گھاس کے میدانوں سے ۔۔۔ میکسم گورکی
گھاس کے میدانوں میں
میکسم گورکی
ہم نے پیری کوپ کو طبیعت کے انتہائی چڑچڑے پن اور بد ترین صورت حال کے تحت یعنی جنگلی بھیڑیوں کی طرح گرسنہ اور تمام دنیا سے متنفر خیر باد کہا تھا مکمل بارہ گھنٹے ہم نے اس کوشش میں صرف کر دیئے تھے کہ کسی نہ کسی طرح…. جائز یا نا جائز طریقے، چوری کے ذریعے یا خود کما کر پیٹ پوجا کا سامان کریں ، مگر جب ہمیں اس امر کا پورا یقین ہو گیا کہ ہم اپنے مقصد میں کسی طرح کامیاب نہیں ہو سکتے، تو ہم نے آگے بڑھنے کا قصد کیا…. کدھر؟…. بس ذرا آ گئے!
یہ فیصلہ اتفاق آراء سے منظور ہو گیا۔ اب ہم زندگی کی اس شاہراہ پر جس پر ہم ایک مدت سے گامزن تھے سفر کرنے کو تیار تھے۔ اس امر کا فیصلہ بالکل خاموشی میں ہوا۔اگر اس فیصلے کو کوئی چیز نمایاں طور پر ظاہر کرنے والی تھی تو ہماری گرسنہ آنکھوں کی خشم ناک چمک تھی۔
ہماری جماعت تین افراد پر مشتمل تھی۔ جن کی شناسائی کو ابھی بہت مدت نہ گذری تھی۔ ہماری دوستی دریائے نیپئر کے کنارے خر سون کی ایک سرائے میں واقع ہوئی تھی۔ ہم میں سے ایک ریلوے پویس میں سپاہی رہا تھا اور اس کے بعد پولیستان میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا رہا تھا یہ شخص بہت تنو مند اور جسیم تھا اور بال سرخ…. جرمن زبان بول سکتا تھا اور قید خانے کی اندرونی زندگی سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔
ہماری قسم کے لوگ اپنی زندگی کے گذشتہ حالات پر روشنی ڈالنے کے خیال کو بہت برا تصور کرتے ہیں ، بعض ناگزیر وجوہ کے باعث ہمیشہ خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں اس کا کامل یقین تھا کہ ہمارے ہر ساتھی کے ساتھ ایک نہ ایک تلخ حکایت ضرور وابستہ ہے مگر ہم نے ان سے اس داستان کے بارے میں کبھی استفسار نہ کیا تھا۔
جب ہمارے ایک ساتھی نے ہمیں بتایا کہ وہ ماسکو یونیورسٹی کا طالب علم رہ چکا ہے تو ہمیں اس کی بات کا یقین ہو گیا۔ دراصل ہمارے لئے یہ چیز کو ئی اہمیت نہ رکھتی تھی کہ وہ گذشتہ ایام میں چور تھا یا سپاہی۔ قابل ذکر بات تو یہ تھی کہ وہ جب ہم سے ملا، بالکل ہم جیسا تھا، اور ہماری طرح پولیس اور دیہات والوں میں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اور وہ جواب میں ان سب کو ایک تعاقب زدہ بھوکے درندے کی طرح افسردہ اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا …. قصہ کو تاہ ان خیالات اور موجودہ حالات کی رو سے وہ ہم میں سے ایک تھا۔
مشترکہ مصائب، متضاد طبائع میں اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور ہمیں اس کا پور یقین تھا کہ ہم مصیبت زدہ ہیں۔ تیسرا میں تھا…. اپنے شرمیلے پن کی وجہ سے جو بچپن سے میری خصوصیت رہی ہے، میں اپنی صفات کا تذکرہ بے سود سمجھتا ہوں۔ میری عادات و خصائل پر روشنی ڈالنے کے لئے بس اتنا کہنا کافی ہو گا کہ میں اپنے آپ کو اور وں سے ہمیشہ اچھا اور اعلیٰ سمجھتا رہا ہوں …. اور آج بھی میرا یہی عقیدہ ہے۔
ان حالات کے تحت ہم پیری کوپ کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہے تھے ہمارا اولین مقصد کسی گڈرئیے کا دروازہ کھٹکھٹا کر روٹی مانگنا تھا۔ یہ لوگ عموماً کسی جہاں گرد سائل کو مایوس لوٹنے نہیں دیتے۔
میں اور سپاہی پہلو بہ پہلو چل رہے تھے۔ طالب علم ہمارے پیچھے آ رہا تھا جس کے کاندھوں پر کوئی کپڑا سا لٹک رہا تھا، جس نے کبھی جیکٹ کا کام دیا ہو گا۔ ایک بوسیدہ اور چوڑے کنارے والی ٹوپی اس کے بد وضع سر کی زینت ہو رہی تھی، پتلی ٹانگوں کو ایک پرانی پیوند زدہ پتلون چھپا رہی تھی اور پاؤں میں کسی ٹوٹے ہوئے بوٹ کے تلوے، جو غالباً کسی سڑک پر سے اٹھائے تھے، ایک رسی سے بندھے ہوئے تھے…. اس اختراع کو وہ چپلیوں کے نام سے پکارتا تھا۔وہ سڑک پر گرد اڑاتا اور اپنی چھوٹی چھوٹی سبزی مائل آنکھیں جھپکاتا، خاموشی کے ساتھ چلا آ رہا تھا۔
سپاہی ایک سرخ قمیص پہنے ہوئے تھا جو بقول اس کے اس نے خود اپنی محنت کے پیسوں سے فرسون میں خریدی تھی۔ اس قمیض پر ایک گرم اور نرم سی واسکٹ نظر آ رہی تھی۔ ٹانگوں پر ایک کھلا پاجامہ لپٹا ہوا تھا سر پر اس نے ایک فوجی ٹوپی ترچھے انداز میں پہن رکھی تھی۔ پاؤں میں بوٹ وغیرہ کچھ بھی نہیں تھے۔
میں نے کپڑے تو پہنے ہوئے تھے مگر ننگے پاؤں تھا۔
ہم چلتے رہے…. ہمارے چاروں طرف میدان تھا جس میں گھاس اگ رہی تھی ، وہ موسم گرما کے نیلگوں آسمان کے نیچے بڑھتے گئے…. کہیں کہیں کٹی ہوئی فصل کے نشانات بھی دکھائی دے رہے تھے، جو بعینہ سپاہی کے نہ منڈے ہوئے گالوں کے مانند تھے۔
وہ بھدی اور کن سڑی آواز میں ایک مذہبی گیت گانے میں مصروف تھا۔ دوران ملازمت میں وہ کسی گرجے میں نو کر بھی رہ چکا تھا اس لئے لازمی طور پر اسے بے شمار مذہبی گیت زبانی یاد تھے۔ اور ہم سے دوران گفتگو اکثر اس قسم کی معلومات کا بے جا تذکرہ بھی کیا کرتا تھا۔
اب ہمارے سامنے افق پر دھندلی سی لکیریں نمودار ہو رہی تھیں جن کا رنگ بنفشی سے ہلکا زرد ہوتا چلا جا رہا تھا۔
’’ یہ کریمیا کی پہاڑیاں ہیں ‘‘ طالب علم نے اپنی پھٹی آواز میں کہا’ پہاڑیاں معلوم ہوتی ہیں۔‘‘
سپاہی نے طنز یہ لہجے میں اس سے کہا’’ بہت تیز نظر ہے تمہاری، یہ تو بادل ہیں ، محض بادل! اور بادل بھی کیسے، جیسے انناس کا مربہ دودھ میں بھیگ رہا ہے!‘‘
’’آہ، کاش یہ واقعی مربہ ہوتے!! اس تشبیہ نے میری بھوک پر تازیانے کا کام کیا۔‘‘
’’ خدا کی قسم‘‘! سپاہی نے جھلا کر کہا’’ کاش ہمیں کوئی انسان مل جائے!…. مگر یہاں تو کسی کا نام و نشان تک بھی نہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بھی موسم سرما کے ریچھ کی طرح اپنے پنجے چوس کر گذارہ کرنا ہو گا!‘‘
’’ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ہمیں آبادی کا رخ کرنا چاہئے‘‘ طالب علم نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’ تم نے کہا تھا!…. یہ تمہارا ہی حصہ تھا، تعلیم یافتہ جو ٹھہرے تم!…. مگر کہاں ہیں وہ آباد مقامات جن کا تم ذکر کر رہے ہو‘‘ سپاہی طالب علم پر برس پڑا۔
طالب علم نے جواب میں اپنے ہونٹ چبانے شروع کر دیئے۔ اور خاموش ہو گیا۔
سورج غروب ہو رہا تھا۔ بادل رنگا رنگ کے لباس بدل رہے تھے۔ شورے اور مٹی کی خوشبو نے ہماری بھوک کو اور بھی مشتعل کر دیا۔ انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ اور ایک ناخوشگوار سی لہر بدن میں دوڑ رہی تھی۔ منہ اور حلق خشک ہو گیا تھا دماغ سخت پریشانی میں گرفتار تھا۔ سر چکرانے لگا اور عجیب قسم کے سیاہ دھبے آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ یہ دھبے کبھی گوشت کے بھنے ہوئے تکڑوں کی اور کبھی روٹیوں کی شکل اختیار کر لیتے…. ذہن نے ان کی یاد تازہ کر دی اور یہ اصل معلوم ہونے لگے، حتیٰ کہ ان کی خوشبو تک بھی آنے لگی۔ اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ کوئی پیٹ میں نو کیلا خنجر گھونپ رہا ہے۔ لیکن اب اس اذیت کے با وصف ہم بھیڑوں کے نشانات دیکھنے اور کسی پھلوں سے لدے ہوئے چھکڑے کے پہیوں کی آواز سننے کے لئے ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے اور کان کھولے چلتے رہے…. مگر میدان خاموش اور سنسان تھا۔
اس پُر تکان سے پیشتر شام کو ہم سب نے صرف دو سیر کچی روٹی اور پانچ تربوز کھائے تھے، ہمیں کوئی چالیس میل کے قریب چلنا پڑا تھا۔ خرچ آمدن کی نسبت زیادہ تھا۔ ہم مارکیٹ میں سو رہے تھے کہ ہمیں بھوک نے آ جگایا۔
طالب علم نے ہم سے کہا تھا کہ رات کو سونے کی بجائے کام کرنا چاہئے اور رہی دوسری بات کہ کسی کی ملکیت پر ڈاکہ ڈالنا، سو وہ معاشرہ کے اصولوں کے خلاف ہے،اس لئے میں اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا۔میری خواہش انصاف کرنے کی ہے۔ میں یا وہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے اس مہذب زمانے میں لوگ بہت شائستہ اور نرم دل ہوتے جا رہے ہیں حتیٰ کہ اگر کسی پڑوسی کا گلا بھی کاٹنا ہو تو موقع کی مصلحت دیکھ کر یہ کام بھی نہایت سلیقے سے کیا جاتا ہے۔ میرے اپنے گلے کے تجربے نے اخلاق اور تہذیب کے اس ارتقا کو میرے سامنے واضح طور پر ظاہر کر دیا ہے۔ اور میں قطعی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کی ہر شے رو بہ ترقی ہے…. شراب خانوں ، عصمت فروشی کی دوکانوں اور زندانوں کی تعداد میں سالانہ اضافہ اس ترقی کو بخوبی ظاہر کرتے ہیں۔
چنانچہ اس طرح ہم اپنا لعاب دہن نگلتے اور آپس میں دوستانہ گفتگو کرتے ہوئے، تاکہ کسی حیلے ہمارے پیٹ کا درد کم ہو جائے اس سنسان میدان میں بڑھتے گئے۔ دل میں ایک موہوم امید لئے ہوئے سرخ شفق کی طرح چلتے گئے!
ہمارے سامنے سورج ان بادلوں کے پیچھے جن پر اس کی شعاعیں زر نگاری کا کام کر رہی تھیں ، غروب ہو رہا تھا۔ اب ہمارے سامنے چاروں طرف رات کی سیاہی افق کی وسعت کو تنگ کرتی ہوئی پھیل رہی تھی۔
’’ آ گ جلانے کے لئے کچھ ایندھن تو اکٹھا کرو‘‘ سپاہی نے دفعتاً زمین پر سے لکڑی کا ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوئے کہا’’ ہمیں آج کی رات میدان ہی میں کاٹنا پڑے گی…. اوس خوب پڑے گی، خشک گوبر اور درختوں کی ٹہنیاں الاؤ کے لئے ٹھیک رہیں گی؟‘‘
ہم سڑک کے دونوں طرف بکھر گئے اور سوکھی گھاس اور ہر چیز جو مل سکتی تھی اکٹھا کرنی شروع کر دی۔ ہر مرتبہ جب ہمیں زمین پر جھکنا پڑتا۔ ہمارے بدن میں ایک عجیب خواہش پیدا ہوتی کہ زمین پر گر پڑیں اور مٹی کھانے کے لئے خاموش لیٹ جائیں …. سیاہ اور چکنی مٹی کھاتے رہیں۔ حتیٰ کہ اور کچھ نہ کھا سکیں اور پھر اسی حالت میں سو جائیں خواہ یہ نیند ابدی نیند ہی کیوں نہ ہو، لیکن اس سے پیشتر کچھ کھائیں ضرور…. کوئی سی غذا کو ئی گرم گرم کھانا حلق سے اتر کر تلملاتے ہوئے اور بھوکے پیٹ میں پہنچ جائے…. اس معدے میں جو کسی چیز کو ہضم کرنے کی خواہش میں بیتاب ہوا جا رہا تھا۔
’’ کاش ہمیں کوئی جڑ ہی مل جاتی‘‘ سپاہی نے آہ بھر کر کہا’’ ایسی جڑیں بھی تو ہوتی ہیں جو غذا کا کام دے سکتی ہیں …. جن کو ہم کھا سکتے ہیں !‘‘
مگر اس سیاہ اور ہل کی ہوئی زمین میں جڑوں کا نام و نشان تک نہ تھا…. اب جنوبی ممالک کی رات تیزی سے شفق پر غلبہ حاصل کر رہی تھی۔ سورج کی آخری شعاعیں ابھی غائب ہی ہوئی تھیں کہ تاریک اور نیلگوں آسمان میں تارے چمکنے لگے۔ آہستہ آہستہ رات کی سیاہی میدان کی وسعت کو تنگ بتاتی ہوئی بڑھتی گئی۔
’’ بھائی، ہمارے بائیں طرف ایک آدمی لیٹا ہوا ہے!‘‘ طالب علم نے سپاہی سے آہستگی کے لہجے میں کہا۔
’’آدمی!‘‘ سپاہی نے حیرت زدہ ہو کر دریافت کیا۔’’ آخر وہ یہاں کیوں لیٹ رہا ہے؟
’’ جاؤ‘ اس سے خود دریافت کر لو…. اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔جبھی تو اس طرح میدان میں پڑا ہے۔‘‘ طالب علم نے جواب دیا۔
سپاہی تھوکنے کے بعد ایک عزم سے بولا’’ تو چلو آؤ اس کے پاس چلیں ‘‘
صرف طالب علم کی تیز نگاہیں ہی تاریکی میں سڑک کی دوسری طرف کوئی سو گز کے فاصلے پر ایک آدمی کو جو سیاہ ڈھیر کی صورت میں پڑا تھا پہچان سکتی تھیں۔ ہم ہل کی ہوئی زمین میں مٹی کے ڈھیلوں پر تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے اس کی طرف بڑھے۔کھانا حاصل کرنے کی اس نئی امید نے ہماری بھوک کو اور بھی زیادہ تیز کر دیا تھا۔ ہم اس کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ مگر وہ بے حرکت پڑا تھا۔
’’ شاید یہ انسان نہیں ہے‘‘ سپاہی نے ہم سب کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے مایوسانہ انداز میں کہا۔ مگر فوراً ہمارے اندیشے غلط ثابت ہو گئے کیونکہ اس ڈھیر میں جو زمین پر پڑا تھا ایک جنبش ہوئی اور اس نے اٹھنا چاہا۔ اب ہم نے دیکھا کہ وہ واقعی انسان ہے جو گھٹنوں پر بیٹھا ہے اور ہماری طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے۔
’’ میرے نزدیک نہ آنا ورنہ میں گولی چلا دوں گا‘‘ ہم نے اسے بھدی اور لرزاں آواز میں یہ کہتے سنا۔ اس کے ساتھ ہی فضا میں لبلبی اٹھنے کی تیز آواز گونجی۔
ہم یکایک ٹھہر گئے جیسے کسی نے حکم دیا ہے۔ کچھ عرصے تک ہم اس نا خوشگوار خیر مقدم سے حیرت زدہ ہو کر خاموش کھڑے رہے۔
’’ بدمعاش!‘‘ سپاہی نے معنی خیز انداز میں زیر لب کہا۔
’’ ہوں ‘ پستول لئے سفر کرتا ہے…. یہ تو منہ کا نوالہ معلوم نہیں ہوتا‘‘ طالب علم نے دانشمندانہ لہجے میں کہا۔
’’ او میاں !‘‘ …. ظاہر تھا کہ ہمارے رفیق سپاہی نے ضرور کوئی تدبیر سوچ لی ہے۔ اس شخص نے کروٹ نہ بدلی اور پہلے کی طرح خاموش رہا۔
’’ اے میاں ، دیکھو ہم تم کو بالکل نقصان نہ پہنچائیں گے۔ بس ہمیں کچھ کھانے کے لئے دے دو۔ تمہارے پاس روٹی وغیرہ ضرور ہو گی، بھائی ہمیں کچھ کھانے کے لئے دے دو۔ تمہیں مسیح کاواسطہ ہے…. لعنت ہو تم پر …. شیطان!‘ ‘آخری الفاظ سپاہی نے اپنی ڈاڑھی کے اندر منہ ڈال کر آہستگی سے کہے…. وہ شخص خاموش رہا۔
’’ کیا سن بھی رہے ہو کہ نہیں ؟‘‘ سپاہی نے بیچارگی اور غصے میں کانپتے ہوئے پھر التجا کی’’ ہمیں کچھ دو…. پھینک ہی دو، ہم تمہارے نزدیک نہ آئیں گے!‘‘
اگر اس نے ہمیں دلی خلوص سے’’ میرے عزیز بھائیو‘‘ کہہ کر پکارا ہوتا۔ اور تین لفظوں میں جذبات کا تمام تقدس بھر دیا ہوتا۔تو وہ ہم پر اس قدر اثر انداز نہ ہوتے جتنا یہ غیر مہذبانہ، درشت اور خشک’’ اچھا‘ اثر انداز ہوا۔
’’نیک آدمی، ہم سے خوف زدہ مت ہو‘‘ سپاہی نے اپنے چہرے کو متبسم کرتے ہوئے کہا۔ حالانکہ وہ شخص تاریکی میں پچاس قدم کے فاصلے پر بیٹھا ہوا اس کے اس تبسم کو نہ دیکھ سکتا تھا۔’’ ہم امن پسند لوگ ہیں۔ روس سے کیو بن جا رہے ہیں۔ ہمارا سب روپیہ راستے میں خرچ ہو گیا ہے۔ ہم سب کھا پی بیٹھے ہیں۔ اب ہمیں فاقے سے دوسرا دن گذر رہا ہے!‘‘
’’ لو، پکڑو‘‘ ہمارے محسن نے ہوا میں اپنا ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا۔ اور ساتھ ہی ایک سیاہ سی چیز ہل کی ہوئی زمین پر ہمارے نزدیک ہی آ گری۔طالب علم اس کو پکڑنے کے لئے لپکا۔
’’ لو اور پکڑو…. یہ رہی…. بس اب میرے پاس ختم ہو چکی ہے۔‘‘
جب طالب علم نے ان عجیب و غریب تحائف کو اکٹھا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سیاہ روٹی کے چند خشک ٹکڑے تھے۔ جن کا مجموعی وزن کوئی دو سیر کے قریب ہو گا۔ یہ مٹی سے لت پت ہو رہے تھے۔مگر یہ بات ہمارے لئے کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی…. خشک روٹی عموماً زیادہ تسکین دہ ہوا کرتی ہے۔ اس لئے اس میں تازہ روٹی کی نسبت نمی کم ہوتی ہے۔
’’ یہ لو تم اور یہ لو تم اور یہ میرے لئے‘‘ سپاہی نے بڑی احتیاط سے سب کو روٹی کا حصہ دیتے ہوئے کہا….’’ مگر ابھی حصے برابر نہیں ہوئے۔ اس لئے’’ پروفیسر صاحب‘‘ مجھے آپ کے ٹکڑے سے کچھ حصہ کاٹنا پڑے گا ورنہ یہ دوسرے کے حق میں سراسر نا انصافی ہو گی!‘‘
طالب علم کو مجبوراً اپنے حصے سے ایک ٹکڑا دینا پڑا۔ جو وزن میں ایک اونس کے دسویں حصے کے برابر تھا۔
میں نے اپنا ٹکڑا منہ میں ڈال لیا۔ اور آہستہ آہستہ چبانا شروع کیا ساتھ ہی میں اپنے جبڑوں کی قدرتی حرکت روکنے کی بے سود سعی کر رہا تھا جو اس وقت پتھروں کو چبانے کے لئے تیار تھے، مجھے اپنے نرخرے میں ایک تشنجی حرکت کے احساس اور ایسے چھوٹے چھوٹے لقموں سے آہستہ آہستہ رفع کرنے کی کوشش میں ایک عجیب قسم کی مسرت حاصل ہو رہی تھی۔ گرم اور ناقابل بیان طور پر ذائقہ دار اور شیریں ، اس روٹی کے ٹکڑے لقمہ بہ لقمہ حلق سے اتر کر جلتے ہوئے پیٹ میں پہونچتے ہی خون اور گوشت میں تبدیل ہوتے معلوم ہوتے تھے۔
میرا دل ایک ایسی ناقابل بیان اور حیات بخش مسرت سے معمور تھا جو اس روٹی کی نسبت کے لحاظ سے کہیں زیادہ تھی۔ میں فاقہ کشی کے تکلیف دہ ایام کو بالکل بھول گیا۔ اس کے علاوہ میرے ذہن سے اپنے دوستوں کی یاد بھی محو ہو گئی اس لئے کہ میں ان مسرت افزا خیالات میں غرق تھا جو اس وقت میرے دل میں پیدا ہو رہے تھے۔
لیکن جب میں نے اپنی ہتھیلی سے روٹی کا آخری ٹکڑا منہ میں ڈالا تو میں نے محسوس کیا کہ میری بھوک اور بھی تیز ہو گئی ہے۔
’’ اس آدمی کے پاس اور کچھ بھی ضرور ہو گا…. لعنت ہو اس پر!‘‘ سپاہی نے جو زمین پر بیٹھا اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر رہا تھا کہا
’’ ضرور ہو گا…. روٹی میں سے گوشت کی بو آ رہی تھی‘‘ طالب علم نے جواب دیا اور پھر ساتھ ہی دبی زبان میں کہا’’ کاش اس کے پاس پستول نہ ہوتی ورنہ….‘‘
’’ مگر یہ ہے کون؟‘‘
’’ ظاہر ہے کہ ہم ایسا کوئی بھلا مانس ہو گا‘‘
’’ ناپاک کتا!‘‘ سپاہی نے فیصلہ کر دیا۔
ہم سب ایک دوسرے کے بالکل قریب بیٹھے اپنے محسن کی طرف ترچھی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، جو پستول ہاتھ میں لئے خاموش بیٹھا تھا۔ اس کی طرف سے کسی قسم کی آواز ہمیں سنائی نہ دے رہی تھی۔
رات کی تاریک قوتیں رہی سہی روشنی پر غالب آ گئیں۔ میدان پر قبر کی خاموشی طاری تھی۔ اس سکوت میں ہم ایک دوسرے کے سانس کی آواز بخوبی سن سکتے تھے۔ کبھی کبھی بجو کی درد میں ڈوبی ہوئی چیخ سنائی دیتی تھی۔ ستارے آسمان کے چمن کے زندہ پھول، ہمارے سروں کے اوپر چمک رہے تھے…. ہماری اس وقت صرف ایک خواہش تھی کہ کچھ کھائیں !
میں فخر کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس شب میری حالت میرے اتفاقیہ رفیقوں سے نہ تو بری تھی اور نہ اچھی۔ آخر کار میں نے یہ تجویز پیش کی : ہمیں اٹھ کر اس شخص کے پاس جانا چاہئے مگر بغیر کوئی نقصان پہنچائے اس سے کھانے کا سامان لے لینا چاہئے۔ اگر وہ فائر کرتا ہے تو کر لے! وہ زیادہ سے زیادہ ہم میں سے صرف ایک کو نشانہ بنا لے گا،جو چنداں ممکن نہیں اور اگر بفرض محال اس کی گولی کسی ایک کو لگ بھی گئی تو عموماً پستول کا چھرہ مہلک زخم نہیں کرتا۔
’’ تو چلو پھر‘‘ سپاہی نے کود کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ طالب علم کوشش کے با وجود بڑی آہستگی سے اٹھا۔ ہم دوڑ کر اس شخص کی جانب بڑھے۔ طالب علم ہمارے پیچھے آ رہا تھا۔
’’ محترم رفیق‘‘ سپاہی نے طنزاً چلا کے پکارا
ہمارا استقبال ایک زیر لب گنگناہٹ سے ہوا۔ پھر ساتھ ہی…. لبلبی دبنے کی آواز گونجی اور شعلہ بلند ہوا۔ اور گولی ہمارے کانوں کے قریب سے سنسناتی ہوئی گذر گئی۔
’’ نشانہ خطا گیا‘‘ سپاہی فرط مسرت سے چلا اٹھا اور ایک ہی جست میں سے اسے جا لیا۔’’ ٹھیر بے شیطان‘ اب چکھائے دیتا ہوں تجھے مزا….‘‘
طالب علم اس کے تھیلے کی طرف لپکا مگر وہ شیطان ایک دم پیٹھ کے بل زمین پر لوٹ گیا۔ اور ہاتھ پھیلا کر ہانپنا شروع کر دیا۔
’’ ابے کیا ہو گیا تجھے؟ سپاہی نے حیران ہوتے ہوئے کہا‘‘ او….ابے …. کچھ سن رہا ہے کہ نہیں ؟…. کیا تو نے اپنے آپ کو گولی تو نہیں مار لی؟‘‘
’’ یہ رہا گوشت، ٹکیاں اور روٹی…. کافی مقدار ہے بھائیو‘‘ طالب علم نے خوش ہو کر بلند آواز میں کہا۔
’’ تو جاؤ مرو، جہنم میں جاؤ، آؤ دوستو، ہم کھانا کھائیں ‘‘ سپاہی چلایا
میں نے اس شخص کے ہاتھ سے پستول لے لی۔ اب اس نے کراہنا بند کر دیا تھا۔ اور خاموش پڑا تھا۔ پستول میں صرف ایک کار توس اور باقی تھا۔
ہم اب پھر خاموشی سے کھانے میں مصروف تھے۔ اور وہ شخص بے حس و حرکت پڑا تھا۔ اس وقت ہم اس کی موجودگی سے بالکل غافل تھے۔
’’ بھائیو، کیا تم نے یہ سب کچھ واقعی اس روٹی کے لئے کیا ہے؟‘‘ ایک لرزاں اور پھٹی ہوئی بھدی آواز نے یک لخت ہم سے کہا۔ ہم چونک پڑے طالب علم کھانستا ہوا زمین کی طرف جھک گیا۔ سپاہی نے اپنے منہ کا لقمہ نگلتے ہوئے اس شخص کو بے طرح سنانی شروع کر دی:
’’ او کتے کی روح…. خدا کرے تیرا بدن خشک لکڑی کے چھلکے کی طرح پھوٹ پھوٹ پڑے۔ کیا تو یہ خیال کرتا تھا کہ ہم تیری کھال ادھیڑنا چاہتے ہیں ؟ تیری چمڑی ہمارے کس کام کی…. ملعون، پاجی، کمینے!…. پستول لئے لوگوں پر گولیاں چلاتا ہے…. شیطان کہیں کا!‘‘
سپاہی اس دوران میں ساتھ ساتھ کھاتا بھی جا رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی گالیوں کا پورا زور شور بہت حد تک دب گیا تھا،
’’ ٹھیر جا‘ ہم کھانا کھانے کے بعد تجھ سے نپٹ لیں گے!‘‘ طالب علم نے اسے دھمکایا۔
اس پر سسکیوں اور آہ و زاری کی آواز رات کے سکوت میں پھیل گئی ہم ڈر گئے۔‘‘
’’ بھائیو، مجھے معلوم نہ تھا۔ میں ڈر گیا تھا۔ چنانچہ میں نے فائر کر دیا۔ میں نیو ایتھوس سے سمانسک جا رہا ہوں …. آہ میرے خدا! جو نہی آفتاب غروب ہونے لگتا ہے، مجھے بخار چڑھ جاتا ہے…. میری تیرہ بختی! اس بخار کے علاج کرانے کی خاطر ہی میں نے ایتھوس کو خیر باد کہا تھا…. میں وہاں بڑھئی کا کام کرتا تھا…. میں بڑھئی ہوں …. میری ایک بیوی اور دو چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں۔ جن سے جدا ہوئے مجھے …. قریب قریب چار سال گذر چکے ہیں ….بھائیو، تم سب کچھ کھا لو….‘‘
’’ کوئی فکر نہ کر، ہم تیرے کہنے کے بغیر ہی سب کچھ کھا لیں گے‘‘ طالب علم نے اس سے کہا۔
’’ آہ‘ میرے پروردگار! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم لوگ امن پسند اور رحمدل ہو تو میں کبھی گولی نہ چلاتا…. جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار یہ دشت نما میدان ہے اور پھر تاریکی میں سوجھ کیا سکتا ہے…. مجھے معاف کر دو، بھائیو، میری خطا معاف کر دو!‘‘ وہ بول رہا تھا اور ساتھ رو بھی رہا تھا۔ اس کی رونی آواز لرزاں اور دہشت آفریں تھی۔
’’ بس بس اب چلاؤ نہیں ‘‘ سپاہی نے حقارت سے کہا
’’ اس کے پاس کچھ نقدی بھی ضروری ہو گی!‘‘ طالب علم نے قیافہ لگایا۔
سپاہی نے اپنی آنکھیں نیم بند کر لیں۔ طالب علم کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا‘‘ تم تو نجومی ہو…. چلو، اب آگ جلا کر سو رہیں !‘‘
’’ اور اس کو یہیں پڑا رہنے دیں ؟ طالب علم نے سپاہی سے دریافت کیا۔
’’ جہنم میں جائے…. کیا ہم اسے بھون کھائیں ؟‘‘
’’ ہے تو اسی کا مستحق! طالب علم نے اپنا نو کیلا سر ہلا یا
ہم اپنا اکٹھا کیا ہوا ایندھن، جو بڑھئی کی دھمکی سے ہمارے ہاتھوں سے گر پڑا تھا۔ اٹھانے کے لئے روانہ ہوئے۔ منتشر لکڑیوں کو جمع کرنے کے فوراً بعد ہم آگ جلا کر اس کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے۔ آگ خاموش اور پر سکون رات میں ہمارے آس پاس کی کچھ جگہ کو روشن کرتی ہوئی آہستہ آہستہ سلگ رہی تھی۔ ہم پر غنودگی طاری ہو رہی تھی۔ مگر اس کے باوجود ہم ایک دفعہ اور کچھ کھانے کے لئے تیار تھے۔
’’بھائیو‘‘ بڑھئی نے کہا وہ ہم سے کوئی تین قدم کے فاصلے پر لیٹا تھا کبھی کبھی اس گنگناہٹ سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہے۔
’’ کیوں ‘ کیا ہے؟‘‘ سپاہی نے درشت لہجے میں اس سے دریافت کیا۔
’’ کیا میں تمہارے پاس آگ تاپنے کے لئے آ سکتا ہوں ؟…. مجھے اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھی…. میرے جوڑ جوڑ میں شدت کا درد ہے…. آہ، خدا! میں کبھی گھر نہ پہنچ سکوں گا!‘‘
’’ ادھر سرک آؤ‘‘ طالب علم نے اسے اجازت دے دی
بڑھئی آہستہ آہستہ رینگتا ہوا آگ کے پاس آ گیا وہ اس انداز سے اپنے بدن کو حرکت دے رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا: اسے اپنے اعضا کے ٹوٹنے کا خدشہ ہے وہ دراز قد مگر بہت نحیف تھا۔ اس کا ہر عضو ارتعاش پذیر تھا۔ اور اس کی دھندلی آنکھوں سے درد و کرب کے آثار مترشح تھے۔ جو اسے اندر ہی اندر ہلکان کر رہا تھا اس کا افلاس زدہ چہرہ ہمارے الاؤ کی روشنی میں لاش کا سایہ زرد، مٹیالا اور ہیبت ناک نظر آتا تھا۔ اس کا تمام جسم کانپ رہا تھا۔ یہ ارتعاش ہمارے دل میں نفرت آمیز ہمدردی کے جذبات پیدا کر رہا تھا۔ استخوانی ہاتھوں کو آگ کی جانب بڑھا کر ان کو آپس میں رگڑتے وقت اس کی انگلیوں کے جوڑ چٹخ رہے تھے۔ قصہ مختصر اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا جا سکتا تھا۔
’’تم نے ایسی حالت میں پیدل سفر کیوں اختیار کیا….ہائے،کنجوسی!‘‘سپاہی نے اس سے دریافت کیا۔
’’ انہوں نے مجھے منع کیا تھا…. کہ سمندر کے راستے نہ جاؤ، صلاح دی تھی، کے خشکی کے راستے کریمیا ہوتا ہوا جاؤں …. مگر بھائیو، میں اپنا سفر اب جاری نہیں رکھ سکتا…. میں مر رہا ہوں …. میں اس میدان میں تن تنہا مر جاؤں گا پرندے میری نعش کو نوچ لیں گے…. کسی کو خبر تک نہ ہو گی…. میری بیوی اور میری لڑکیاں میری منتظر ہوں گی…. میں انہیں خط لکھ چکا ہوں …. اس میدان میں بارش میری ہڈیاں بہا کر لے جائے گی…. آہ میرے پروردگار!…. میرے پروردگار!!‘‘
اس کی آواز کسی زخمی بھیڑئیے کی درد ناک چیخ یا پکار کے مانند تھی۔
’’ آہ، شیطان‘‘ سپاہی نے جست کر کے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔’’ یہ بک بک کس لئے لگا رکھی ہے تم نے۔ کیا تم ہمیں ایک لمحہ چین بھی لینے دو گے یا نہیں …. مرنا چاہتے ہو تو مر جاؤ مگر خدا کے لئے ذرا خاموش رہو…. تمہاری ضرورت بھی کس کو ہے؟…. اب خاموش ہی رہنا‘‘
’’ سر پر ایک دھول نہیں جما دیتے!‘‘ طالب علم نے سپاہی کو صلاح دیتے ہوئے کہا۔
’’ چلو اب سو جائیں ‘‘ میں نے کہا’’ اور رہے تم! اگر آگ تاپنا چاہتے ہو تو خدا کے لئے زبان منہ میں ہی رکھنا۔‘‘
’’ سن رہے ہو؟‘‘ سپاہی نے بڑھئی سے غصے میں دریافت کیا’’ یہ خیال دماغ سے نکال دو کہ ہم تم پر ترس کھا کر تمہاری تیمار داری کریں گے۔ اس لئے کہ تم نے ہمیں روٹی کا ٹکڑا دیا تھا اور ہم پر فائر کیا تھا۔ تم مکمل شیطان ہو….یہ کام کوئی اور ہی کرے گا۔‘‘
سپاہی نے اور کچھ نہ کہا اور اپنے آپ کو زمین پر دراز کر دیا۔ طالب علم پہلے ہی سے لیٹا ہوا تھا۔ میں بھی لیٹ گیا۔ خوفزدہ بڑھئی جسم کو سکیڑتے ہوئے الاؤ کی طرف بڑھا۔ اور آگ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔ میں اس کے داہنے پہلو میں لیٹا اس کے دانتوں کی رگڑ کی آواز کو سن رہا تھا۔ طالب علم اس کے بائیں طرف سکڑا ہوا تھا اور غالباً لیٹتے ہی سو گیا تھا،۔ سپاہی اپنے سر کو ہاتھوں کا سہارا دیئے آسمان کو تک رہا تھا۔
’’ کیسی سہانی رات ہے، کس قدر ستارے چمک رہے ہیں ‘‘ تھوڑے عرصے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا’’ دیکھو ایک لحاف کی طرح معلوم ہوتا ہے…. جہاں نور دی کی اس زندگی کو میں واقعی پسند کرتا ہوں …. گو ایسی زندگی میں سردی کی شدت اور فاقہ کشی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ مگر آزادی تو ہے…. تمہارا کوئی آقا نہیں اپنے کارو کردار کے تم خود مالک ہو…. اگر اپنا سر بھی چاٹنا چاہو تو تمہیں کوئی روکنے والا نہیں …. یہ زندگی خوشگوار ہے!…. ایام فاقہ کشی نے میری طبیعت کو بگاڑ دیا تھا…. مگر اب میں یہاں لیٹا آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ستارے جھلملا رہے ہیں۔ جیسا کہ وہ مجھ سے کہنا چاہتے ہیں ، لیکوتن، کچھ پروانہ کرو، جاؤ، سیاحت کرتے رہو مگر خیال رہے کسی کی غلامی قبول نہ کرنا…. دل کس قدر مسرور ہے!’’…. میاں بڑھئی کہو،تمہارا کیا حال ہے…. بھئی خفا مت ہونا ہم سے۔ اگر ہم نے تمہاری روٹی کھا لی ہے تو کیا مضائقہ ہے ؟ تمہارے پاس کچھ کھانے کو تھا اور ہم بھو کے تھے، چنانچہ ہم نے اسے کھا لیا…. مگر تم بہت خطر ناک آدمی ہو۔ تم نے ہم پر گولی چلائی تھی…. تمہاری اس حرکت نے مجھے سخت برانگیختہ کر دیا تھا اور اگر تم خود بخود زمین پرنہ گر پڑتے تو میں تمہیں اس گستاخی کا مزا چکھا دیتا…. روٹی کا افسوس نہ کرو۔ پیری کوپ پہونچ کر تم کھانا خرید سکتے ہو…. مجھے معلوم ہے کہ تمہارے پاس نقدی ضرور موجود ہے…. کب سے بخار آ رہا ہے تمہیں ؟‘‘
ایک عرصے تک سپاہی کی بھدی اور کرخت آواز ا ور بڑھئی کی لرزاں گنگناہٹ میرے کانوں میں گونجتی رہی۔ رات…. جواب کا جل کی طرح سیاہ تھی، زمین پر اپنی پوری تاریکیوں کے ساتھ نیچے اتر رہی تھی۔ میرے سینے کو فضا کی بھینی بھینی خوشبو فرحت بخش رہی تھی۔ آگ کی ہلکی روشنی اور اس کی گرمی جان بخش تھی…. میری آنکھیں بند ہو گئیں۔
’’ اٹھو، جلدی کر…. چلو چلیں !‘‘
میں گھبرا کر اٹھا اور سپاہی کی مدد سے جو مجھے آستین پکڑ کر زور زور سے جھنجھوڑ رہا تھا فوراً کھڑا ہوا۔
’’ چلو،اب تیزی سے قدم بڑھاؤ!‘‘
اس کے چہرے سے گھبراہٹ ہویدا تھی۔ میں نے اپنے گردو پیش نگاہ دوڑائی۔ سورج طلوع ہو رہا تھا اور اس کی ایک گلابی کرن بڑھئی کے ساکت اور مردہ چہرے پر پڑ رہی تھی…. اس کا منہ کھلا تھا، اس کی آنکھیں جو باہر کو ابھری ہوئی تھیں ایک بے نور اور دہشت زدہ صورت میں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں اس کا کرتہ چھاتی کے مقام سے پھٹا ہوا تھا۔ اور وہ ایک غیر فطری انداز میں زمین پر اینٹھا پڑا تھا۔
’’ بہت دیکھ چکے، چلو اب، میں کہتا ہوں اب چلو!‘‘سپاہی نے میرا بازو کھینچ کر چلنے کو کہا۔
’ ’کیا یہ مر چکا ہے؟‘‘ میں نے صبح کی نا خوشگوار تازگی اور سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’ ہاں ، مر چکا ہے، اگر تمہارا گلا گھونٹ دیا جاتا تو یقیناً تم بھی مر جاتے‘‘
تو کیا، یہ…. یہ طالب علم نے تو نہیں کیا؟‘‘ میں چلا اٹھا۔
’’اس کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ کیا تم نے یا میں نے اس کو مارا ہے پھر؟….یہ ہے پڑھے لکھوں کا حال…. اس نے اس کو بڑی چالاکی سے ہلاک کر دیا ہے اور اپنے دوستوں کو آفت میں پھنسا کر چلتا بنا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ وہ ایسا غدار ثابت ہو گا۔ توکل ہی میں نے ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کر دیا ہوتا…. کنپٹی پر ایک گھونسہ جماتا اور دنیا سے ایک رذیل اور بد کردار شخص ہمیشہ کے لئے کم ہو جاتا…. کیوں اب سمجھے کچھ کہ اس نے کیا کر دیا ہے؟ اب بہتر یہی ہے کہ یہاں سے بھاگ چلیں ، پیشتر اس کے کہ ہمیں کوئی اس میدان میں دیکھ لے…. سمجھے کچھ؟ بہت جلد انہیں بڑھئی کی لاش مل جائے گی، اور وہ قاتل کے سراغ میں مصروف ہو جائیں گے۔ اور ہم ایسے آوارہ گردوں کو پکڑ کر طرح طرح کے سوالات پوچھیں گے، گو میں اور تم بالکل بے گناہ ہی ہیں …. یہ اور مصیبت ہے کہ اس کی پستول میری جیب میں پڑی ہے۔‘‘
’’ پھینک دو اسے، پھینک دو!‘‘ میں نے اسے صلاح دی
’’ پھینک دوں ؟‘‘ سپاہی نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا‘‘ وہ کیوں ؟ یہ تو قیمتی چیز ہے۔ شاید ہم بیچ نکلیں ! نہیں میں تو اسے ہر گز نہ پھینکوں گا…. اس کی قیمت تین روبل کے قریب ہو گی…. یہ کون معلوم کر سکتا ہے کہ اس بے چارہ کے پاس کوئی ہتھیار بھی تھا یا نہیں …. اس میں ایک گولی بھی ہے…. آہ! میں گولی اپنے اس دغا باز دوست کے دماغ میں اتارنے کے لئے کس قدر بے قرار ہوں !…. خدا معلوم وہ اس بے چارے کا کتنا روپیہ لے بھاگا ہے؟…. لعنت ہو اس پر!!‘‘
اور بیچارے بڑھئی کی لڑکیوں کا کیا حشر ہو گا؟‘‘ میں نے سپاہی سے کہا۔
’’ لڑکیاں ؟…. کس کی لڑکیاں ؟ ہاں ، بڑھئی کی…. کیوں ، وہ جوان ہو جائیں گی۔ اور ہم سے تو وہ شادی کرنے سے رہیں …. ہم ان کے متعلق کیوں فکر کریں چلو، بھائی، اب چلیں ….مگر جائیں کس طرف!‘‘
میں نے مڑ کر دیکھا۔ بہت دور ایک سیاہ پہاڑی کے اوپر سورج چمک رہا تھا۔
’’ کیا دیکھ رہے ہو کہ وہ زندہ تو نہیں ہو گیا۔؟ بے خوف رہو، اب وہ اٹھ کر ہمارا پیچھا نہ کرے…. یہ اپنے کام کا پورا ماہر معلوم ہوتا ہے، دیکھو تو اس نے اس غریب کو کس طرح سرد کیا ہے…. کیسا شاندار رفیق تھا! اس نے ہمارے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیا ہے…. آہ! اب اخلاق روز بروز رو بہ تنزل ہے لوگ بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ سپاہی نے غمگین لہجے میں کہا۔
خاموش اور سنسان میدان سورج کی روشنی سے معمور تھا جو ہمارے گرد و پیش، افق پر آسمان کی نیلاہٹ کے ساتھ اس دلنواز انداز میں تحلیل ہو رہی تھی کہ اس وقت تمام سیاہ کاریاں اور غیر منصفانہ کام میدان کی اس عظیم الشان سادگی اور وسعت میں آسمان کے نیلے گنبد کے نیچے بالکل نا ممکن معلوم ہوتے تھے۔
’’ بھائی، مجھے تو سخت بھو ک لگ رہی ہے!‘‘ میرے ساتھی نے ہاتھ سے سگریٹ بناتے ہوئے کہا۔
’’ مگر سوال ہے کہ ہم کھائیں گے کیا اور کہاں اور کب کھائیں گے!‘‘
یہی حل طلب چیز تھی…. ایک معما!
یہاں تک پہنچ کر ہسپتال میں اس شخص نے میرے ساتھ والے جو بستر پر لیٹا ہوا تھا اپنا قصہ یوں ختم کر دیا۔ یہ داستان کا خاتمہ ہے…. میں اور سپاہی گہرے دوست بن گئے۔ ہم دونوں نے کارس کے علاقے تک ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ وہ ایک رحمدل اور تجربہ کار آدمی تھا۔ میری نظروں میں اس کی بڑی عزت تھی۔ ایشیائے کو چک پہنچ کر ہم ایک دوسرے کی نظروں سے او جھل ہو گئے۔
’’ کیا تمہیں وہ بڑھئی اب بھی یاد آتا ہے؟‘‘ میں نے اس سے دریافت کیا۔
’’ جی ہاں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے آپ نے دیکھا ہے بلکہ جیسا آپ نے سنا ہے!‘‘
’’ اور کچھ نہیں۔ کسی قسم کا احساس بھی نہیں ؟‘‘
اس پر وہ ہنسنے لگا۔
’’ مجھے اس واقعے کے متعلق کس طرح احساس ہو؟ بڑھئی پر جو کچھ گذرا، اس کا میں ذمہ دار نہیں اور مجھ پر جو کچھ گذرا اس کے آپ ذمہ دار نہیں اور سچ تو یہ ہے کسی چیز کا کوئی بھی ذمہ دار نہیں …. اس لئے کہ ہم سب یکساں ہیں ، یعنی درندے!‘‘
٭٭٭