غزل ۔۔۔ شاہدہ حسن
غزل
شاہدہ حسن
نیند آ نہ سکی رات گزر جانے کے ڈر سے
میں سوئی نہیں خواب میں ڈر جانے کے ڈر سے
بھیجا ہے مجھے شوق سے خود میں نے سفر پر
قربت سے مری جی ترا بھر جانے کے ڈر سے
ہے موسم باراں میں بھی شاخوں کا عجب حال
کھلتے ہیں نہیں پھول بکھر جانے کے ڈر سے
تنہائی میں کرتی نہیں اب دل سے کوئی بات
میں تیری محبت سے مکر جانے کے ڈر سے
اسباب طرب کچھ بھی ذخیرہ نہیں رکھتی
ہاتھوں سے یہ سب دولت و زر جانے کے ڈر سے
کر لیتی ہوں اشعار میں ہر سوچ کو تصویر
میں درد کی موجوں کے بپھر جانے کے ڈر سے
اقرار کیا اپنی ہی کوتاہی کا میں نے
الزام نئی نسل کے سر جانت کے ڈر سے
Facebook Comments Box