بہت یاد آتے ہیں ۔۔۔۔ ابرار احمد
بہت یاد آتے ہیں
ابرار احمد
چھوٹے ہو جانے والے کپڑے ،
فراموش کردہ تعلق
اور پرانی چوٹوں کے نشان
اولین قرب کی سرشاری
,سرد راتوں میں ٹھٹھرتے ہوے ,ریتلے میدان
..پہلے پہل کی چاندنی میں
ڈھولک کی سنگت میں گاۓ ہوے کچھ گیت
اور نیم تاریک رہداریوں میں جگمگاتے لمس
…دوستوں کی ڈینگیں
..فراغت اور قہقہوں سے لدی کرسیاں
…کھیل کے میدان
…تنور پر پانی کا چھڑکاؤ
.گندم کی خوشبو اور مہربان آنکھیں
…بہت یاد آتے ہیں
…دسویں کے تعزیے
مٹی اور عرق گلاب سے مہکے سیاہ لباس
مستقبل کے دھندلے خاکے
.رخصت کی ماتمی شام
.کہیں کہیں جلتے اداس لیمپ
….سر پٹختی ہوا میں ہلتے ہوے
….اور رات کی بھاری خامشی میں دور ہوتی ہوئی ٹاپوں کی آواز
…بہت یاد آتے ہیں
بڑھے ہوے بال
منکوں کی مالا
سر منڈل کی تان
…پرانی کتابیں
….وقت بے وقت کیے ہوۓ غلط فیصلے
…پہلے سفر کی صعوبت
….دریا کے پل پر پھنسی ٹریفک اور ریل کی سیٹی
..وادی کا سینہ چیرتی ہوئی
……کچھ مکان اور دروازے
اور جب یہ دروازے بند ہوۓ
آہستہ آہستہ اترتے ہوے اضمحلال کی دھند میں
-بہت یاد آتے ہیں
دور کے آسمان …اور پرندے
…ایک ان دیکھی دنیا
..اور اس پر بنا ہوا عشق پیچاں کی بیلوں میں لپٹا ہوا
…چھوٹی سرخ اینٹوں والا گھر
….آتش دان کے پاس کیتلی سے اٹھتی بھاپ
….چمپی مخروطی انگلیاں
…مضراب کو چھیڑتی ہوئیں.
….ایک روشن جسم آنکھیں ملتا ہوا
یادوں اور خوابوں کے یہ چھوٹے چھوٹے دیے
….جلتے اور بجھتے رہتے ہیں-
…بجھتے اور جلتے رہتے ہیں
!!!اس روشنیوں بھرے شہر کی سرد مہر ، تاریک رات میں