بیعت ۔۔۔ ڈاکٹر آغا سہیل

بیعت

آغا سہیل

یہاں تک پہنچنے کے بعد اب میرے اندر کھلبلی مچی کہ اندر جاؤں کہ باہر رہوں ۔منی سی دہلیز

تھی ، ایک قدم میں پار کرنا کچھ مشکل نہ تھی ، لیکن یہی فاصلہ صدیوں کا فاصلہ بن گیا۔ عین دہلیز کے اوپر بلب روشن تھا اس کی روشنی میں میری پر چھائیں جھول رہی تھی کبھی سایہ رینگ کر دور تک پھیل جاتا کبھی سکڑ کر جھوٹا سا رہ جاتا کیونکہ ڈوری میں لٹکا ہوا بلب ہلکورے لے رہا تھا

اندر کمرے میں جو شخص بیٹھا تھا ، بہت ہی معروف شخصیت تھا ، لاکھوں کروڑوں افراد اس

سے بات کرنے مصافحہ کرنے کو ترستے تھے اور میں متعدد ملاقاتوں کے باوجود ابھی تک اپنے :

ہاتھ کی عصمت پر نازاں تھا کہ اس سے مس نہ ہوا تھا ، نہ میں نے مصافحہ کیا ، نہ سلام کیا اور نہ اس سے بات کی تھی حالانکہ اپنے ہاتھ کی اس آبرو کی حفاظت کے لیے مجھے کتنی جد و جہد کرنا پڑی تھی، یہ بات محض میرا ہی دل جانتا تھا ، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے فرق کیا پڑا، جہاں

کروڑوں انسان بیک جنبش نگاه قطار اندر قطار کھڑے ہو کر آداب بجالاتے ہوں اور گردنیں

خم کرتے ہوں وہاں کسی ایک گردن کے تنے رہنے اور کسی ایک ہاتھ کے تقدس کی حیثیت کیا

ہے تاہم میں نے یہ بھی دیکھا کہ مصافحہ کرنے والے کی بھی ہاتھ میں ید بیضا پیدا نہ ہوا کہ اس کی روشنی میں کچھ تھوڑے ہی سے نا اصلے کا سفر طے کر لیا جاتا ، کسی مٹھی میں وقت کی دولت سمت کر نہ آسکی ، ہاں اپنے ہی دل کی قندیل کی ننھی سی لو ضرور مدھم پڑ گئی ، مجھے اپنے دل کی حفاظت کرنا تھی ، میں بہت کنجوس ہوں، لوگ روشنیاں بانٹتے پھرتے ہیں اور میں دل کی روشنی کی حفاظت کر رہا ہوں۔

وہ شخص جو اندر کمرے میں بیٹھا ہے کیا سچ مچ  سر گروه مردماں ہے ، ممتاز ہے

سر بر آوردہ ہے اور اگر نہیں ہے تو پھر یہ گروہ مرد ماں کیوں حلقہ زن ہے کہ اسے سر گروہ بنا
رہا ہے ۔ میں بھی انہیں افراد میں سے ایک فرد ہوں وحدت ہوں اکائی ہوں تو خود کو ان میں

جذب کیوں نہیں کر دیتا ، ان میں خود کو گم کیوں نہیں کر دیا اور بڑھ کر اس شخص کا ہاتھ کیوں نہیں تھام لیتا جس طرح لوگوں کے ہجوم در ہجوم گروہ آکر اسے گھیرتے ہیں اس سے گفتگو کرتے ہیں احترام سے بار بار اس کے آگے سر جھکاتے ہیں اور ان کی بیگمات اٹھلاتی ہوئی اس کے

آگے پیچھے گھومتی ہیں ، اسے رجھاتی ہیں ، ہونٹوں پر جمی لپ اسٹک کی تہوں کو جماتی ہیں اور

ان کے شوخ رنگوں کو نکھارتی ہیں ، بیوروکریتس بڑھ بڑھ کر مصافحے کرتے ہیں، آنکھیں بچھاتے ہیں۔ دانت نکوستے اور خوشا مدیں کرتے ہیں اور اپنے گھروں کے ڈرائینگ رومز میں بے تکل احباب کی محفل میں اس کا مذاق بھی اڑاتے جاتے ہیں بالکل اسی طرح وہ اس سے پہلے والے

لوگوں کا مذاق اڑاتے تھے اور ہاتھ چومتے تھے ۔

لیکن میں کون ہوں، جو دہلیز کے پاس ٹھٹکا ہوا کھڑا ہوں اور میرے سر پر ڈوری میں بندھا ہوا

بلب ہلکورے لے رہا ہے جس کے سبب میرا پروفائیل زمین پر کبھی میرے سامنے کو لمبا کر دیتا ہے اور کبھی میرا سایہ سکڑ کر ایک نقطے میں سمٹ آتا ہے سایوں اور روشنیوں کی اس دھوپ چھانوں کے مابین میرا وجود پنڈولم بن کر رہ گیا ہے اور دہلیز کا یہ فاصلہ زمان و مکان کا فاصلہ بنتا جار ہا ہے جسے نہ میں پھلانگ سکتا ہوں اور نہ اپنے اور اُس کے وجود کو رمیان سے علیحدہ کر سکتا ہوں ۔

یہی نہیں بلکہ ہلکورے لیتے ہوئے بلب کی روشنی میں کبھی وہ نظر آجاتا ہے اور کبھی

اندھیرے میں چھپ جاتا ہے روشنی اور اندھیرے کی اس آنکھ مچولی کے مابین میرا ذہین کتنی

زقند میں بھرتا ہے اور سامنے کمرے میں بیٹھے ہوئے اس شخص کے کتنے ہیولے تبدیل کرتا

ہے خود میرا وجود جو تاریخ کے ایک خاص دائرے میں ایک منجمد نقطے کی حیثیت رکھتا ہے اندر

ہی اندر تحلیل ہو کر میری ہیئت بدل دیتا ہے لیکن پھر بھی میرا ہاتھ آگے نہیں بڑھتا، میرا ہاتھ میری

کلائی کے اندر سکڑ کر بیٹھ گیا ہے جیسے کچھوا اپنی گردن اندر کو چھپا لیتا ہے۔

وہ کہ جس نے طلسم سامری کا صور پھونکا اور فرعون کی بلند و بالا صندل پر تمکنت  سے متمکن

ہوا اس کے سامنے بھی نہ یہ سر جھکا نہ ہاتھ بڑھا اور وہ کہ جو آگ بھڑکا کر تمرد کے ساتھ خدائی

کا مدعی ہوا سر اس کے آگے بھی نہیں جھکا اور وہ کہ جس نے دریا کے کنارے فوجوں کے نرغے میں لے کر پانی بند کیا سر اس کے آگے بھی نہ جھکا اور نہ ہاتھ کلائی سے نکلا، یہ ساری کہانی وہی لے کر پانی بند کیا سر اس کے آگے بھی نہ جھکا اور نہ ہاتھ کلائی سے نکلا، یہ ساری کہانی وہی ہے۔ پرانی کہانی ، وہی جبر و تعدی اور وہی تھوڑا سا اختیار کہ جس میں سرکٹ تو سکتا ہے جھک نہیں سکتا ، واہ کیا خوب کج کلاہی ہے ، کل بھی تھی آج بھی ہے جذ بہ وہی ہے شکلیں بدلی

ہوتی ہیں ، تاریخ کے جبر کے سینے پر اختیار تھوڑے سے اختیار کی یہ کہانی ہمیشہ میں نے

رقم کی ہے کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے ۔

افریقہ کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں سیاہ فام غلاموں کا سرخ لہو، کل بھی سرخ تھا، آج بھی سرخ ہے یہ سفید نام جو اپنی دنیا میں رہتے ہیں اور حریف کی دنیا کو دوسری دنیا کہتے ہیں تیسری دنیا کے وجود سے منکر ہیں ۔ ان کے سفید اور سرخ چہروں کی تحریریں کل بھی سرخ تھیں آج بھی ہی ہیں ۔ڈوری میں سکے ہوئے بلب کی روشنی ہلکورے لے رہی ہے اور ان کے پرو فائل کوبار بار بدلتی ہے۔ مگر ان کے چہرے مہرے کی ساخت نہیں ان کے تیور نہیں بدلتے اُن کی آنکھیں انکی چین جبین نہیں بدلتیں ، ان گنت سیاه نام بچے، سیاہ ام عورتیں، ہڈیوں پسلیوں کا دھیر خالی پیٹ اور خالی کشکول لیے سفید فام آقاؤں کی طرف لپکتے ہیں مگر بیشتر کے کشکول خالی ہیں اور بہتوں کو ٹھوکروں اور لاتوں میں دھر لیا جاتا ہے۔ کشکول الٹ دیئے جاتے ہیں ۔ ٹھوکروں میں پڑے خون میں لتھڑے لقموں پر سیاہ فام بچے لپکتے جھپٹتے ہیں اور دنیا کی ایک بڑی عمارت کی سب سے اونچی منزل کے ایک عالی شان ڈرائینگ روم میں ایک سیاہ فام باشندے سے ایک سفید فام باشندہ مصافحہ کرتا ہے اور اس مصافحے کی بڑی بڑی تصویریں کھنچتی ہیں مصنوعی سیاروں کے ذریعے ساری دنیا میں نشرہوتی ہیں۔ جیسے ہی روشنیوں کے اس سیلاب سے دونوں ہاتھ باہر نکلتے ہیں سفید فام سیاه فام کے پانوں پر زوروں سے اپنا پاوں مارتا ہے کہ سیاہ فام بلبلا کر رہ جاتا ہے ، چیچنا ہے

اور فریاد کرنا چاہتا ہے لیکن سنگینوں کی نوکوں پر دھر لیا جاتا ہے کہ کراہتی ہوئی کسی شاعر

کی آواز بلند ہوتی ہے ، کراہ جو بلند ہوتے ہی اتاہ خاموشیوں میں جذب ہو جاتی ہے ۔

اے دنیا کے سفید فاموں

میں سیاہ ہوں

لیکن اندر سے سفید ہوں

مگر تم اندر سے سیاہ ہو

کیا نہیں دیکھا تم نے ایک کو را سفید کاغذ
اور نہیں جلا یا اس سفید کورے کا غذ کو آگ پر

اور نہیں بن جاتا یہ کو را سفید کا غذ سیاہ ،

پس اندر سے اسی طرح تم بھی برآمد ہوتے ہو سیاہ

اور ہم جو پہلے ہی جلے ہوتے سیاہ کاغذ کے مانند ہیں ۔

ہمیں مسل کر پھینک دو

تو ہمارے اندر کی سپیدی با ہر آجاتی ہے

جلے ہوئے کاغذ کو مسل دو تو

سفید راکھ بھی اسی طرح نکل آتی ہے۔

مگر کون سنتا ہے اسے نہ پہلے کبھی سنا ہے ، نہ اب کوئی سنتا ہے پہلے بھی ان کے

سیاہ فاموں سے بیگار لی جاتی تھی اہرام چنے جاتے اور قلعے بنتے تھے اور آج بھی ان کے لہو

کے گارے سے بڑی فلک بوس عمارتیں کھڑی کی جاتی ہیں اور وہ شخص بدستور معتبر لوگوں کے حلقے میں بیٹھا ہوا مسکرا رہا ہے اور اس کے مابین منی سی دہلیز حامل ہے جسے میں پھلانگ نہیں سکتا اور ڈوری سے بندھا بلب جھول رہا ہے۔ اسکے چہرے کو کبھی اندھیرے میں لے جاتا ہے کبھی روشنی میں لاتا ہے۔ وہ شخص جس سے میں نے مصافحہ نہیں کیا اور مجھے اپنے ہاتھ کے تقدس پر ناز ہے میں بار بار اپنے ہاتھ کو چوم لیتا ہوں معا دروازہ بند ہو جاتا ہے اندھیرا ہو جاتا ہے اور اس اندھیرے میں وہ شور و غل بلند ہوتا ہے کہ میرے کان کے پر دے پھٹنے لگتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلتا ہے تو کمرہ خالی ہے وہاں کوئی بھی نہیں ہے سناتا ہے اس اندھیرے سے چانک بعد دروازہ کھلتا ہے تو کمرہ خالی ہے وہاں کوئی بھی نہیں ہے سناتا ہے اس اندھیرے سے اچانک ایک انسانی ہیولی آہستہ آہستہ بر آمد ہوتا ہے اور مجھ سے کہتا ہے

مبارک ہو۔

میں ہکا بکا اس کا منہ تکتا ہوں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھتا ہوں کہ یہ کیسی مبارکباد

ہے وہ میرے ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتا ہے گویا کہہ رہا ہو کہ ہاتھوں کے تقدس کی ۔ میں ایک

بار پھر خوش ہو کر اپنے ہاتھ چومتا ہوں اور اس مجمع کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو ایک دم

غائب ہو گیا کہ وہ خود بول پڑتا ہے

چھت گر گئی سب کچھ ہلے میں دب گیا

چھت گر گئی

ہاں چھت گر گئی، تمھیں معلوم نہیں کہ کارپوریشن اس عمارت کو خطرناک ڈکلیئر کر چکی تھی۔ ہم یہاں اپنے رسک پر رہ رہے تھے ۔

اپنے رسک پر ؟

ہاں اپنے رسک پر

اب میں اپنے ان ہاتھوں کے تقدس پر کیا خاک خوش ہوں کہ جو اپنے تقدس کو تو بچا

سکتے ہیں مگر گھر کی چھت کو گرنے سے نہیں روک سکتے ۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

January 2025
M T W T F S S
 12345
6789101112
13141516171819
20212223242526
2728293031