سعادت حسن منٹو ۔۔۔ احمد ہمیش
ہماری کہانی کی تاریخ ۔ از سعادت حسن منٹو
مضمون از احمد ہمیش
سعادت حسن منٹو کی موت کو نصف صدی گزر چکی۔ اس سے قطع نظر کہ اُس نے اپنی قبر کے خود تحریر کردہ کتبہ کے مطابق خود سے سوال کیا تھا کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا! ظاہر ہے اس انتہا پسند دعوے پہ کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا سوائے اس کے کہ منٹوکی موت کے بیس سال بعد ہی اُس کی کہانیوں کے بیشتر کر دار مرنا شروع ہوئے تو اک اک کر کے سبھی مرگئے۔ پھر بھی وہ بیس سال اس لئے زندہ رہے کہ قاری پر اس کے طاقت ور اسلوب نے ایک طرح کے عارضی ہیجانی تاثر کو قائم رکھا۔ جب کہ منٹو کے ہم عصر کرشن چندر اور بیدی کے لگ بھگ سارے کردار ان کی زندگی ہی میں مر گئے ۔ پھر یہ امر بھی محل نظر ہے کہ کرشن چندر اور بیدی دونوں منٹو سے حاسدانہ رویہ رکھتے تھے۔ کرشن چندر کے کردار تو اس لئے مر گئے کہ ۹۵ فی صد ترقی پسند فرمانشی فارمولے اور %۵ مقبول عام شاعرانہ نثر لکھنے کی کیمرہ آگاہ کوشش نے اُن کے اسلوب کو بنتے ہی نہیں دیا۔ البتہ اس سے علحدہ بیدی کے کردار اس لئے مر گئے کہ محض منٹو سے حسد میں انہوں نے اپنی کہانیوں میں شامل مسلم کرداروں کو تضحیک کا نشانہ بنایا۔ اپنی سکھ اور ہندو مرکب وراثتی اوریجن کے عصبی اثر میں انہوں نے مسلمانوں سے کھلا تعصب برتا، اس سے منٹو کو بھی ہدف بنانا مقصود تھا۔
خلاف اس کے سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کے وہ کردار جو 47 کے فسادات کے تناظر میں وضع کئے گئے وہ اس کی موت کے ۲۰ سال بعد اس لئے زندہ رہے کہ اول تو منٹو نے ہندو مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی کی مذہبی اور قولی ونسلی تفریق کو خاطر میں لائے بغیر اُن کی بنیادی انسانی سرشت کو موضوع بنایا۔ ٹھنڈا گوشت کے سکھ کردار کو اس کی بیوی اس لئے ہلاک کر دیتی ہے ہے کہ وہ بنیادی انسانی سرشت کے زیر ار نامرد ہو گیا تھا۔ واقعہ ہی کچھ ایسا تھا کہ اس کی ابتلا میں پڑ کے مسلمان لڑکی کی بجائے اگر کوئی ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی لڑکی ہوتی تو اُس کا گوشت بھی ٹھنڈا ہوسکتا تھا اور سکھ، اس کی بیوی کی بلکہ کسی اور مذہب وقوم کے میاں بیوی ہوتے تو میاں کو نامرد پا کر یوں قتل کرسکتی تھی ۔ کہانی ” کھول دو” میں مطلوبہ مسلم لڑکی میکنہ کو بازیاب کر کے لانے والے اور اس کے ساتھ کھیتوں میں زنا بالجبر کرنے والے تو مسلمان ہی تھے۔ اگر منٹو ذرا بھی متعصب ہوتا تو مسلمان رضا کاروں کے حق میں نسیم حجازی بن جاتا۔ کہانی” موذیل ” میں مودیل کی جگہ کسی بھی مذہب کی لڑکی ہوتی تو پروفیشنل ہوتے ہوے بھی احساس آدمیت کی انتہا پر قربان ہو سکتی تھی۔ ظاہر ہے منٹو کے یہ مذکور کردار منٹو کی موت کے ہیں سال بعد بھی اس لئے زندہ ہے کہ 47 کے فسادات کے بعد بھی گذشتہ قتل و غارت گری کے اثرات برصغیر پاک وہند کی بنیادی انسانی نفسیات میں شدید دخیل رہے۔ پھر یہ بھی پایا، دیکھا اور محسوس کیا گیا کہ بر صغیر پاک وہند کو آزادی ملی وہ شرفا یا عام اور سادہ عوام کو نہیں ملی بلکہ آزادی صرف غنڈوں کوملی ۔ تاہم اس کو کیا کیا جائے که معنوی کہانی ” ممد بھائی ” میں ممد دادا جو انسانی ہمدردی کے ناتے بیمار کی خبر گیری کرتا جب کہ چاقو مار نے کی مہارت سے اپنے شکار کی آسان موت کا بڑا خیال رکھتا۔ سو جب اُس کا ایک شکار چاقو مارنے کی مہارت کے باوجود آسان موت نہیں مرا تو وہ بہت غم زدہ ہو گیا ہو ا۔ ظاہر ہے۔ ایسا آدرش کردار بر صغیر پاک و ہند کے ظالم و جابر غنڈوں کی کثرت میں دب دبا کے ضائع ہو گیا یا مر گیا۔
باقی تو منٹو کی کہانتوں میں پائی جانے والی رنڈیوں اور دلانوں کے کردار منٹو کی موت کے بعد جلدی مر گئے۔ اس کی تفصیل میں نہ جائے اگر یہاں صرف منٹوکی “ہتک” کی سوگندھی اور اُس کی کہانوں میں پائے جانے والے دلالوں پر مشتمل صرف ایک دلال خوشیا کردار کی موت کے حوالہ سے غور کیا جائے تو بر صغیر پاک وہند میں سوگندھی قبیل کی ایک رنڈی نہیں بلکہ اس کے پورے ادارہ کی یکسر کایا پلٹ ہوگی۔ ہوا یہ کہ اس نے جگہ بدل دی ۔ اس نے کراچی لاہور اوردہلی کی ڈیفنس سوسائی میں قیام . کر لیا۔ اس کے گیراج میں کئی کاریں نظر آنے لگیں۔ اب وہ بونس واوچر کا دام بتانے لگی اور اسٹاک ایکسچینج میں مختلف بینکوں کے شیرز کا سودا کرنے لگی۔ یہاں تک کہ فرد واحد کی صورت شپ بریکر ہونے کا اسٹیٹس بھی اسے حاصل ہو گیا۔ کسی بھی چالو سیاسی پارٹی میں شامل ہو کے کراچی ،لا ہور اورد بلی کی ڈیفنس سوسائی کے حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑنے اور کافی جوڑ تو ڑ کر کے جیت جانے اور لوک سبھا یا قومی اسمبلی یا سینٹ ممبر بنے کے مراحل کے دوران اُس نے کہاں کہاں اور کس کس کو مسکرا کے دیکھا، ہوائی ہو سے اچھالے اور کس کس شاندار بنگلہ کے شاندار بیڈ روم میں وی آئی پی ہستیوں کو ہم آغوشی سے نوازا۔ اس کا تو سرے سے اندازہ نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح خوشیا د لال نے جگہ بدلی تو اسے کراچی، لاہور اور دہلی میں سرکاری ایوانوں میں دیکھا جانے لگا۔ دیکھتے دیکھتے اُس نے ٹی وی سٹیشن اور دور درشن کیندور میں کلیدی عہدہ حاصل کر لیا اور اُسے اعلی افسروں کی خوشامد اور چاپلوسی کرتے کرتے چیف منسٹر گورنر اور وزیراعظم یہاں تک کہ صدر کے قریب پایا جانے لگا۔ پھر تھوڑے ہی عرصے بعد معلوم ہوا کہ کہیں اسے سرکاری زبان کی اکادمی کا چیر مین یا صدرنشین بنا دیا گیا یا کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا گیا۔ آخر اس کی پرانی پہچان یکسر خبط ہوگئی۔
تاہم اب اسی “سوگندھی” رنڈی اور اسی خوشیا دلال کے ادارہ پر نظر کی گئی تو نما یاں سطح پر دیکھا گیا تو بھارت اور پاکستان کے الکٹرانک میڈیا ٹی وی سیریل میں کمرشل ہندی اردو فلموں اداکاری ، رقص گا نےکی اور ہدایت کاری وغیرہ پرمشتمل ایوارڈز کے فنکشنوں میں ہائیلی کوائی فائیڈ اور امریکن لہچہ فرائے سے انگریزی بولتی ہوئی نیم بلکہ تین چوتھائی برہنہ ادا کا راؤں اور اسمارٹ ادا کاروں کو دیکھتے ہوئے کون انھیں سوگندھی اور خوشیا قرار دے سکتا ہے۔ بلکہ خوشیا نے توٹی وی سیریل یا کسی کمرشل فلم کا ہدایت کار بننے کے لئے پروڈیوسر اور پر ایو جک کو خاطر خواہ مال پانی پہنچایا۔ ایسے میں وہ خوشیا دلال تو نہیں رہا۔ اس کی جگہ اس کے بدلے ہوئے روپ کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مع اُس کے آلہ کاروں کے مدیر و مفکر اور دانش ور باور کرایا جائے گا۔ ویسے بھی دنیا بھر میں سیکس کا حصول تو یکسر تجسس سے عاری اور اور اتنا عمومی ہو چکا ہے کہ بہتات اور فراوانی سے اکتا کے مرد، نامرد اور عورتیں، ناعورتیں ہو چکی ہیں ۔ اکثریت بڑی حد تک خالی کھوکھلی اور اگزاسٹ ہو چکی ہے۔ ہزار ادا ، انداز اور اسٹائل کی نمائش کے باؤجود بھی سرے سے جسمانی اپیل ہوتی ہی نہیں۔ اس کے نتیجہ میں امریکن کا سمیٹکس کی پس ماندہ ملکوں میں بڑی کھپت ہے۔ اس سے امریکہ کروڑوں ڈالر کما رہا ہے۔ گو بہ ظاہر دنیا اشیا اور اسباب سے بھری پڑی ہے۔ میکڈونلڈ، کے ایف سی اور پزا ہٹ میں بے تحاشا کھاپی رہے ہیں یا بہ قول سارتر اپنی آنے والی موت کو بحال کر رہے ہیں۔ گلیوں میں انسان بھوک سے مر بھی رہے ہیں، بے بس بیمار اسپتالوں میں دم توڑرہے ہیں۔ مگر تعیشات اور آزار کے ملے جلے بلکہ مخبوط تناظر میں منٹو کی کہانی “ہتک” کی سوگندھی اور خوشیا تودر کنار ان کی لاشیں بھی نہیں مل سکتیں۔
سعادت حسن منو نے ” نور جہاں بہار جہاں” کے کردار کواپنی دانست میں خوب اسکیچ کیا۔ مگر منٹو کی موت کے بیس سال بعد نور جہاں کہاں سے کہاں جا پہنچی ، وہ منٹو کی اسکیچ کی ہوئی نور جہاں بہار جہاں تو سرے سے رہ نہیں گئی تھی۔ اس طرح منٹو کے لگ بھگ تمام کرداروں کی موت کے چھٹی دہائی کے دوران لکھی گئی کہانیوں میں کسی نئے کردار کی دریافت کی گنجائش رہی نہیں۔