باب ِ خمیازہ۔۔۔ عبیرہ احمد
باب ِ خمیازہ
عبیرہ احمد
مرا چوبی محل تو ٹوٹ جاتا
زمیں میں دھنس چکی ہوتیں فصیلیں
در و دیوار سرمہ بن کے گرتے
یہ محرابیں کسی صورت نہ بچتیں
ستوں سب ڈہ چکے ہوتے
زمیں بوسی کبھی کی بن چکی ہوتی مقدر
سر راہے مقامِ عبرت و تنبیہ بن کر رہ گیا ہوتا
بہت اچھا ہوا
میں جھومتے بد مست و بے خود ہاتھیوں کو
جنگلوں کو جانے والے راستوں کی سمت موڑ آئی
بہت اچھا ہوا
میں نے کسی بد مست خواہش کے تناور
فیل پیکر کی نمائش کے لیے
کھولا نہیں یہ باب ِ خمیازہ
ہراساں کرنے والے جھنڈ کی چوبی محل میں
بے دھڑک جلوہ نمائی کا ارادہ
میں نے خود ہی ترک کر ڈالا
Facebook Comments Box