے، اور کچھ نہیں۔”
تو صاحب! پھر بھلا کیا ہوا؟ اس
نے سوئی سنبھالی۔ میں نے تو یونہی چڑانے کو کہا تھا۔ اس نے سچ مچ سوئی سنبھال لی
مارے ڈر کے، اس نے اپنا لبادہ اتار کر وہ پھینکا اور لگا سوئی میں تاگہ پرونے۔
نتیجہ ظاہر ہے اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا اور دیدے سرخ ہونے لگے۔ ہاتھ
کپکپانے لگے۔ وہ تاگے کو بار بار پروتا مگر ناکے میں تاگہ نہیں گیا۔ اس نے تاگے کو
منہ سے تر کیا، مروڑیاں دیتا رہا، اسے سیدھا کیا مگر سوئی نہیں پروئی گئی۔ آخر اس
نے سوئی تاگہ دور پھینکا اور مجھے تکنے لگا۔
میں نے کہا۔ “اچھا کیا تم
نے عاملین! اگر تمہیں کوئی تاگہ پروتے دیکھ لیتا تو میں مارے شرم کے مر جاتا۔ میں
نے تو مذاق میں تم سے کہا تھا اور اس لئے بھی مجھے تم پر غصہ آ رہا تھا۔ خیر،
چھوڑو اس سینے پرونے کو۔ اللہ تمہیں گناہوں سے بچائے۔ تم کچھ نہ کرو۔ بس بیہودگی
سے دور رہو۔ اور زینے میں مت سوؤ کہ مجھے بعد میں شرمندہ ہونا پڑے۔”
“مگر میں کروں کیا
آخر، اصطفی؟ میں اپنے آپ کو جانتا ہوں کہ میں ہمیشہ نشے میں رہتا ہوں اور مجھ سے
کوئی کام نہیں ہوتا۔ اور میں تمہیں، اپنے مح۔۔۔۔۔ محسن کو بلا وجہ ناراض کر دیتا
ہوں۔”
بس صاحب! اور کہنا کیا باقی رہ
گیا؟ یہ سارا واقعہ ہی اس قدر غیر ضروری اور خفیف ہے کہ اس کا ذکر کرنا اور پر وقت
ضائع کرنا ہے۔ مثلاً جناب اس کے دو ٹکے بھی نہ دیں، مگر میرے نزدیک اس کی قیمت
زیادہ ہے۔ اگر میرے پاس کچھ ہو تو میں سب کچھ دے دوں اور وہ بات نہ ہونے دوں جو ہو
گئی۔ بات یہ ہوئی کہ میری ایک برجس تھی نیلے رنگ کی اور اس پر بٹنکیاں پڑی ہوئی
تھیں۔ بڑے اعلیٰ درجے کی چیز تھی۔ خدا غارت کرے، ایک بڑآ زمیندار یہاں آیا تھا۔ اس
نے مجھ سے سلوائی تھی۔ مگر جب وہ تیار ہو گئی تو زمیندار نے کہا یہ تو بہت تنگ ہے۔
وہ چھوڑ کر چلا گیا۔ اور پھر لینے نہیں آیا۔
میں نے سوچا کپڑا تو اعلیٰ
درجے کا ہے۔ اگر میں اسے گدڑی بازار میں بھی بیچوں تو اچھی قیمت مل جائے گی۔ ورنہ
اس میں سے ایک اچھی پتلون نکل آئے گی جسے کوئی شہری ہاتھوں ہاتھ لے گا۔ اور ایک
ٹکڑا میری واسکٹ کے لئے بچ رہے گا۔ غریب کے لئے تو کوئی چیز بےکار نہیں ہوتی۔
عاملین اس وقت بہت زدہ حال ہو رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے شراب خوری چھوڑ دی
تھی۔ ایک دن گزرا، دوسرا گزرا، تیسرا گزرا، وہ بڑا مایوس سا دکھائی دے رہا تھا۔
مجھے خیال آیا کہ اس کی یہ
حالت اس وجہ سے ہے کہ اس کے پاس پینے کے لئے پیسہ نہیں ہے۔ یا پھر اس کی عقل نے اس
کا ساتھ دیا ہو گا۔ اور وہ راہِ راست پر آ گیا۔
قصہ مختصر، ایک ضروری چھٹی کا
دن آ گیا اور میں شام کو دعا خوانی میں چلا گیا۔ جب گھر لوٹا تو میں نے دیکھا کہ
عاملین خوب پئے پلائے نوابوں کی طرح بیٹھے ہیں۔ میں نے جی میں کہا تو جناب یہ کر
کے آئے ہیں؟ اور میں نے کچھ نکالنے کے لئے اپنا ٹرنک کھولا۔ لو! وہ برجس غائب ہے؟
ادھر دیکھا، ادھر دیکھا، کہیں نہیں۔
جب میں نے اسے سارے کمرے میں
تلاش کر لیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ برجس غائب ہو گئی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ
سن سے کوئی چیز میرے سارے جسم میں دوڑ گئی۔ میں نے بڑی بی کا رخ کیا۔۔۔۔۔ رہا
عاملین، ہر چند کہ اس کے پئے ہونے سے اس کے خلاف بہت کچھ ثابت ہو رہا تھا مگر نہ
جانے میرا خیال اس کی طرف کیوں نہیں گیا۔
بڑی بی نے کہا۔ “لو خدا
نہ کرے۔ بھلے آدمی میں بھلا برجس کا کیا کروں گی؟ کیا میں اسے پہنوں گی؟ کل میرا
گھاگرا خود جاتا رہا۔ اب تک اس کا پتہ نہیں چلا۔”
میں نے پوچھا۔ “کوئی آیا
تو نہیں تھا؟”
بڑی بی نے کہا۔ “یہاں تو
کوئی بھی نہیں آیا۔ میں گھر سے باہر نکلی ہی نہیں۔ تمہارا دوست ذرا سی دیر کے لئے
باہر گیا تھا۔ پھر واپس آ گیا۔ وہ بیٹھا ہے اس سے کیوں نہیں پوچھتے؟”
“تم نے تو کسی کام
سے عاملین میرے ٹرنک میں سے برجس نہیں نکالی؟ وہ جو تمہیں یاد ہو گی ایک زمیندار
نے بنوائی تھی۔ وہ بولا۔ “نہیں اصطفی! میں نے نہیں لی۔”
“تو پھر وہ گئی
کہاں؟” اور میں نے پھر اسے تلاش کرنا شروع کر دیا مگر بےسود۔ اور عاملین
کھڑکی میں بیٹھا نشے میں جھوم رہا تھا۔
میں زمین پر گھٹنے ٹیکے عاملین
کے بالکل سامنے جھکا ہوا ٹرنک دیکھ رہا ھتا۔ میں نے ایک دم سے کنکھیوں سے اسے
دیکھا۔ میرا دل جل رہا تھا اور چہرہ تمتما رہا تھا۔ ایکا ایکی اس سے آنکھیں چار ہو
گئیں۔
“عاملین نے کہا۔
“نہیں اصطفی! تم شاید یہ سمجھ رہے ہو کہ میں۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ۔۔۔۔۔ تم
سمجھ گئے ہو گے۔۔۔۔۔ مگر میں نے نہیں لی۔۔۔۔۔””پھر آخر وہ گئی کہاں
عاملین؟”
ا س نے کہا۔ “نہیں اصطفی،
میں نے تو اسے دیکھا تک نہیں۔”
“اچھا تو کیا تم
سمجھتے ہو کہ وہ خود کہیں جا کر کھو گئی، کیوں عاملین؟”
“ہو سکتا ہے یہی
ہوا ہو اصطفی۔”
اس کے بعد اس سے کچھ کہنا
بےکار تھا۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹرنک میں قفل لگایا اور لیمپ جلا کر اپنا کام لے
بیٹھا۔ میں ایک سرکاری کلرک کی واسکٹ دوبارہ ٹھیک کر رہا تھا۔ وہ نچلی منزل ہی میں
رہتا ھتا۔ مگر میرا دماغ پراگندہ ہو رہا تھا۔ خیال آیا کہ اس سے اچھا یہ تھا کہ آگ
لگ جاتی اور میرا سارا سامان جل کر راکھ ہو جاتا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عاملین
کو میرے غصہ کا احساس ہو رہا تھا۔ جب دل میں چور ہو تو یہی حال ہوتا ہے۔ اسے پہلے
سے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب کوئی آفت آنے والی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چڑیوں کو
معلوم ہو جاتا ہے کہ اب طوفان آنے والا ہے۔
“اور بھی کچھ سنا
تم نے اصطفی! ڈاکٹر نے کوچ بان کی بیوہ سے شادی کر لی؟”
یہ بات اس نے ایک دم سے کہہ
دی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا مگر شاید اتنے غصے سے کہ وہ سمجھ گیا۔ وہ اپنی جگہ سے
اٹھا۔ میرے بستر کے قریب گیا اور اسے ٹٹولنے لگا۔ آپ ہی آپ کہتا جاتا تھا۔
“آخر کہاں؟ غائب ہو گئی جیسے شیطان اڑا لے گیا ہو۔”
میں چپکا بیٹھا رہا کہ دیکھو
ابھی اور کیا کرتا ہے۔ بچارا عاملین میری چارپائی کے نیچے گھس گیا۔ اب مجھ سے ضبط
نہ ہو سکا۔
میں نے کہا ۔ “دیکھو جی،
تم چارپائی کے نیچے کیوں گھسے ہو؟”
عاملین نے چارپائی کے نیچے ہی
سے کہا۔ “میں برجس ڈھونڈ رہا ہوں اصطفی! شاید اس کے نیچے کسی طرح پہنچ گئی
ہو۔”
مگر جناب! آپ مجھ غریب کی خاطر
اس طرح اپنے آپ کو زحمت کیوں دے رہے ہیں؟ خوامخواہ اپنے گھٹنے میلے کر رہے ہیں۔”
غصہ میں اس سے میں آپ جناب سے
باتیں کر رہا تھا گویا وہ بھی کوئی صاحب تھے۔
“مگر اصطفی میرا
اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ اس کے نیچے تلاش کیا جائے تو
شاید مل جائے۔”
“ہوں! ذرا ایک بات
میری سنو عاملین!”
“کیا اصطفی؟”
مارے غصے کے میرا برا حال ہو
رہا تھا۔ چارپائی کے نیچے وہ اس لئے گھس رہا تھا کہ جو چیز وہ جانتا تھا کہ وہاں
نہیں ہے اسے تلاش کرے۔ میں نے چٹخ کر کہا۔ “کیا تم نے بدمعاش چور کی طرح اسے
نہیں چرایا اور یوں میرے نان و نمک کا بدلہ تم نے مجھے دیا؟ سیدھی بات کیوں نہیں
کرتے؟”
“نہیں اصطفی”
اور وہ دیر تک چارپائی کے نیچے پڑا رہا۔ پھر وہ ایکا ایکی رینگ کر باہر نکل آیا
اور میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔ میری آنکھوں میں اب بھی اس کی تصویر پھر رہی ہے۔
گناہ مجسم کی طرح بھیانک۔
اس نے کپکپاتی آواز میں کہا۔
“نہیں۔” وہ سر سے پاؤں تک لرز رہا تھا اور اپنی انگلی سے اپنے سینے کی
طرف اشارہ کر رہا تھا۔ میں کچھ ایسا مبہوت ہو گیا کہ کھڑکی کے قریب بیٹھا کا بیٹھا
رہ گیا۔ “میں نے تمہاری برجس نہیں لی، اصطفی!”
میں نے کہا۔ “اچھا
عاملین! مجھے معاف کر دو کہ میں نے تم پر چوری کا الزام لگایا۔ رہی برجس، تو چلو
اسے غارت کرو۔ ہم بغیر اس کے ہی زندہ رہیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس اپنے
ہاتھ ہیں اور ہمیں چوری کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اب بھی ہمیں کسی غریب کو
دھوکہ دینے کی ضرورت نہ ہو گی۔ ہم اپنی روزی آپ کمائیں گے۔”
عاملین کچھ دیر تک میرے سامنے
کھڑا رہا۔ میری باتیں سنتا رہا۔ پھر وہ بیٹھ گیا اور بے حس و حرکت رات گئے بیٹھا
رہا۔ جب میں سونے کے لئے لیٹا تو وہ اس وقت بھی بیٹھا ہوا تھا۔
صبح کو جب میں جاگا تو دیکھا
کہ وہ اپنا لبادہ لپیٹے زمین پر پڑا سو رہا ہے۔ اسے اتنی خفت ہوئی تھی کہ اپنے
بستر پر جا کر سو رہنے کو بھی اس کا جی نہ چاہا۔
تو صاحب اس دن مجھے اس شخص سے
شدید نفرت ہو گئی۔ شروع شروع میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے لڑکے ہی نے میری
چوری کی ہو اور مجھے سخت متنفر کر دیا ہو۔ مجھے ہر وقت عاملین ہی کا خیال آتا
رہتا۔ اور صاحب عاملین تھا کہ دو ہفتے کے لئے اپنا غم غلط کرتا پھرا۔ صبح سے شام
تک جانوروں کی طرح پیتا اور پورے دو ہفتے اس نے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ شاید
اسے کوئی گہرا غم کھائے جا رہا تھا یا پھر وہ اس طرح اپنی زندگی ختم کرنا چاہتا
تھا۔ آخر تھک کر اس نے شراب چھوڑ دی۔ شاید اس کے پاس ٹھرا خریدنے کے لئے کچھ بھی نہ
رہا تھا۔۔۔۔۔ جو کچھ بھی اسے ملا سب کی شراب پی گیا۔ اور پھر کھڑکی میں اپنی جگہ
پر آ بیٹھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ وہاں پورے تین دن تک خاموش بیٹھا رہا۔ ایک دم سے
اسے دیکھا کہ رو رہا ہے۔ کھڑکی میں بیٹھا ہے اور رو رہا ہے۔ اور رونا بھی کیسا
رونا! آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ ٹپ ٹپ، ٹپ ٹپ، جیسے اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس
کی آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں۔ صاحب! کسی بڑی عمر کے آدمی کو روتا دیکھنا بہت
تکلیف دہ ہوتا ہے اور پھر جب کہ عاملین کی طرح کوئی معمر ہو اور ٹوٹ پھوٹ کر رو
رہا ہو۔
میں نے اس سے کہا۔
“عاملین! تمہیں کیا تکلیف ہے؟”
وہ چونک کر کانپنے لگا۔ اس دن
کے بعد میں نے آج اس سے پہلی دفعہ بات کی تھی۔
“کچھ نہیں اصطفی!”
“اللہ تم پر رحم
کرے عاملین، تم اس کا خیال نہ کرنا۔ گزشتہ را صلوٰۃ۔ ارے بھئی اس کا ملال نہ کرو۔”
مجھے اس پر بڑا ترس آ رہا تھا۔
“بات یہ ہے کہ میں
کچھ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ کچھ کام کرنا چاہتا ہوں اصطفی!”
“مگر آخر کس قسم کا
ہو عاملین؟”
“کسی بھی قسم کا
بھی ہو، شاید میں کوئی نوکری ہی کر لوں، پہلے کی طرح۔ جہاں میں پہلے نوکر تھا وہاں
میں پوچھنے گیا بھی تھا۔ یہ میرے لئے ٹھیک نہیں اصطفی، کہ تم پر ہی پڑا رہوں۔ مجھے
اصطفی! شاید کوئی ملازمت مل جائے گی اور پھر میں تمہارے سارے خرچ دے سکوں گا۔
کھانے کے علاوہ باقی سارے خرچ۔”
“ایسا مت کہو
عاملین! یہ مت کہو۔ تم نے ایک گناہ کیا تھا۔ چلو وہ ختم ہوا۔ لعنت بر کار شیطان۔
اب ہم اسی طرح رہیں گے جس طرح پہلے رہتے تھے۔ گویا کوئی بات ہوئی ہی نہیں۔”
“تم اصطفی! تم شاید
اس کی طرف اشارہ کر رہے ہو، مگر میں نے تمہاری برجس نہیں لی۔”
“اچھا تو پھر جو تم
کہو وہ درست عاملین!”
“نہیں اصطفی، ظاہر
ہے تمہارے ساتھ اب نہیں رہ سکتا۔ معاف کرنا تم مجھے اصطفی!”
“مگر خدا کے لئے
عاملین! تمہیں آخر کون ناراض کر رہا ہے یا گھر سے نکال رہا ہے؟ کیا میں؟”
“نہیں۔” مگر
یہ میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ تمہاری مہمان نوازی سے اب غلط فائدہ اٹھاؤں۔ اصطفی!
اب یہاں سے دور جانا ہی بہتر ہے۔”
میں نے دیکھا کہ واقعی وہ اپنی
جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اپنا بوسیدہ لبادہ پہن لیا۔۔۔۔۔ اس نے برا مانا
تھا۔ یقیناً اس نے میرے کہے کو محسوس کیا تھا اور اس کے دل میں سما گئی تھی کہ چلا
ہی جائے۔
“مگر تم کہاں جا
رہے ہو عاملین؟ عقل کی بات کرو۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کہاں جاؤ گے تم؟”
“نہیں، یہی بہتر ہے
اصطفی! مجھ روکنے کی کوشش نہ کرو۔”
اور وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے
لگا۔
“جانے دو مجھے
اصطفی! اب تم وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔”
“کیوں نہیں ہوں؟
میں تو بالکل وہی کا وہی ہوں۔ مگر تم اکیلے رہ جاؤ گے تو مر جاؤ گے عاملین۔۔۔۔۔ بے
عقل بچے کی طرح مر جاؤ گے۔”
“نہیں اصطفی! حال
میں تم نے یہ کرنا شروع کیا ہے کہ جب گھر سے باہر جاتے ہو تو ٹرنک میں قفل ڈال کر
جاتے ہو اور میں، اصطفی! اسے دیکھتا ہوں اور روتا ہوں۔۔۔۔۔ نہیں، بہتر یہی ہے کہ
تم مجھے جانے دو، اصطفی اور دیکھنا تمہارے ساتھ رہنے میں اگر میں نے تمہیں اپنی
کسی بات سے ناراض کیا ہو تو مجھے معاف کر دینا۔”
تو جناب! وہ آخر چلا ہی گیا۔
ایک دن میں نے انتظار کیا اور سوچتا رہا کہ رات کو آ جائے گا۔ مگر ایک دن گزر جاتا
ہے، دوسرا گزر جاتا ہے۔ مگر نہیں آتا۔ تیسرے دن۔۔۔۔۔ وہ نہیں آتا۔ مجھے اب اندیشہ
ہونے لگا اور شدید غم میرے دل پر چھا گیا۔ میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور ساری
ساری رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹ دیتا۔ اس شخص نے تو مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔
چوتھے دن میں اسے تلاش کرنے نکلا۔ میں نے قریب کے تمام شراب خانوں میں اسے ڈھونڈا
اور دریافت کیا کہ اسے کسی نے دیکھا تو نہیں۔ مگر اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ عاملین
بالکل غائب ہو گیا تھا۔ خیال آیا کہ شاید اس نے اپنی دکھ بھری زندگی کا خاتمہ نہ
کر لیا ہو! کہیں نشے میں کسی دیوار کے نیچے کتے کی موت نہ مر گیا ہو۔ تھکان اور نا
امیدی سے نیم مردہ گھر واپس آیا۔ اور سوچا کہ کل پھر اسے ڈھونڈوں گا۔ اپنے آپ کو
کوستا رہا کہ اس بے عقل، بے یار و مددگار شخص کو میں نے بھلا کیوں جانے دیا؟ لیکن
پانچویں دن علی الصبح (چھٹی کا دن تھا) دروازہ کھلنے کی چوں چوں سنائی دی۔ اور لو
عاملین آ گیا۔ مگر کس حال میں! اس کا چہرہ نیلا، بالوں میں مٹی بھری ہوئی۔ معلوم
ہوتا تھا کہ وہ بازاروں میں سوتا پھرا تھا۔ بچارا سوکھ کر کانٹا ہو رہا تھا۔ اس نے
اپنا لبادہ اتارا اور ٹرنک پر بیٹھ گیا اور میری طرف تکنے لگا۔ صاحب! مجھے بے
انتہا خوشی ہوئی مگر اس کے ساتھ ساتھ میرے دل کو غم مسوس رہا تھا۔ معاملہ کچھ ایسا
تھا۔ مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اگر یہی واقعہ مجھے پیش آیا ہوتا تو میں کتے کی
موت مرنا پسند کرتا، واپس ہر گز نہ آتا۔ اور عاملین واپس آ گیا۔ بہر حال، یہ ایک
قدرتی امر ہے کہ آپ کسی کو بھی ایسے برے حال میں دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے۔ میں
نے ہر طرح سے اسے بہلانا اور دلاسا دینا شروع کیا۔
میں نے کہا “عاملین! مجھے
بڑی خوشی ہے کہ تم واپس آ گئے۔ اگر تم اتنی جلدی واپس نہ آتے تو میں تم کو یہاں نہ
ملتا کیوں کہ میرا ارادہ تمہاری تلاش میں نکل جانے کا تھا۔ تم نے کچھ کھایا بھی؟
“کھایا ہے اصطفی۔”
مجھے یقین نہیں آتا۔ لو۔ یہ
کرم کلے کا شوربہ ہے۔۔۔۔۔ کل کا بچا ہوا۔ اچھا شوربہ ہے۔ گوشت والا۔ وہ نہیں جس
میں برائے نام گوشت ہوتا ہے اور یہ لو روٹی اور پیاز کی ڈلی۔ بس شروع ہو جاؤ۔ اس
سے ذرا تم میں جان آ جائے گی۔”
میں نے یہ سب چیزیں اس کی طرف
بڑھا دیں۔ جس طرح اس نے کھایا اس سے مجھے
اندازاہ ہوا کہ پچھلے تین دن سے اسے فاقہ ہی تھا۔ اچھا تو یہ بھوک تھی جس کی وجہ
سے وہ میرے پاس واپس آیا! اس بچارے کو میں نے غور سے دیکھا تو مجھے اس پر بڑا ترس
آیا اور میں نے طے کیا کہ پاس کے شراب خانہ لپک کر جاؤں اور اس کے لئے ٹھرا لے
آؤں۔ اس سے ذرا اس میں جان آ جائے گی اور ڈھنگ کی باتیں بھی ہو سکیں گی۔ جو کچھ
ہونا تھا ہو چکا۔ مجھے اب اس غریب سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اور میں جا کر ٹھرا لے
آیا اور اس سے بولا۔ “آؤ عاملین! آج کی چھٹی کی خوشی میں ہم تم دونوں ایک
دوسرے کا جام صحت پئیں۔ آؤ پیو۔ اس سے تمہیں فائدہ پہنچے گا۔”
اس نے اپنا ہاتھ لپک کر پھیلا
دیا۔ پھر بھرا ہوا گلاس اٹھایا، منہ تک لے گیا۔ ہاتھ کانپ رہا تھا، اس لئے آستین
پر بہت کچھ گرایا۔ بہر حال منہ تک کسی نہ کسی طرح لے ہی گیا مگر فوراً ہی گلاس میز
پر واپس رکھ دیا۔
“کیا بات ہے
عاملین؟ پیتے کیوں نہیں؟”
“مگر نہیں، میں
نہیں پیوں گا اصطفی!”
“تم نہیں پیو گے؟”
“مگر میں اصطفی!
میرا خیال ہے کہ اب کبھی نہیں پیوں گا اصطفی۔”
“کیا تم نے چھوڑنے
کا فیصلہ ہمیشہ کے لئے کر لیا ہے عاملین؟ یا صرف آج کے لئے؟”
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ذرا
سی دیر بعد میں نے دیکھا کہ اس نے اپنا سر جھکا ہاتھ پر جھکا لیا۔ میں نے پوچھا
“کیا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے عاملین؟”
“نہیں اچھی خاصی
ہے، اصطفی۔”
میں نے اسے بستر پر لٹا دیا۔
اس کی حالت واقعی اچھی نہیں تھی۔ اس کا سر جل رہا تھا اور وہ بخار میں بھن رہا
تھا۔ میں سارا دن اس کے پاس بیٹھا رہا۔ شام ہوتے اس کی حالت بگڑنے لگی۔ میں نے اس
کے لئے رائی کی شراب، مکھن اور پیاز کا کھانا تیار کیا تھا اور اس میں روٹی کے
چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی ڈال دئے تھے۔ میں نے کہا۔ “اٹھو، کچھ کھا لو۔ شاید اس
سے تمہاری طبیعت سنبھل جائے۔”
مگر اس نے سر ہلا کر کہا
“نہیں اصطفی، آج میں کھانا بالکل نہیں کھاؤں گا۔”
میں نے بڑی بی کو زحمت دی اور
ان سے چائے بنوائی مگر عاملین نے چائے پینے سے انکار کر دیا۔
میں نے دل میں کہا معاملہ بہت
بگڑ چکا ہے۔ تیسرے دن صبح ہی صبح میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے ہاں گیا۔ اس نے میرا
علاج بڑا اچھا کیا تھا۔ ڈاکٹر آیا۔ مریض کا معائنہ کیا اور بولا “مجھے بلانے
کی کیا ضرورت تھی؟ یہ بچارا تو بہت دور جا چکا ہے۔ پڑیاں لکھے دیتا ہوں کھلا دینا۔”
میں نے اسے پڑیاں بالکل نہیں
دیں، مجھے معلوم تھا کہ ڈاکٹر صرف دل رکھنے کے لئے نسخہ لکھ گیا ہے۔ اب پانچواں دن
لگ گیا۔
اب صاحب! وہ میرے سامنے پڑا مر
رہا تھا۔ میں کھڑکی میں بیٹھا تھا اور میری گود میں کام پڑا تھا۔ بڑی بی چولھا جلا
رہی تھیں۔ ہم سب خاموش تھے۔ بیچارے بے حس و حرکت مرنے والے پر میرا دل رو رہا تھا۔
جیسے میرا اپنا بچہ مجھ سے جدا ہو رہا ہو۔
میں جان رہا تھا کہ عاملین کی
نظریں یکساں مجھ پر جمی ہوئی ہیں۔ صبح سویرے سے یہ میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ مجھ
سے کچھ کہنا چاہ رہا ہے مگر بظاہر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کہہ سکے۔ آخر میں
نے بھی اس کی طرف دیکھا اور وہ اب بھی مجھے تکے جا رہا تھا۔ اتنا ضرور ہوا کہ
آنکھیں چار ہوتے ہی اس نے اپنی نظریں فوراً جھکا لیں۔
“اصطفی!”
کیا ہے عاملین؟”
“اگر میرا لبادہ
گدڑی بازار لے جایا جائےاصطفی! تو کیا اس کی کچھ رقم مل جائے گی؟
میں نے کہا۔ “بھئی میں
کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا مگر تین چاندی کے سکے تو مل ہی جائیں گے اس کے،
عاملین!” میں نے یہ بات محض اس بچارے کا دل رکھنے کے لئے کہہ دی، ورنہ میں اس
چیتھڑے لگی چیز کو اگر بیچنے جاتا تو بازار والے میری ہنسی اڑاتے۔
“اور میرا یہ خیال
تھا کہ کچھ اور زیادہ مل جائے گا اصطفی! یہ کپڑے کا بنا ہوا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو
سکتا ہے کہ تین سکوں سے زیادہ وہ اس کے نہیں دیں گے؟”
“بات یہ ہے عاملین!
کہ اگر تم اس کو بیچنا چاہو تو بے شک تم اس کا زیادہ بھی مانگ سکتے ہو۔”
عاملین ذرا سی دیر خاموش رہا
اور پھر اس نے مجھے آواز دی۔
“اصطفی!”
“کیا ہے عاملین؟”
جب میں مر جاؤں تو تم میرا
لبادہ بیچ ڈالنا۔ مجھے اس میں کفنانے کی ضرورت نہیں۔ میرا کام اس کے بغیر بھی چل
جائے گا۔ اس کی اچھی قیمت مل جائے گی اور تمہارا ہاتھ تنگ نہیں رہے گا۔”
یہ سن کر میرے دل میں ایسی ٹیس
اٹھی کہ بیان نہیں کر سکتا۔ موت کی مایوسی مرنے والے پر چھائی جا رہی تھی۔ اب پھر
ہم دونوں خاموش تھے اسی طرح ایک گھنٹہ گزر گیا۔ میں نے پھر اس کی طرف دیکھا۔ وہ
مجھے دیکھے جا رہا تھا اور جب آنکھیں چار ہوئیں تو اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔”
میں نے اس سے پوچھا۔
“ٹھنڈا پانی پیو گے عاملین؟”
“تھوڑا سا دے دو۔
اللہ تمہیں اس کی جزا دے اصطفی!”
“کچھ اور چاہیے
عاملین؟”
“نہیں اصطفی، مجھے
کچھ نہیں چاہیے۔ مگر میں۔۔۔۔۔”
“کیا؟”
“تمہیں معلوم ہے
کہ۔۔۔۔۔”
“تمہیں کیا چاہیے
عاملین؟”
“برجس۔۔۔۔۔ تمہیں
معلوم ہے۔۔۔۔۔ میں نے ہی لی تھی اصطفی!”
میں نے کہا۔ خیر، اللہ تمہیں
معاف کرے گا عاملین! بےکس اور بدنصیب ہو۔ چین سے رخصت ہو۔”
اور مجھے اس کی طرف سے منہ
پھیر لینا پڑا کیوں کہ مارے غم کے میرا سانس رک گیا تھا اور میری آنکھوں میں آنسو
ابل پڑے تھے۔”
“اصطفی۔۔۔۔۔”
میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ مجھ
سے کچھ اور کہنا چاہتا تھا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔ اس کے لب ہل رہے تھے۔۔۔۔۔ اس
کے چہرے پر سرخی آئی اور اس نے میری طرف دیکھا۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ ایکدم سے رنگ
زرد پڑنے لگا۔ پلک جھپکتے میں اس کا منکا ڈھلک گیا۔ بس ایک ہی سانس لیا اور اپنی
جان اللہ کے حوالے کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔