تبصرہ مورخ میری تاریخ نہ لکھنا ۔۔۔ ثروت نجیب
فارحہ ارشد کا افسانہ ” مورخ میری تاریخ نہ لکھنا “
تجزیہ : ثروت نجیب ( افغان شاعرہ )
مورخ ـــ تاریخ بھی کتنی سفاک ہوتی ہے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتی ہے ـ آنے والی نسلیں پرکھوں کے داغ دھوتے دھوتے تھک جاتی ہیں مگر داغ نہیں مٹتے ـ
لکھاری کبھی کسی کے حق اور کسی کے خلاف نہیں لکھتا ـ ایک اچھا لکھاری نیوٹرل ہو کر وہ سفاک سچ لکھتا ہے جس کا کوئی بھی سامنا نہیں کرنا چاہتا ـ قاری کبھی خوف کی وجہ سے ‘ کبھی جان کی امان کی خاطر اور کبھی اندھی عقیدت میں وہ لبوں پہ چپ سجا کر سینا پھلائے اکڑ کر چلتا ہے مگر اندر اندر کہیں نا کہیں اسے بھی ایک خلش کچوکے لگاتی یے ـ قاری چاہتا ہے کوئی سچ لکھے ـ مگر لکھنے والے بھی ڈرتے ہیں تو کون لکھے ـ ایک لفظ بہت معتبر ہے وہ ہے ” کیوں ” ؟ اس ایک لفظ نے بارھا دنیا کو الٹا پلٹا ‘ بار بار پرکھا ـ پر ہر ایک اپنی مرضی اور شعور کے مطابق جواب پا کے مطمئن ہوگیا ـ مگر کیوں کی تشنگی ختم نہیں ہوتی ـ جب تک جرات ہے کیوں قائم رہے گا ـ
افسانے کے محاسن اور یہ بحث کہ یہ افسانہ ہے کہ نہیں بڑی عجیب منطق ہے ـ تخلیق کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالنے والے اپنے طے شدہ سانچے لے کر اس سے جو جانچ کرتے آ رہے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنے سانچے توڑ دیں ـ نئی نسل کو کوزوں کا محتاج نہ کریں ـ پھوڑنے دیں یہ کوزے کہ دشت پہ پانی گرے اور کچھ ہریاول ہو ـ کوئی سوندھی خوشبو آئے ـ ادب کی مٹی جدت کی بوند بوند کو ترس رہی ہے ـ یہ افسانہ کوزے سے بغاوت پہ مبنی ہے ـ پہلے اس نے ادب میں عام ڈگر پہ چلنے سے انکار کیا ـ پھر یہ ملکی و بین الاقوامی حالات کے سامنے ڈٹ گیا ـ
انقلاب باہر سے نہیں اندر سے آتے ہیں ـ شاہ ایران کے خلاف بیٹا باپ کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا کہ ” اب بس ” ـ
انقلاب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو ایسی بےشمار مثالیں نظر آئیں گی ـ
وہ مقدس ہستی جس کا نام لیتے ہی اکثر کی انگلیاں اس نام کو ہونٹوں سے چُن کے آنکھوں پہ لگا دیتی ہیں ـ کالی کملی والے کے گن گانے سے پہلے کیا کبھی یہ سوچا انھوں نے پیغمبر اسلام نے انقلاب کہاں سے شروع کیا تھا؟ ـ کیا وہ افغانستان آئے تھے خطبہ دینے کے لیے ـ کیا ایران گئے تھے قیصر کے محل گرانے’ مصر یا یونان؟ کہیں نہیں انھوں نے اپنے گھر ‘ اپنے قبیلے ‘ اپنے چچا اور دادا کو چلینج کیا تھا ـ کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ یہ لات ‘ منات کیا ہیں؟ پھر سارے بت ٹوٹے ان کا پیغام ایران افغانستان ‘ مصر و یونان تک پھیلتے پھیلتے ایک بڑا دین بن گیا ـ فارحہ ارشد نے بھی ایک انقلاب کو دعوت دی ـ اپنے لوگوں سے پوچھا؟ یہ کیسی جنگ ہے؟ جو چالیس سال سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ـ کیوں؟ کون کودا اس میں ؟ کیوں کودا؟ کس لیے کودا؟ جہاں مقدس گاؤ کو پرائے باغ ستیاناس کرنے پہ کوئی ہنکارے تو وہ غدار ہوتا ہے ـ جبکہ وہ غدار نہیں ہوتا وہ عاقل ہوتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے اپھارہ ہو گا اسے تو علاج معالجہ اور خدمت خاطر پھر ہم ہی نے کرنی ہے ـ نام بھی ہمارا ہی بدنام ہوگا
ایک معصوم سا سوال کیا تھا کسی نے یہ ایلفی اپنی بوتل میں کیوں نہیں چپکتی؟
سوچیے کیوں نہیں چپکتی؟ یہ ہمارے ہاتھ اور لب ہی کیوں چپکا دیتی ہے؟
جیسے ماں کے قدموں تلے جنت اور باپ جنت کا دورازہ ہے کہہ کر بیٹی کی کمر پہ مکا مار کے اس کا زبردستی نکاح کروا دیا جاتا یے اور کوئی آس پڑوس کوئی چاچا ماما نہیں بولتا مگر ادیب بولتے ہیں ـ ادیبوں نے خدا سے گلے کیے ـ سماج سے ٹکر لی ـ روایتوں کو توڑا ـ رسموں کے خلاف آواز اٹھائی وہ اب ان عقوبت خانوں کے خلاف لکھتے ہیں جہاں اٹھارہ انیس سال کے لڑکوں کو بھرتی کر کے انھیں شہادت کا سبق پڑھایا جاتا ہے ـ کیا فرق ہے شدت پسندوں اور ریاستی اداروں میں؟ دونوں حسن بن صباح کی جنت میں رہتے ہیں ـ وہی فدائی ‘ وہی حشیش وہی قلعے وہی جنگ ـ شدت پسند بھی بہتر حوروں کے لیے ‘ جنت کے ٹھنڈے میٹھے چشموں کے لیے دوسروں کی زندگی جہنم بناتے ہیں اور ریاستی ادارے بھی جنت کا نعرہ لگا کر جنگ میں کودتے ہیں ـ سب کو برین واش کیا جاتا ہے ـ حکم کے غلام ـ کبھی کبھی حکم صادر ہو یا نہ ہو حکم کے غلام برسٹ کھول دیتے ہیں سرحدوں پہ ـ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پہ بم گرانے والا کیوں نفسیاتی مریض بن گیا تھا؟ وہ تو ملک کی خدمت کر رہا تھا ـ ‘ دین اور حدوداربعہ انسانیت سے بڑھ کر ہرگز نہیں ـ جنگ میں کوئی کھیل نہیں ہوتا جس میں ہار جیت ہو ـ جنگ بربریت ہے جس میں کوئی نہیں جیتا ـ آخر میں برلن کی دیوار بھی گر جاتی ہے اور ہٹلر بھی خود کشی کر لیتا ـ پھر اسی منہ سے تنظمیں بنتی ہیں کہ امن کیا قیام ممکن ہو ـ فارحہ نے جو لکھا اس میں سختی کرختی نہیں تھی ـ سختی کرختی ان حالات میں تھی جس کو محسوس کر کے لکھا ـ یہ ایک مونوکروم افسانہ تھا ـ نیلے رنگ کی مختلف شیڈز میں ڈھلا ہوا ـ جس کے ہر لفظ اور جملے میں یاسیت تھی ـ ہونی بھی چاہیے ـ دکھ تو یہ ہے کہ پڑھنے والے لفظوں کی کرختگی کو محسوس کر گئے مگر ان ماوں کے درد فراموش کر دیے جن کے بیٹے کبھی گھر نہیں آئے ـ زندہ یا مردہ کچھ خبر نہیں ـ دو پہلوانوں کی کشتی تھی ـ سپرپاورز ببنے کی تمنا ـ اگر پاکستان مڈ مین نہ بنتا تو کیا افغانستان مقبوض ہو جاتا. نہیں جنگ کا دورانیہ طویل ہو جاتا ـ مگر انجام ایسے بھیانک نہ ہوتا جیسے اب ہو رہا ہے ـ لر اور بر ـ یعنی افغانستان کے اس طرف اور اس طرف پشتون قوم کی نسل کشی ہی نہیں ہوئی صرف بلکہ اس میں وہ سپوت بھی مارے گئے جن کو کفار کے خلاف جنگ کے لیے بھرتی کیا تھا ـ اس جنگ میں مذہب اسلام بدنام ہوا ـ اس جنگ میں انسانی جانوں کا نقصان ہوا ـ اس جنگ میں سارا خطہ ناسور بن گیا ـ مورخ کیا لکھے گا ـ مورخ تو اصل میں ادیب ہے جو لکھتا ہے ـ ورنہ مورخ نے مطالعہ پاکستان لکھ کر گندھارا ‘ موہن جو دوڑو کی ساری تہذیب ہی مٹا دی ـ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے مسائل’ قاعداعظم کے چودہ نکات(جو کسی کو کبھی یاد نہ ہو سکے) نہرو رپورٹ ـ شدھی تحریک ـ تحریک خلاف ـ بنگال کی تقسیم ـــ یہ پاکستان کی تاریخ ہے تو اس سے پہلے کی تاریخ کہاں ہے؟ ہندوستان میں کیا تاریخ ایسے مسخ ہوئی ؟ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا . یہ تو پڑھایا جاتا ہے ـ مگر کیوں نہیں کیا تسلیم ـ یہ نا پڑھا کر نفرت کو ہوا دی جاتی ہے .آخر طالب علموں کو یہ کیوں نہیں بتاتے ـ بتائیں نا ‘ انگریز جاتے جاتے ڈیورنڈ لائن کا فتنہ چھوڑ گیا تھا ـ وزیریستان کے عوام فوجی آپریشن سے پہلے تک بنا تنخواہ کے آرمی کے سپاہی مانے جاتے تھے ـ اچانک دشمن ہوگئے ـ کیسے ؟ کبھی سوچا یہ کم بخت سندھ ‘ کے پی کے اور بلوچستان ہی کیوں سلگ رہا ہے؟ گرم ہوا سے پنجاب کیسے محفوظ ہے ـ مجھے گلہ ہے پنجاب کی مائیں کیوں اپنے بیٹوں سے نہیں کہتیں تم سجیلے جاٹ ‘ ہل چلانے والے زمین کا سینہ پھاڑ کے اس سے اناج اگانے والے تھے ـ تم کشتی بنانے والے دریاوں کے دو پاٹ آپس میں ملانے والے تھےـ یہ ہتھیار کیوں اٹھائے وہ بھی اپنوں کے خلاف ـــ پھینک دو ـــ
ونجلی کی مٹھری تان سنے زمانے ہوگئے ـ ہم انگور بھیجتے ہیں وہ فتور بھیجتے ہیں ـ بتائے نا کوئی ان کو جنگ میں نقصان دوطرفہ ہوتا ہے ـ جنگ مسئلہ ہے حل نہیں ـ
جنت دراصل گھر کوکہتے ہیں ـ اس کائنات میں اور کہیں جنت دوزخ نہیں صرف ڈراوا ہے ـ تم گھر بساؤ ـ سرحد کی حفاظت اور دراندازی دو الگ چیزیں ہیں ـ افغانستان ناقابل تسخیر تھا ‘ ہے اور ریے گا ـ مزے کی بات سنیے! اب امریکہ کہتا ہے ” ہم افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں ‘ پاکستان تعاون کرے ”
بڑے بےآبرو ہو کے تیرے کوچے سے ہم نکلے
کو قومی شاعر کہتے ہیں آپ سارا دیوان تو افغانستان کے حق میں لکھ گئے ـ ان کے اشعار کی تشریح کریں تو فارحہ ارشد کا افسانہ نکلے گا اس سے ـ یہ جو اردو ہے نا یہ بھی افغان مغلوں کی دین ہے ـ لر او بر دونوں افغان دونوں پریشان ـ
” تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ”
کس طرح گوشت سے ناخن جدا کرو گے ؟ نہیں ہوسکتا ـ ہو بھی گیا تو پھر ناخن اگ آئے گا ـ یہ فطرت ہے ـ فطرت کے خلاف جنگ بالکل ایسے ہے جیسے آپ چاند پہ تھوکتے ہیں ـ
” نہ چنانم کہ تو گوئی
نہ چنینم کہ تو خواہی ”
فارحہ ارشد آپ کی جرات کو سلام ـ آفاقی افسانہ جنگ کے لیے مثال آئینہ لیکن قلم کو جلا کر ہم بجھے تندور پھر سے دہکائیں گے ـ تاکہ اللہ کے نام پہ جانور ذبح ہوں انسان نہیں ـامید پہ دنیا قائم ہے
(یہ افسانہ پینسپلس میگزین کے شمارہ 171 میں شائع ہو چکا ہے(
بہت خوب ہزار داستان بہت اچھا لکھا، ادیب سوال تو اٹھاتے ہیں مگر بدقسمتی سے افغانستان اور پاکستان میں ادیب اس فیصلہ ساز گروہ میں شامل نہیں ہیں جو جنگیں لگانے کا حکم دیتے ہیں اور دوسروں کے بچوں کو اس میں جھونکتے ہیں۔ ادیب بس لکھ سکتا ہے اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاسکتا ہے اور وہ کام سیدہ فارحہ نے بہت عمدگی سے انجام دیا ہے۔