شب بسری ۔۔۔ عبیرہ احمد
شب بسری
عبیرہ احمد
پلکوں سے پانی کا آخری ریلا کب کا گزر چکا ہے
باب سماعت چڑیوں کی چہکار کا رستہ دیکھ رہا ہے
آنکھوں پر خوابوں کی نا معلوم سی چادر
دھیرے دھیرے پھیل رہی ہے
سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر
آج بھی جلتے بھجتے سگنل
شب بیدار نوس کی جاگتی راتیں
دل کی ڈھارس کا سامان بنی ہیں
اور مادام کی چنچل لے میں
میر حسن کی ” ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیںؔ
کانوں میں مصری کی ڈلی سی گھل جاتی ہے
ہم بھی کسی سے کم تو نہیں
سو گاہے گاہے اپنی بھی آواز کا لطف اٹھا لیتے ہیں
اول شب میں کہا ادھوری نظم کا ٹکڑا
ان چاہے انجام پہ نالاں اک افسانہ
آخر شب جل جانے کو تیار رکھا ہے
ساری یادیں حفظ مراتب کی اہمیت جان گئی ہیں
بیتے لمحوں کی بھگدڑ میں کوئی نیا لمحہ کچلا جائے
اس کا امکان نہیں ہے
تنہائی کو تنہائی سے بہلانے کے سبھی قرینے
راز مقدس کی صورت خلوت میں آنے جانے لگے ہیں
آخر شب ہے
سارے کام ٹھکانے لگے ہیں۔
( نظمیں :: لکھتے رہنا)