میری ترتیب میں صحرا مزاجی کار فرما ہے ۔۔ ثمینہ سیـد
غزل
ثمینہ سیـد
محبت کا شکستہ پن نظر کیا آئے باہر سے
یہ دیمک تو بدن کو چاٹتی رہتی ہے اندر سے
تمہارے ہجر کا یہ درد سر تو مستقل ٹھہرا
مجھے لگتا ہے جاں لے کے یہ اترے گا میرے سر سے
میری ترتیب میں صحرا مزاجی کارفرما ہے
بجھے گی پیاس کیا میری بھلا اشکوں کے ساگر سے
تیری دہلیز پر میں منتظر اپنی نہ رہ جاوں
یہی سب سوچتی ہوں لوٹ آتی ہوں تیرے در سے
میری خاموشیوں کو چیخ بننے کا بہت ڈر ہے
کوئی آواز اٹھنے لگ پڑی ہے میرے اندر سے
ثمینہ مسئلہ یہ ہے میری قامت سے کم تر ہے
ہمیشہ پیاس پی کر لوٹ آتی ہوں سمندر سے
Facebook Comments Box