
جا چکے سے آخری مکالمہ ۔۔۔ ڈاکٹر عالم خان
جاچکے سے آخری مکالمہ
ڈاکٹر عالم خان
حیات کے سارے رشتے ، تیرے نام سے منسلک ہیں، زمان و مکان کی ہر ایک متفق یرے لیے ہی روشن ہے ۔۔—– خوا ہر عہد میں امر ہے، تو ہی آئندہ کے لیے ہے
کوا پہلے کی مانند ہمارے درمیان لوٹ آ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم، خالی بدن فضا
میں معلق، چیلوں کے غلیظ گھونسلے بن گئے ہیں۔ ظہر عافیت کے در بند ہو چکے ہیں۔ رفتہ رفتہ ساری خواہشوں نے یوں ہتھیار پھینک ڈالے کہ جیسے ہندسوں میں، ان کی تعداد بھی نوے ہزار ہوگئی ہو۔ ہمارے سر، ہمارے دھڑوں پر نہیں ہیں۔ ہمارے بازی بھی کٹ چکے ہیں۔ اری ساری اکائیوں کا کل ہے ،لوٹ آ! کہ تیرے بناسب زاویے منتشر ہیں ۔ ہجوم ، گھروں اور عبادت گاہوں کے درمیان ، کھلے آسمان کے نیچے کھڑا ، اپنے جاچکے کو صدائیں دے رہا تھا۔ یہ اُسے پانے کی انتہائی گھڑی ہے، تب مسجدوں کی اذانیں، داروں کی گھنٹیاں گرجا گھروں کے گھڑیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ خوف سیٹیاں ، مجرم صدائیں ، خصوصی دعا ئیں اور عمومی چھیں ایک ساتھ گونجتی ہیں۔
یہ سب وہی تھے، جو ا سے ہر قیمت پر پالینے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ دعا ئیں ، صدائیں اور انہیں پھر اک قیامت کا شور ۔۔۔۔۔۔ وہ کہاں تھا، کسی کو خبر نہیں تھی
۔۔۔۔۔ وہ
ضرور آئے گا، سب کو یقین تھا ، شاید اسی لیے جب وہ تھک ہار کر ایک دوسرے کو تکنے لگے تو۔ فضا میں اک شناساسی آواز ابھری:
تم گھروں اور عبادت گاہوں سے نکل کر محصور ہو چکے ہو کہ اب تمھاری منزل کہاں ہے اور پھر مجھ پر سیدالزام، کہ میں کھو گیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو ایک طویل عرصہ تلک تمھارے درمیان تر پتا، سکتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تمھیں تھے، جولحہ بہ لمحہ مجھے وقت کرنے کی سازش کے مرتکب ہوئے تھے۔ میں موقع پا کر تمھارے تاریک سیل (Cell)
سے بھاگ آیا ، ورنہ تمھارا ہر قدم مجھ کو زندہ دفن کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔“ یہ جھوٹ ہے ، بہتان ہے۔ اگر ہم ایسے ہوتے ، تو تجھ کو صدائیں نہ دیتے ۔ ہجوم پھر چیخ اٹھا، صدا پھر سے گونجنے لگی: تمھیں یاد ہوگا، کہ تمھاری بستی کے آس پاس کے گھروں میں خالی کنستر بجتے رہے۔ بچوں کو بہلانے کے خاطر، چولھوں میں بے فائدہ آگ جلتی رہی، مگر تم نئی صبح کے گیت گاتے رہے۔ جب میں نے مزاحمت کی ، تو تم اپنے اپنے کرتے اٹھا کر پیٹ کے پتھر دکھانے لگے ، گویا بانٹ کر کھانا ضروری نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر جب میں نے کہا، کہ لنگی اور کھسے کی چمک نے تمھاری چنگیروں کی روٹیوں کو خشک کر دیا ہے۔ تم کھیتوں کی گڈنڈیوں پر آ گی گھاس کے لئے : ایک دوسرے پر فائر نہ کرنا کہ تمھارا دشمن وہی ہے، جو تمھارے پیچھے کھڑا ہے۔ تم نہایت ڈھٹائی سے مسکرا کر کہنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ہمیں کھانے کو دے، ہم سے کام کیوں نہ لے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر دارو پینے کے اتنے رسیا ہوئے کہ گھر کی اولاد بے دار وہی مرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم تاش کے پتوں کو مساوی تقسیم کر کے اپنے اپنے رنگوں میں یوں کھو گئے، کہ جیسے باہر بھی، ہر ایک کام برابری ہی کی بنیاد پر ہورہا ہے، یا ہونے کے امکانات موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تمھاری بلائنڈ چالوں نے گوداموں کی ساری گندم اجاڑ دی تو میں نے حد سے بڑھ کر مداخلت کی ۔۔۔۔۔۔ تم نے فاتحانہ قہقہ لگایا، اور پھر مجھے میرے عہد کے بیت جانے کی اطلاع دی
۔ خواہش، چه معنی دارد؟
میں کہ تمھاری متروکہ املاک ٹھہرا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے رابہلے کی
ہم چاہتے ہیں کہ ہماری شناختیں بھی نہ مٹنے پائیں ۔۔۔۔۔۔۔ تو جو ہمارا مربوط ماضی بھی ہے، اگر لوٹ آئے ، تو ہم سب کی بقاء ہے۔ ہجوم نے پھر سے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ اور صدا پہلے سے زیادہ بلند ہوگئی :
تمھیں جس کا ڈر ہے ، وہ جرم کب کا کر چکے ہو، تمھیں خبر ہے، میں نے کہا تھا ، کہ تمھارے گیتوں اور تمھاری دھنوں کا ہماری دھرتی سے کوئی تعلق نہیں ہے، تب تم الیکٹرک گٹار کے تیز اونچے سُروں میں کہنے لگے ، تعصب بری چیز ہے، فن کسی ایک خطہ ارض کی داشت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اسی آڑ میں بدیسی زبان نغمے، بدن حرکتیں ہماری تہذیب کی بنیاد بن گئے اور تم نے ایسی تصاویر اور مجسمے بنائے کہ لوگ کبھی اس طرح کے نہیں تھے۔ کب تمھارے چہرے ندگی کی ہر خوشی سے تنے تھے؟ یا گوریاں تمھاری محبت میں حاملہ ہوئی تھیں ؟ یا بھرے دربار کی رقص محفل میں تمھارے نام پر جام انڈیلے گئے؟ تم تو بس یونہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی تھے۔ اور ہاں ! تم نے طلوع سحر کے مناظر کو برش سے سیاہ شیڈ دے کر کہا، کہ معروضی و
موضوعی صورتِ حال کا تقاضا یہی ہے۔ تم نے بحث ، سکر پٹ سکرپٹ ، چائے چائے مجھ کو بیجا ۔۔۔۔۔ مگر میں پھر لوٹ کر تم میں آن بستا۔ تم ہمیشہ مروجہ معاشی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت کو محسوس کرکے کسی قریبی سینما ہاؤس میں، سیکسی سوزن کا آخری شو دیکھنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یا پھر رات بھر مول کی سوانیوں کے بدن، اس طرح نوچتے رہے، کہ صبح تک آنے والے نئے حاکموں کی آواز پر لبیک لبیک کہنے کے سواء کوئی چارہ نہ تھا، جو کچھ انھوں نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ تم نے لکھ دیا ۔۔۔۔۔۔ اور یہی تمھاری تاریخ ٹھہری، جغرافیائی حد بندی بھی بہادر حملہ آوروں نے کی ۔۔۔۔۔۔ کلاس روم میں بچوں کو نوٹس جب خونی لکیروں سے ملکوں کی تقسیم ہو تو لکھوائے گئے کہ
—- اُسے ہی اپنی آزادی کی تاریخ کہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اُس روز عمارتوں پر چراغاں کیا جائے گا اور شہر بھر میں تعطیل ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کبھی تمھارے ساتھی نے اپنی خفت مٹانے کی خاطر تمھیں میری موت کی اطلاع دی تو ۔۔۔۔۔۔۔ تم جھٹ بول اٹھے کہ موت تو ایک اٹل حقیقت ہے ۔۔۔۔۔۔ اور وقت ہمیں بھی ایک روز مار ڈالے گا مگر قبل از وقت خود کو، بے روزگاروں کی لمبی قطار میں کیسے لگا دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ سمجھوتے تمھاری فطرت بنے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور باقیوں نے مجھے کو زندہ رکھنے کی آڑنے کر بے روزگاری کو اپنا وطیرہ بنایا ۔۔۔۔۔۔ اور موسموں کی شدید فائرنگ سے شہر کے
چوکوں میں ڈھیر ہو گئے۔
وردیوں کی سمارٹ نس نے تمھارے سروں کو جھکا یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ جیسے مارچ پاسٹ کی آوازیں، قومی ترانے کی مقدس دھنیں ہوں ۔۔۔۔۔۔ تم گولیوں اور جیپوں کی آواز سن کر گھروں میں دبکے رہے، یہ سوچ کر کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فی الوقت آگے بڑھنے کا
موقع نہیں ہے۔
اور پھر تمھارے جسموں پر ایسی کائی جمی کہ اُن کے عناصر ہوا میں تحلیل ہونے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سڑکیں ، فاحشاؤں کا روپ دھارے، تمھاری جوانی نگلنے لگیں، اور سیاست نے تم کو مٹی مٹی کیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور تم سیلف (Self) کے ایک چیک کی خاطر ، ایک دوسرے کے لئے وحشی بنے ، اسی لیے تمھارے سر اور بازو کئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں زخموں سے نڈھال، تم سے اتنی دور جا گرا کہ تمھیں میری خبر تک نہ ہونے پائی ۔۔۔۔۔۔۔ اور تمھارے بدن مجھ سے خالی ہوئے ۔ اب مجھ کو پانے کی کوئی بھی صورت نہیں کہ کبھی نہروں کی بسیں جا چکی ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور اگر مجھ کو پانا ہی مقصود ٹھہرا تو اپنے اپنے چہروں سے کتبے اتار پھینکو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہو کر سچائیوں کی طرف لوٹ جاؤ، کہ یہی میری بقاء کا راستہ ہے ۔۔۔ ۔ اس راستے کی طرف اٹھا ہوا، ہر ایک قدم میری سمت ہوگا۔ شہر حقیقت کا راستہ تمھارا منتظر ہے۔”
صد ختم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہجوم فلک شگاف نعرے لگا رہا تھا ہجوم نعرے لگاتا رہا۔ جیل کی خار دار چار دیواری پر لگی سرچ لائٹیں بدستور جلتی رہیں ۔۔۔۔ محافظوں کی خوف ناک سیٹیاں بج رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جرم گھڑیال کی آخری آواز گونجی اور نعروں میں گم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ محافظوں کی ڈیوٹیاں تبدیل ہونے کا وقت ہو چکا تھا۔ پچھلے پہر کے حفاظتی انتظامات سخت کر دیئے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی قیدی بھاگنے نہ پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کون جانے کہ اصل قیدی تو ایک مدت سے بھاگ کر جا چکا تھا۔