نسل در نسل ۔۔۔ کملا داس
نسل در نسل
کملا داس
(مترجم۔ یاسمین حمید)
ہم نے اپنی جوانی بے ضرر گناہوں میں گزاری
بے وقعت سی محبت میں باہم مبتلا
ہم اکثر سمجھتے کہ ہم کسی بات پر آزردہ ہوئے ہیں
مگر کوئی دکھ دیر پا نہ ہوتا
کوئی ضرب ہمیں زخم نہ لگاتی
ہمارے سرد حسن کو مسخ نہ کرپاتی
ہر موسم میں ہم دراز رہے، میخے ہوئے، نہیں
صلیبوں پر نہیں بلکہ نرم بستروں پر
گداز جسموں کے ساتھ، جبکہ آہ وزاری کرتی
حساس گھڑیاں شام اور صبح کے جھٹپٹے میں
نیم خواب اور نیم مدہوشی کے عالم میں گزرتی چلی جاتیں
ہم خود سپردگی کے قائل تھے، ہر چیز کے آگے ہتھیار ڈال دیتے۔
یادوں کے لیے، دیواروں اور کوکھوں کو کھرچنا ہمارا کام نہیں،
نہ ہی موت سے سوال کرنا،
لیکن جیسے بچہ ماں کے بازؤوں سے مانوس ہوتا ہے
ہم اپنے آپ کو آگ کے
یا بھوکی زمین کے سپرد کریں گے
آہستہ آہستہ نگلے جانے کے لیے۔
کوئی اپنی صلیبوں سے اتر کر ہمیں
اپنے زخم نہیں دکھائے گا
خاموشی میں گم ہوجانے والا کوئی خدا
اچانک بات نہیں کرنے لگے گا،
کوئی کھوئی ہوئی محبت
ہماری مدعی نہ ہوگی،
نہ ہمیں کبھی سابقہ حیثیت میں بحال کیا جائے گا
نہ ہمیں نیا پن عطا کیا جائے گا۔