
عاصم جی حسین کے لیے ۔۔۔ مسعود قمر
بوس و کنار کرتے آگ کے شعلے
(عاصم جی حسین کے نام )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاصم کے حروف
میرے اندر کی مٹی پہ
لکھے جاتے رہتے ہیں
جنہیں میں آگ میں پکاتا رہتا ہوں
تابوت میں
ہم جیسے لوگوں کی موت
پوری نہیں آتی
اس لیے ہمیں قسطوں میں
مرنا پڑتا ہے
ہمارے دریا کا سارا پانی
سوہنی کا گھڑا پی گیا
بے کناروں والے دریا میں اب
پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں کے
خیمے لگے ہوئے ہیں۔
جن میں کوئی مخلوق
رات کو ریت جلاتی ہے
جس کے شعلے بستی کی
گلیوں میں
بوس و کنار کرتے پکڑے گئے ہیں
ہمارے ادھ کٹے بازو ہمیشہ
شادی کی انگوٹھی سے خالی رہے
بغیر دیواروں کے
خوف کے بند دروازوں نے
ہمیں قید کر رکھا ہے
کیا کسی نے
دیمک کی تنہائی دیکھی ہے
میں اکثر اسے
اپنی نظموں میں دیکھتا ہوں
مسعود قمر
Facebook Comments Box